ہمارے ہاں جب اٹھاون ٹو بی کی مدد سے حکومت کو گھر بھیج دیا جاتا تھا، اُس زمانے میں فارغ ہونے والی حکومت کا جو حال ہوتا تھا تقریباً وہی حال اس مرتبہ امریکی انتخابات میں صدر کے عہدے کی امیدوار ہیلری کلنٹن کا ہوا۔ آپ پوچھیں گے کیسے؟ ہیلری کلنٹن تو ابھی منتخب نہیں ہوئی تھی۔ نہیں جناب، ہیلری کلنٹن کو رائے عامہ کے جائزوں اور میڈیا رپورٹوں کی مدد سے پختہ یقین ہو گیا تھا کہ وہ ایک طرح سے صدر بن چکی ہیں۔ اپنے شوہر بل کلنٹن اور دیگر اہم ساتھیوں کی مدد سے ہیلری نے بطور صدر حکومت کرنے کا مکمل نقشہ تیار کر رکھا تھا اور موصوفہ کو بس آٹھ نومبر کا انتظار تھا کہ یہ دن آئے اور اس چغد سے، جس کو ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں، نجات ملے۔ لہذا ہیلری کلنٹن ایک طرح سے برسراقتدار ہی تھیں کہ اُن کی حکومت پر وہاں کے ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ویسا ہی وار کر دیا جیسا ہمارے ہاں سول حکومتوں پر ہوتا رہا ہے۔
ہیلری کلنٹن امریکہ کے اُن برسر اقتدار لوگوں میں شمار ہوتی آئی ہیں جو پوری دنیا میں حکومتیں بدلنے کو، جسے وہ Regime Change کہتے ہیں، اپنا حق سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں برسر اقتدار ان لوگوں نے پوری دنیا میں کیا کیا گُل کھلائے ہیں! اپنی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مدد سے 1953ء میں برطانیہ کو بھی ساتھ ملا کر ایران میں ڈاکٹر مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر شاہ ایران اور اس کی خفیہ تنظیم ساواک (SAVAK) کو اقتدار دلوایا۔ ایک سال بعد جنوبی امریکہ کے ملک گوئٹے مالا میں بھی یہی گُل کھلایا اور وہاں ایک فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار میں لایا گیا۔ دس برس بعد 1964ء
میں برازیل میں سی آئی اے کی مدد سے منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ اسی طرح 1973ء میں چلّی میں ایک منتخب سوشلسٹ حکومت ختم کروائی اور فوج کو اقتدار دلوا دیا۔ ہیلری کلنٹن جن لوگوں کی نمائندہ تھی یہ اُن کے کچھ کارناموں کی جھلک ہے اور یہ وہ کارنامے ہیں جو خفیہ رہ کر سازشوں کے ذریعے کئے گئے۔ اس کے بعد زمانہ آتا ہے11 ستمبر کے حملوں کے بعد کا جب دنیا میں حکومت تبدیل کر دینا یعنی Regime Change اس ٹولے کا حق بن گیا۔ کوئی خفیہ سازش نہ کی گئی بلکہ براہ راست انتہائی بے شرمی کے ساتھ اپنی اُس فوج کو استعمال کیا جس کو امریکہ دنیا کی سب سے طاقتور فوج کہتی ہے اور جس کا بجٹ دنیا بھر کے فوجی بجٹوں کو اپنی مٹھی میں لپیٹ سکتا ہے۔
افغانستان عراق اور پھر لیبیا میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن اب جو امریکہ میں ہوا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ کہتے ہیں ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب میں ایف بی آئی کی مداخلت امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ ہیلری کلنٹن اور ان کے حامیوں کا تجزیہ یہی ہے کہ انتخاب سے محض گیارہ روز پہلے جو ان کی ای میلز کی پھر سے انکوائری کرنے کا خط جاری کیا، تو وہ پیٹھ میں خنجر ثابت ہوا۔ میری نظر میں اس اقدام کی مماثلث، ہمارے ہاں کی سول حکومتوں کو برخاست کرنے کے اقدام جیسی ہے کہ اپنے ملک کا اپنا ہی ایک ادارہ اقتدار کو ختم کر دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے‘ تو امریکیوں نے پوری دنیا میں سازشوں سے حکومتیں بدل بدل کر جیسا بویا تھا، اب اس کا پھل اپنے ملک میں وہ کاٹ رہے ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا منتخب ہو جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ جو لوگ تاریخ کے طالب علم ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات اکثر ایسی تباہیوں کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں جو قوموں کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں۔ ابھی تک تو ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم نوازشریف سے فون پر بات کی ہے۔ میاں صاحب کی بھی تعریف کی ہے۔ پاکستانیوں کی بھی تعریف کی ہے۔ پاکستان کا دورہ کرنے کی بھی ہامی بھری ہے اور ہمارے تنازعات حل کرانے میں مدد کا بھی عندیہ دیا ہے مگر یہ سب باتیں انگریزی محاورے کے مطابق Too Good To beTrue معلوم ہوتی ہیں۔
ادھر واشنگٹن میں یہ ہو رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب اپنی آنے والی حکومت کے لیے چن چن کر نسل پرست، اسلام سے نفرت کرنے، ایران سے نفرت کرنے اور گنے چنے کھرب پتی لوگوں کی ایک ایسی ٹیم بنا رہے ہیں جو فوجی طاقت کو اور بڑھاوا دے گی اور دنیا بھر میں کسی کی بات نہیں سنے گی۔ جو من میں آئے گا کر گزرے گی۔ 9/11 کے بعد جارج ڈبلیو بش نے حکام کو اذیت رسانی کے جو اختیارات دیے تھے اور عام لوگوں کی، ہر قسم کی جاسوسی کرنے کی اجازت دی تھی، وہ اختیارات جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کے پاس ہوں گے تو عجب تماشہ لگے گا۔ اگر ہیلری کلنٹن جیت جاتی تو امریکہ اس تماشے سے بچ جاتا۔
بے چاری ہیلری کلنٹن کے ساتھ جو یہ واردات ہوئی تو ہوئی کیسے؟ کہتے ہیں کہ ایف بی آئی میں کچھ ایجنٹ ایسے ہیں جو ہیلری کلنٹن اور جس گروپ کی وہ نمائندہ ہیں، ان سے سخت نفرت کرتے تھے۔ یہ سب ان ایجنٹوں کی کارستانی تھی، لیکن ایف بی آئی کے ڈائریکٹر بھی بظاہر ان ایجنٹوں کے ہمنوا تھے کیونکہ ڈائرکٹر Jame Comey کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ الیکشن کے اتنا قریب پھر سے تحقیقات کرنے کا اعلان نہ کریں۔ مگر جو ہوا سب کو معلوم ہے۔ حالانکہ ایف بی آئی کی یہ شروع سے پالیسی رہی ہے کہ جب صدارتی انتخاب میں دو ماہ باقی رہ جائیں تو کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جاتا جو انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو سکے۔ Jame Comy نے مگر یہ کر دیا اور ان پر بہت تنقید ہوئی اور تنقید بھی دونوں جماعتوں یعنی ڈیمو کریٹک اور ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایف بی آئی اور ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے سابق سینئر عہدیداروں کی طرف سے ہوئی۔ امریکہ میں اب یہ ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ ایف بی آئی کے اس اقدام سے سسٹم کو جو نقصان ہوا ہے وہ اب درست نہیں ہو سکتا۔ Comy کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے کانگریس سے وعدہ کیا تھا کہ ای میل سرور کیس میں جو نئی بات سامنے آئے گی وہ کانگریس کے علم میں لائیں گے۔ بہرحال ایسا کرنے سے سسٹم کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے امریکہ میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ مسلمان اپنی جگہ پر سوچ رہیں ہیں کہ آنے والے وقت میں کیا کرنا چاہیے۔ اسی طرح امریکہ میں دیگر اقلیتوں کو بھی فکر لگی ہے۔ ادھر امریکی حکومت کے ادارے، ہر روز ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کھلائے جانے والے نئے گل پر حیرت زدہ ہیں اور انتہائی محتاط انداز میں کہتے ہیں کہ جب اگلے برس جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ باقاعدہ صدر بنیں گے تو امید ہے وہ مختلف حکومتی اداروں کی بات سنیں گے۔
امریکہ میں باخبر لوگ کہتے ہیں کہ Jame Comy کا بل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن سے تعلق پرانا ہے۔ انہوں نے نوے کے عشرے میں ہیلری کلنٹن کے مالی لین دین سے متعلق وائٹ واٹر ریئل سٹیٹ سکینڈل کی تحقیقات کی تھی اور جب بل کلنٹن نے اس سکینڈل کے مرکزی کردار کو معافی دیدی تو Jame Comy بہت پریشان ہوئے تھے۔ لہذا ان لوگوں کے بقول ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو مسٹر اینڈ مسز کلنٹن سے ممکنہ طور پر ذاتی پرخاش بھی ہو سکتی ہے جو اس اقدام کا سبب بنی۔ اس طرح امریکہ نے وہ تھوڑا سا اپنے ہاں بھی دیکھ لیا جو وہ دوسرے ملکوں میں کرتا پھرتا ہے۔