امریکیوں کو لازماً اس امر پر حیرت ہوتی ہو گی کہ دہشت گردی کے خاتمے اور اپنے ہاں اپنے طرزِ زندگی کی حفاظت کے لیے اُنہوں نے اربوں نہیں کھربوں ڈالر خرچ کئے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ نہ سید رضوان فاروق اور اُن کی اہلیہ کا قبل از واردات پتا لگا سکے اور نہ دیگر ایسی کارروائیوں سے اُن کے اپنے حساس ادارے اُن کو خبردار کر سکے جن میں تازہ ترین غالباً احمد خان رحامی کا واقعہ ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکہ نے ملک کے اندر سکیورٹی اداروں کی ایک مملکت قائم کر رکھی ہے۔ جس قسم کے ادارے جمہوری ملک اور جمہوریت پر فخر کرنے والے امریکہ نے اس ضمن میں قائم کئے ہیں ویسے تو سابق سویت یونین میں بھی موجود نہیں تھے جہاں کمیونسٹ حکومت مطلق العنان تھی۔
امریکی ریاست جارجیا میں جو نیشنل سکیورٹی ایجنسی قائم کی گئی وہ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کی جاسوسی کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اس میں ہر وقت چار ہزار سے زیادہ ملازمین مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے جاسوسی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ تو صرف مشرقی وسطیٰ کے لئے ہے، پوری دنیا کی جاسوسی کے لئے امریکی ریاست یوٹاہ میں 10 لاکھ مربع فٹ پر دو ارب ڈالر کی لاگت سے نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے۔
امریکہ میں اس وقت جاسوسی کے لئے بڑے ادارے قائم ہیں جن کا بجٹ 70 بلین ڈالر سالانہ بتایا جاتا ہے اور اس بجٹ کا کوئی آڈٹ وغیرہ نہیں ہوتا۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ اتنی رقم خرچ کرنے اور اتنے لوگوں کو دن رات ایک انتہائی بورنگ کام پر لگانے کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔ کوئی ادارہ بھی وہاں یہ گارنٹی دینے سے قاصر ہے کہ ملک میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو گا جس سے پورے معاشرے میں خوف کی لہر دوڑ جائے اور امریکہ کا طرز زندگی، جس کی حفاظت کے لئے امریکی حکومت سب کچھ کرنے کو تیار رہتی ہے، خطرے میں پڑتا دکھائی دے۔ میں نے جو انتہائی بورنگ کام لکھا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ہزاروں لوگ مختلف فون کالز، ای میلز اور مواصلاتی پیغامات کا دن رات جائزہ لیتے ہیں، وہ اس کام کو انتہائی بورنگ کام سمجھتے ہیں۔ یہ کام بالکل ایسا ہوتا ہے کہ کسی کباڑ خانے میں ایک سوئی ڈھونڈنا پڑ جائے۔
اب حال ہی میں یورپ میں جو دہشت گردی کے کچھ نمایاں واقعات ہوئے ہیں، تو وہاں بھی اب مجبوراً یہی کام کرنا پڑ رہا ہے؛ تاہم عام خیال یہ ہے کہ یورپ کے لوگ اس حد تک نہیں جائیں گے جس حد تک امریکہ گیا ہے کہ اپنے ملک کے اندر سراغ رساں اداروں کی ایک ایسی مملکت قائم کر لیں جو نہ کسی کو جوابدہ ہو اور نہ اس کے اکاؤنٹس کا آڈٹ ہوتا ہو۔
مغربی تہذیب شخصی آزادیوں کے بغیر ایک بے معنی تہذیب بن جاتی ہے۔ اس امر کا احساس ابھی تک مغربی ملکوں میں دکھائی نہیں دے رہا اور حکومتیں اور عوام بظاہر اس تاثر کے نیچے دبے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردی کے ذریعے مغربی طرز زندگی کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاثر ہر لحاظ سے بے حقیقت ہے لیکن اس وقت جبکہ داعش اور القاعدہ جیسی تنظیمیں مسلمانوں کی نمائندہ بن کر آگ اور خوف کا کھیل کھیل رہی ہیں، مغرب میں اس تاثر کو محض یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے۔ ویسے بھی خاص طور پر امریکہ جو اربوں کھربوں ڈالر دہشت گردی روکنے کے اداروں کے قیام پر خرچ کر چکا ہے وہ کبھی اس تاثر کو کم یا ختم ہونے نہیں دے گا۔ لہٰذا مغرب میں اب صورت حال یہ بن چکی ہے کہ شخصی آزادیوں کا معاملہ دب چکا ہے اور ہم کبھی حجاب پر پابندی کا سنتے ہیں اور کبھی ساحل سمندر پر جانے والے، اسلامی لباس کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہیں ؛ حالانکہ دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ سے پہلے کے مغرب پر اگر آپ ایک نظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اُس دور میں ایسی پابندیوں کا سوچنا بھی محال تھا۔ امریکہ میں تو اس کے آئین کی موجودگی میں کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ ملک کو ایک سکیورٹی سٹیٹ بنایا جا سکتا ہے مگر جو بات ہونا ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔
11 ستمبر 2001ء کے واقعات پر سوالات تو اب تک اُٹھائے جاتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹاورز گرے تھے اور پنٹاگون پر حملہ ہوا تھا۔ اِن واقعات نے امریکی عوام کو خوفزدہ کر دیا اور یوں امریکی حکومت پہلے The Patriot Act لائی، پھر سی آئی اے نے ایسے علاقے قائم کئے جہاں امریکی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے اور جہاں اذیت رسائی کے ذریعے تفتیش کی جا سکے۔ پھر امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے خفیہ طور پر بغیر وارنٹ کے امریکیوں اور غیر امریکیوں کی جاسوسی کی اجازت دیدی۔ ہم نے وہاں Indefinite Detention جیسی اصطلاحات سنیں اور گوانتانامو بے کو تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کیا شے ہے۔ یہ سب
کچھ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور ملک کو محفوظ رکھنے کے نام پر مسلسل جاری ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اِن کارروائیوں کی شدت میں کافی کمی آچکی ہے مگر موجود ہیں اور شخصی آزادیوں کے مغرب کے دعوؤں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ خوفناک بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اداروں کی موجودگی میں ایسی کارروائیوں میں پھر سے شدت بھی آسکتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ، جو انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی تھی وہ اب جنگ کے طور پر مزید گھناؤنی ہو چکی ہے اور افغانستان، عراق، شام سمیت بہت سے ملک اب تک اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ پاکستان بھی اس جنگ سے بُری طرح متاثر ہے لیکن اس جنگ نے مغرب میں شخصی آزادیوں اور حکومتی کنٹرول کے درمیان جو رسہ کشی کا ماحول پیدا کر دیا ہے، وہ مغربی تہذیب کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
اس وقت جو کچھ مغربی ملکوں میں سکیورٹی کے نام پر ہو رہا ہے اس نے مغربی ممالک میں ماضی میں تخلیق ہونے والے ادب عالیہ کو شرمندہ کر دیا ہے۔ اِن ملکوں نے عدل کے میدان میں جو جھنڈے گاڑے تھے وہ تمام جھنڈے ایک ایک کر کے اکھڑ رہے ہیں۔ جو لوگ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال پر نظر رکھتے ہیں وہ بغور اِن پیش رفتوں کا جائزہ لے رہے ہیں جو واضح طور پر پتا دیتی ہیں کہ مغربی تہذیب اپنے عروج سے اب اپنے زوال کی طرف گامزن ہے۔