پوری دنیا کو راہ راست پر لانے کا بیڑہ جوقبل ازیں القاعدہ والوں نے اور اب داعش والوں نے اٹھا لیا ہے اس کی وجہ سے نقصان تو پوری دنیا کے امن کو پہنچا ‘ مگر کرۂ ارض پر مسلمانوں کی حالت تو قابل رحم ہو چکی ہے۔
ابھی چند روز پہلے غالباً سولہ اکتوبر کو امریکہ کے شہر نیو یارک کے علاقے بروکلن میں ایک اکتالیس سالہ شخص اپنی بیوی اور بیٹے کے ہمراہ جا رہا تھا ‘ اور چلتے چلتے اپنی بیوی کے ساتھ عربی زبان میں گفتگو کر رہا تھاکہ عربی ان دونوں کی مادری زبان ہے‘ مگر اس بات سے دو امریکی بھائی اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے چاقو کے وار کر کے اس شخص کو زخمی کر دیا۔ ایک حملہ آور نے مبینہ طور پر چاقو کا وار کرنے سے پہلے میاں بیوی‘ دونوں کو مخاطب کر کے کہا: ''میں تمہیں چاقو مار رہاہوں اس لیے کہ تم عربی ہو اور تمہارے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے‘‘۔ ظاہر ہے کہ چاقو مارنے والے امریکی کا مطلب یہ تھا کہ ''تم عربی بولتے ہو لہٰذا تم مسلمان ہو اور مسلمان کے ساتھ یہی کچھ ہونا چاہیے ‘‘۔ اگرچہ دنیا میں کچھ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھی مادری زبان عربی ہے مگر یہ بات عام اور خاص امریکیوں کو معلوم نہیں۔
اس واقعے کو ہم دو متعصب امریکی بھائیوں کی کارروائی کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہاں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی الیکشن لڑنے کے خواہش مند سب سے اہم امیدوار Donald Trumpاپنی انتخابی مہم کے دوران امریکہ بھر کی مساجد کو بند کرنے پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔
میں اسّی کی دہائی میں امریکہ میں تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کی وہاں جو صورتحال تھی‘ وہ آج کے مقابلے میں بالکل مختلف تھی۔ مسلمان عام امریکیوں کی طرح وہاں محفوظ تھے اور کسی قسم کے تعصب کا نشانہ نہیں بنتے تھے۔ صرف اتنا تھا کہ جب کبھی وہاں کسی اہم منصب پر چنائو کا سوال آجاتا تو پھر ان کا معاشرہ صرف مسلمانوں کو نہیں باقی دیگر سب قومیتوں کو بھی نظر انداز کر کے‘ صرف سفید فام امریکی کو منتخب کرتا تھا۔ یہ ایسی بات تھی جس پر اعتراض تو ہوتا تھا مگر لوگ اس کو برداشت کئے ہوئے تھے۔
11ستمبر2001ء کے واقعات تو چلیں ایک معمہ بن گئے ہیں اور ممکن ہے اس میں کوئی ایسی سازش چھپی ہو جس کا اگر پرد ہ فاش ہو جائے تو معلوم ہو کہ القاعدہ کا ان حملوں میں کوئی کردار نہیں تھا‘ لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ اسامہ بن لادن نائن الیون سے پہلے بھی اپنے کارندوں سے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کروا چکا تھا۔ القاعدہ والے کچھ ایسی دیگر کارروائیاں بھی کر چکے تھے جن کے بعد امریکی صدر ‘ بل کلنٹن نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کے مبینہ ٹھکانوں کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
مزید برآں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے بیانات میں امریکیوں پر حملوں کے حوالے سے کھلے احکامات اب تک ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان حالات میں یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ کسی ایسی سازش کے تحت کروایا گیا تھا کہ مغربی دنیا کو اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے خلاف صف آرا کیا جائے تو پھر بھی اس تشدد کا آغاز تو القاعدہ والوں ہی کی طرف سے ہوا تھا۔
نائن الیون کے تین ماہ بعد اسامہ بن لادن نے قناۃ الجزیرہ تک اپنا ایک انٹرویو کیسٹ پر ریکارڈ کر کے بھجوایا تھا‘ جس کا اردو ترجمہ پاکستان میں بھی شائع ہوا تھا۔ اس انٹرویو میں اسامہ بن لادن نے نائن الیون کے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ یہ حملے موساد نے یا خود سی آئی اے نے کروائے ہوں گے مگر اس کے باوجود موصوف نے ان حملوں کو مبارک حملے قرار دیا تھا۔ اسامہ بن لادن کا انٹرویو اس طرح شروع ہوتا ہے:
''حمدو صلوٰۃ کے بعد۔ عالمی کفر اور کفر کے گڑھ امریکہ کے خلاف مبارک حملوں کے تین مہینے گزر جانے کے بعد اور اسلام کے خلاف شدید صلیبی حملوں کے تقریباً دو مہینے گزر جانے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس حادثے کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالیں کیونکہ اس نے مسلمانوں کے لیے بہت ساری انتہائی سبق آموز باتیں چھوڑی ہیں۔ یہ بات اب پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ مغرب بالعموم اور امریکہ بالخصوص اسلام کے ساتھ ایسا صلیبی کینہ رکھتا ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
اس کے بعد موصوف بیان کرتے ہیں کہ نائن الیون کا شبہ اگر آئرش ریپبلکن آرمی(IRA) پر ہوتا تو امریکہ کبھی آئر لینڈ پر اس طرح حملہ نہ کرتا جس طرح اس نے افغانستان پر کیا ہے۔ پھر اسرائیل کی زیادتیوں کا ذکر ہے‘ فلسطینیوں پر ظلم کا ذکر ہے۔ جزیرہ العرب سے مشرکین کو نکالنے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ مسلمان حکومتوں پر تنقید ہے اور مسلمان حکمرانوں کو امریکی یہودی لابی کا فرماں بردار بتایا گیا ہے۔ بعدازاں اپنی حکمت عملی دفاعی خطوط کے حوالے سے بیان کرنے کے بعد ایک حدیث بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ''اور وہ آدمی جس نے ظالم حکمران کو نیکی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اور اس ظالم حکمران نے اس کو قتل کر دیا تو وہ سید الشہدا جیسا درجہ پائے گا‘‘۔
اس بیان کے آخر میں اس کے باوجود کہ موصوف نے نائن الیون کے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور ان کو موساد یا سی آئی اے کا کام قرار دیا‘ نائن الیون حملہ کرنیوالوں کے بارے میں کہا کہ ان جوانمردوں اور امت کے جلیل القدر فرزندوں نے امت کی پیشانی سے ایک بڑا دھبہ دھو دیا ہے۔ ان کے بیان کے آخر میں درج ہے۔
''اب چند اشعار پڑھ کر گفتگو ختم کرتا ہوں اُن جوانمردوں کے لیے جو ایمان کی سرزمین حجاز سے نکلے یعنی وہ جو نمامد اور زہران کے علاقے سے اور حرب اور نجد سے گئے تھے‘ اللہ اُن کی شہادت قبول فرمائے اور جو مکہ مکرمہ سے گئے تھے یعنی سالم نواف الحازمی اور خالد المحضار اور جو نوجوان مدینہ منورہ سے گئے تھے جنہوں نے دنیا اور اس کی نعمتوں کو ''لاالہ الا اللہ ‘‘ کی خاطر ''ترک کر دیا تھا‘‘۔
اس کے بعد ان مجاہدین کی شان میں عربی اشعار ہیں جن میں ان کی شجاعت کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
اب جبکہ اس واقعے کو چودہ برس گزر چکے ہیں اور کافی چیزوں پر جو دھند چھائی ہوئی تھی وہ چھٹ چکی ہے تو بآسانی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مغرب کے خلاف جنگ کا آغاز القاعدہ کی ٹیم ہی نے کیا تھا۔ افغانستان میں سوویت یونین کو شکست ہوئی تو یہ مجاہدین بغیر کسی ہوم ورک کے مغربی دنیا پر چڑھ دوڑے۔ مغرب کی طرف سے ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو محکوم رکھنا‘ اسرائیل کی بے جا مدد کرنا اور فلسطینیوں کو نظر انداز کرنا تو ثابت ہے مگر ان میں سے کوئی اقدام بھی مسلمان دنیا کے خلاف اعلان جنگ نہیں کہلا سکتا۔
یہ کام ان عاقبت نا اندیش لوگوں ہی نے شروع کیا اور سوویت یونین کے انہدام کے دس برسوں کے بعد امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا کو مسلمانوں کے پیچھے لگا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کی شروع ہی سے نیت خراب تھی‘ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تو القاعدہ کی کارروائیوں کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ صرف نوے کی دہائی میں آپ دیکھیں گے مغربی دنیا کے مختلف تھنک ٹینکس نے مسلم تشدد پسندی کے حوالے سے رپورٹیں مرتب کرنا شروع کی تھیں اور اس دنیا کی بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ بل کلنٹن جیسے سمجھدار حکمران چلے گئے اور جارج بش اور ٹونی بلیئر جیسے حکمرا ن آ گئے جنہوں نے القاعدہ کے خلاف جنگ کو مفاد پرست Lobbisکے زیر اثر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں تبدیل کر دیا۔ عام مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں مگر سب سے زیادہ نقصان وہی اٹھا رہے ہیں ۔ جس طرح بھارت میں مسلمان دشمنی پر سیاسی جماعتیں الیکشن جیت جاتی ہیں‘ یہی صورت اب مغربی ملکوں میں ہو چکی ہے لہٰذا مستقبل میں بھی مسلمان ہی نقصان اٹھاتے رہیں گے ۔ واہ القاعدہ والو۔ واہ۔