اس کالم کا عنوان اصل میں ہالی وڈ کی پرانی مگر بہت مشہور و معروف 'فلم لو سٹوری‘ کا ایک ناقابل فراموش مکالمہ ہے۔ اس مکالمے کا مطلب واضح ہے کہ جہاں باہمی سچی محبت ہوتی ہے وہاں کچھ ہوجائے I am sorry کہنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی محبت کرنے والے ایک دوسرے کو اپنا ہی حصہ سمجھتے ہیں، ذہن میں کوئی تلخی پیدا ہونے ہی نہیں دیتے۔
میرے ایک دوست جو خود کومجھ سے بھی زیادہ بیگم کا ستم رسیدہ سمجھتے ہیں وہ بھی محبت کی اس تعریف کے قائل ہیں۔ موصوف کا قائل ہونے کا انداز البتہ ذرا مختلف ہے۔ میرے دریافت کرنے پر بولے کہ ہمارے گھر میں بھی کچھ ہو جائے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے یا میری بیگم کو ایک دوسرے کو I am sorry کہنا پڑا ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ گھر میں ہر قسم کا فیصلہ بیگم صاحبہ کرتی ہیں اور ان فیصلوں میں میری رائے تک شامل نہیں ہوتی۔ اور جب وہ فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں (جیسا کہ اکثرہوتا ہے) تو میرا I am sorryکہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بیگم صاحبہ I am sorry اس لیے نہیں کہتیں کہ ان کے اپنے بقول ان کا کوئی فیصلہ آج تک غلط ثابت نہیں ہوا۔
یہ داستان سنا کر بولے کہ اس طرح تو ثابت ہوگیا ناکہ میری اور بیگم کی باہمی محبت لازوال ہے اور لو سٹوری کے اس مکالمے کے عین مطابق ہے۔ میرے چہرے پر کچھ ایسے تاثرات دیکھ کر، جیسے مجھے ان کی باتوں کا یقین نہیں ہو رہا، بولے: دیکھو میں تمہیں آج صبح جو کچھ ہوا اس کی مثال دیکر سمجھاتا ہوں۔
ہوا یوں کہ گھر میں گیراج کے سامنے جہاں دھوپ نکلی ہوئی تھی، میں نے گاڑی کے Mat دھو کر سوکھنے کے لیے ڈالے ہوئے تھے۔ رات کو اے سی چلنے کی وجہ سے باہر رکھی ایک بالٹی میں جو پانی جمع ہوتا ہے اس کو بہرحال پھینکنا ہوتا ہے۔ بیگم صاحبہ چونکہ گھر کے تمام کام کاج کرنے پر فخر کرتی ہیں، انہوں نے وہ بالٹی اٹھائی اور گیراج میں پانی پھینک کر بالٹی واپس اپنی جگہ پر رکھ دی۔یہ تک دیکھنا مناسب نہ سمجھا کہ جو پانی پھینکا ہے وہ آگے جا کر دھوپ میں پڑے گاڑی کے Mat کو پھر سے بھگو گیا ہے۔ میں نے گھر کے اندر جا کر شکایت کی کہ Matپھر سے بھیگ گئے ہیں۔ مجال ہے جو موصوفہ نے یہ بات مانی ہو۔ بولیں موسم بدل گیا ہے۔ رات گھنٹہ بھر اے سی چلا ہوگا، تھوڑا سا پانی تھا، وہ کیسے آگے اتنی دور تک پہنچ گیا۔ میں نے عرض کی چل کر دیکھ لو مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں اور یہی کہتی رہیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا اور گھر کے اندر تشریف لے گئیں۔
خیردوپہر کو کھانا وغیرہ کھا کر گھرکے اندر ہی ٹہلنے کی غرض سے جب بیگم صاحبہ اس مقام تک گئیں جہاں Matسوکھ رہے تھے تو دیکھتے ہی بولیں، کوئی بھی پانی نہیں ہے، کہاں ہے پانی۔ بیگم کی اونچی آواز سن کر میں بھی جائے واردات پر پہنچا۔ وہاں واقعی پانی سوکھ چکاتھا۔ Mat بھی سوکھ چکے تھے اور بیگم کی بات بھی سچ ثابت ہو چکی تھی۔جب یہ سب کچھ موصوف نے بیان کیا تو میں قائل ہوگیا کیونکہ مجھے بھی اسی نوعیت کے کئی واقعات یاد آ گئے جو میرے اپنے ساتھ اپنے گھر میں بیت چکے تھے۔
یہ سب کچھ میں نے جس غرض سے تحریر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ان واقعات کو آپ ایک تمثیل سمجھیں، اس طرح کہ یہ باور کرلیں کہ ہمارے ملک میں ہمارے عوام کی حالت وہی ہے جو اس تمثیل میں شوہرکی ہے اور ہماری منتخب حکومت کا مقام اس تمثیل میں بیگم صاحبہ کا ہے۔ جس طرح اس تمثیل میں بیان کردہ میاں بیوی کی بے لوث محبت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ دونوں میں سے کسی کو بھی I am sorry کہنے کی نوبت نہیں آتی۔ اسی طرح ملک میں حکومت جو مرضی کر گزرے وہ ہمیشہ درست ہوتا ہے اور حکومت کو کبھی کسی پلیٹ فارم پر عوام کے سامنے I am sorry نہیں کہنا پڑتا۔ اور عوام جو کہ اس تمثیل کے مطابق شوہر ہے اور بیگم کے مجازی خدا کا درجہ رکھتی ہے اس کو I am sorry کہنے کی نوبت اس لیے نہیں آتی کہ اس بیماری کا حکومتی فیصلوں میں کوئی عمل دخل ہی نہیں ہوتا۔
عوام اور حکومت کے اس میاں بیوی والے تعلق کی اگر مثالیں دی جائیں تو کئی رجسٹر درکار ہوں گے۔ لیکن سمجھنے کے لیے آپ کسی اخباری خبر پر نظر ڈال لیں۔ پھر اس خبرکے پس منظر حقائق تک پہنچیں تو لامحالہ لازوال محبت کا یہی رشتہ سامنے آ جائے گا۔ میرے سامنے خبر ہے کہ تھرکے کوئلے کے ذخیروں کو حکومت بجلی بنانے کے لیے استعمال کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ یہ وزیراعظم نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کی خبر ہے۔
موصوف کے پہلے دور حکومت میں چینی ماہرین تھر میں آئے تھے اور انہوں نے بہت حوصلہ افزا صورت حال پیدا کر دی تھی مگر اس دور کی حکومت نے تھرکول منصوبے کو ایسی بریکیں لگائیں کہ آج تک وہ چینی اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، منتخب حکومت چونکہ بیان کردہ تمثیل کے مطابق بیگم صاحبہ ہیںجن سے غلطی سرزد ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا I am sorry کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر عوام بطور شوہرکے شکایت کریں گے تو ان کا وہی حال ہوگا جو Mat سکھانے والے شوہر کا ہوا تھا۔
اب اخبار کی خبر کے بجائے ٹیلی ویژن کی طرف آتے ہیں۔ آج کل آپ دیکھتے ہوں گے کہ حکومت ایک اشتہار چلا رہی ہے جس میں بیان ہوتا ہے کہ حکومت نے فلاں منصوبے میں 35 ارب روپے کی بچت کی۔ فلاں منصوبے میں 22ارب روپے بچت کی وغیرہ وغیرہ۔ ہماری بیان کردہ تمثیل کے مطابق یہ بیگم کے فرمودات ہیں۔ بطور شوہر عوام کو معلوم ہے کہ ان اشتہارات میں کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم فلاں منصوبے میں بآسانی 35ارب روپے بطورکمیشن کھا سکتے تھے مگر نہیں کھا سکے کیونکہ آج کل کرپشن کے حوالے سے صورت حال پہلے ہی کافی بدمزہ ہوچکی ہے۔
حقیقت تو یہی ہے مگر آپ بتائیں بھلا بیگم صاحبہ یہ بات مان لیں گی۔ ہرگز نہیں۔ موصوفہ سے تو غلطی ہوہی نہیں سکتی اور یہاں تو وہ شوہر پر یعنی عوام پر احسان جتا رہی ہے کہ دیکھو میری دیانتداری، میں نے اربوں روپے بطور کمیشن کھانے کے بجائے ان منصوبوں کی لاگت میں کمی کر دی ہے۔
لیکن بطور شوہر عوام خاموش رہنے پر مجبور ہیں، مگر دل میں وہ قائل ہیں کہ جونہی کرپشن کے خلاف ملک میں جو ایک بدمزہ سی صورت حال بعض ''جمہوریت دشمنوں‘‘ کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے وہ ختم ہو جائے گی تو یہی بیگم صاحبہ یعنی حکومت پھر اسی ڈگر پر چل نکلے گی جس کے نتیجے میں پاناما لیکس منظر عام پر آئی ہیں اور ان کا competitionایک مرتبہ پھر سوئس اکائونٹس والی پہلی بیگم کے ساتھ شروع ہو جائے گا جو اپنے پانچ سال پورے کرنے کے دوران میں ملک کی رگوں میں اندھیرا بھر گئی اور تمام اشیائے صرف کی قیمتوں کو کم از کم تین گنا بڑھا کر موجودہ بیگم کے اس دعوے پر روانہ ہوئی کہ گڑے مردے اکھاڑے نہیں جائیں گے۔