سابق صدر آصف علی زردری کی سیاست کے بارے میں کہا جاتا تھا یہ اس قدر گہری ہے کہ اس پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اُن کی سیاست کی ناکامی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اُن کی جماعت کے امیدوار اپنے انتخابی پوسٹرز پر ان کی تصویر بھی لگانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ میری نظر میں جس سیاستدان کی طرز سیاست پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جانی چاہیے وہ ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہیں۔ سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ ایک آئینی ترمیم کے نتیجے میں اٹھارہ یا بیس کروڑ عوام کے اس ملک میں محض ایک شخصیت کو فائدہ پہنچا، یعنی تیسری بار وزیر اعظم بننے کی اجازت۔ زرداری صاحب کے دور میں کس طرح میاں نواز شریف نے اپنے لیے یہ راہ کھلوائی، اِس پر اُنہیں داد دینی چاہیے۔ آپ اندازہ کریں کہ یہ کس قدر خود غرضانہ مطالبہ تھا جو پوری پارلیمنٹ سے کیا جا رہا تھا، مگر یہ پہلو قوم کے سامنے آنے ہی نہیں دیا گیا اور ایسا جوڑ توڑ ہوا کہ میاں صاحب کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہوگئی۔
اب آتے ہیں بھارت کے ساتھ تعلقات پر۔ بھارت کے بارے میں میاں نواز شریف نے ایسی حکمت عملی اپنا رکھی ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ انہیں پاکستان میں اپنے حامی کی حیثیت سے دیکھنے لگی ہے۔ ماضی کے واقعات کو چھوڑیں، صرف مودی حکومت سے شروع کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تاجپوشی کا جو جشن منعقد کیا تھا اس میں میاں صاحب، برصغیر میں قیام امن کے مشن کی آڑ میں نئی دہلی جا پہنچے، ان واضح اشاروں کے باوجود کہ ان کا بھارتی وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں جانا، پاکستانیوں
کو ایسا تاثر دے گا کہ وہ بھارت کی برتری کے قائل ہو رہے ہیں۔ یہ بات اگرچہ ہماری مسلح افواج کو بھی اچھی نہ لگی اور پاکستان میں عمومی طور پر وزیر اعظم کی اس کوشش کو پسند نہیں کیا گیا مگر نئی دہلی کے حکمران میاں صاحب کے اس اقدام پر خوش تھے۔
تجارت کے میدان میں میاں صاحب کی حکومت دل کھول کر بھارت کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ وزیر تجارت کے نئی دہلی میں مذاکرات کے پس منظر میں بھارت کو یقین بھی ہوگیا تھا کہ نواز حکومت بھارت کو افغانستان اور پھر وسطی ایشیا تک تجارتی راستہ دے سکتی ہے، اگر پاکستان کی مسلح افواج کا ادارہ اس میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ کیسی زبردست سیاست ہے۔ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھارت کو تجارتی میدان میں سہولتیں دینے پر اس وقت تک راضی نہ ہو گی جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں کر دیا جاتا، مگر یہ سب کچھ کر کے بھی نئی دہلی میں یہ تاثر اور پختہ ہو گیا تھا کہ میاں نواز شریف ٹھیک آدمی ہیں، فوج ان کی نہیں چلنے دیتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر فوج کا ادارہ بھارت کو اس کی من پسند تجارتی سہولتیں دینے کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے تب بھی نواز شریف ایسا نہیں کریںگے، اس لیے کہ وہ پکے پاکستانی ہیں، لیکن سیاست کا دائو چلا کر بھارت کی نظروں میں ہر دلعزیز ہو گئے ہیں۔
باقی باتوں کی تفصیل میں نہیں جاتے، حال ہی میں دیکھ لیں اوفا(UFA) میں کیا ہوا؟ بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ جانتے بوجھتے ایسی دستاویز پر دستخط کر آئے جس کے Operational Part میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا۔ اس پر جو شور ہوا انہوں نے اسے اقوام متحدہ میں ایک تقریرکر کے ٹھنڈا کر دیا۔ ہمارے ملک میں جو بھارت نواز لابیاں ہیں، وہ بھی نواز شریف کی سخت حامی ہو چکی ہیں۔ بھارت کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ اس نے یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کی مین سٹریم سیاست میں نواز شریف کی حمایت موجود ہے، اپنی پرانی ساتھی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بظاہر تعلق توڑ لیا ہے۔ الطاف حسین بھی اپنی ایک جوشیلی تقریر میں را کو مخاطب کر کے وہ انداز اختیار کر چکے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اب اُن کواس پر بھروسہ نہیں رہا۔
اب اندرون ملک سیاست دیکھیے۔ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا اور فوج کے ساتھ دبی دبی کشیدگی شروع ہو گئی۔ پھر وہ حالات پیدا ہوئے جنہیں کوئی لندن پلان اورکوئی دھرنا سیاست کہتا ہے، لیکن جو کچھ بھی ہوا اس میں میاں نواز شریف نے ایک اور سیاسی دائو کھیلا اور بھارت کی نظروں میں اپنے بلند وقار کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں گر گئے۔ نواز حکومت پر جو دبائو آ گیا تھا اس طرح وہ کم ہونا شروع ہوا اور اب صورت حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے سیاسی حریف عمران خان کی جماعت کے پرخچے اڑ رہے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت مسلسل یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ عمران خان کی جماعت کو در پردہ فوج کی حمایت حاصل ہے۔ اب فوج کے ساتھ میاں نواز شریف ایک صفحے پر آ کر قوم پرکافی حد تک ثابت کر چکے ہیں کہ تحریک انصاف کا جو برا حال ہو رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج اب پی ٹی آئی کی حمایت کرنا ضروری خیال نہیں کرتی۔ میرے نزدیک یہ بھی بڑی سیاسی کامیابی ہے۔
اب آئیے مغربی دنیا سے تعلقات کی طرف۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ شروع دِن سے نواز شریف کو ایک ایسی سیاسی شخصیت باور کرتے ہیں جس کا جھکائو مذہب کی طرف ہے۔ اِن کے مقابلے میں بے نظیر بھٹو کو مغربی دنیا میں لبرل سیاستدان سمجھا جاتا تھا۔ آج کل میاں صاحب جو سیاست کھیل رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اب مغربی ملکوں کی نظر میں ہر دلعزیز ہونے کے طریقوں پر عمل ہو رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان کو لبرل اور جمہوری ملک بنانے کے جس عزم کا اظہارکیاگیا وہ اسی سیاست کا حصہ ہے۔ یہ چونکہ ابتدا ہے اس لیے فوری طور پر ممکن نہیں کہ میاں نواز شریف کو امریکہ اور برطانیہ ایک لبرل لیڈر کے طور پر قبول کر لیں، لیکن آئندہ دنوں میں آپ بہت سی ایسی کوششیں دیکھیں گے جو مذہبی پس منظر رکھنے والے نواز شریف کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتی ہوں گی۔
میاں صاحب نے ترکی کو بھی دوست بنا رکھا ہے، سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات ٹھیک ہیں، اگرچہ وہ پرانی بات نہیں رہی۔ لیکن اگر کوئی چیلنج سعودی عرب کو درپیش ہو گیا تو میاں صاحب ساتھ کھڑے ہوںگے۔ میاں صاحب بھارت میں ہر دلعزیز ہیں، کابل میں بھی تاثر یہی ہے کہ میاں صاحب افغانستان میں مداخلت نہیں چاہتے، مگر کیا کریں خارجہ حکمت عملی پر کنٹرول پاک فوج کا ہے۔ لیکن پاک فوج کے ساتھ بھی شیر و شکر ہو چکے ہیں۔ لبرل ہونے کا حال ہی میں اعلان کیا ہے۔ کیا اب بھی آپ میاں صاحب کو ایسا سیاستدان تسلیم نہیں کریں گے جن کے سیاسی دائو پیچ کا تجزبہ کرنے والے سکالر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ میاں صاحب نے ہر ایک کو تو رام کر لیا ہے۔ مغربی دنیا بھی ممکن ہے اُن کو لبرل سمجھ لے، لیکن ہر جگہ ہر دلعزیز ہونے والے نواز شریف سے درخواست ہے کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے لیے بھی صحیح معنوں میں ہر دلعزیز ہو جائیں۔ بڑے بڑے پراجیکٹس کو بریکیں لگا کر صحت، تعلیم جیسے شعبوں پر توجہ دیں۔ دیہی آبادی کو سکھ پہنچا کر کروڑوں کی دعائیں لیں۔ اگر خدا نخواستہ کوئی برا وقت آن پڑا تو جتنے بھی دوست بنائے ہیں کوئی کام نہیں آئے گا۔ اگر عوام کو دوست بنا لیا تو پھر کسی دوسرے دوست کی ضرورت نہ ہو گی اور یہ کہنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی کہ ''سب کہتے تھے قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں، لیکن جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا‘‘۔