ہمارے دوست رضی احمد رضوی جو وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں منیجنگ ایڈیٹر ہیں بتایا کرتے تھے کہ جس روز ڈھاکہ میں ہماری افواج نے ہتھیار ڈالے وہ کراچی میں ٹیلی ویژن میں ملازم تھے۔ شام کے وقت خبرآ چکی تھی اور انتہائی افسردگی کا عالم تھا جب ایک فون آیا۔ پہلے تو جی نہ چاہا کہ فون اٹھائوں مگر گھنٹی بجے جا رہی تھی۔ آخر فون اٹھایا تو کوئی صاحب بولے۔ بڑی کرخت آواز میں کہنے لگے۔ ''بھئی یہ آپ لوگوں نے کیا سکوت ڈھاکہ و سکوت ڈھاکہ لگا رکھا ہے‘ یہ لفظ بڑے ق اور ط کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا تلفظ ہے سقوط ڈھاکہ ۔رضوی صاحب کا بیان تھا کہ اُن صاحب کی بات اُس وقت بہت بری لگی۔ بھئی خدا کی پناہ ملک دو ٹکڑے ہو گیا اور یہ شخص سقوط اور سکوت کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔
میں جب بھی کبھی ٹیلی فون پر سکوت اور سقوط کی بات کرنے والے شخص کے بارے میں سوچتا ہوں تو واقعی بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کتنے ایسے لوگ تھے یا ہیں جن کو اس المیے کا صحیح احساس نہیں ہو سکا۔ بلکہ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں جو کسی ایک آدھ انائونسر نے کم علمی کی وجہ سے سکوت ڈھاکہ کہہ دیا ہو گا تو درست تو وہی بات نکلی۔ہم نے بحیثیت قوم اس المیے پر سکوت اختیار کر رکھا ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بہت تبصرے کئے جا چکے ہیں۔ مغربی پاکستان کی زیادتیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ بنگالی زبان کے ساتھ ناانصافی کا ذکر ہوتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی کی اکثریت کو (Parity) کے فارمولے سے دبانے کی بات ہوتی ہے اور بھی بہت سے ماہرین بڑی باریک باریک باتیں سمجھاتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر بھارت‘ سوویت یونین کی مدد سے مشرقی پاکستان پر حملہ آور نہ ہوتا تو کیا پاکستان دو ٹکڑے ہو سکتا تھا۔ بنگالی جس قدر اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے لگے تھے مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے لیے زیادہ دیر مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافیاں کرنا ممکن ہی نہیں رہنا تھا۔ مگر کیا کریں سازش ہو گئی۔
اب ڈاکٹر ہنری کسنجر جو قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا ہے یہ کہہ رہا ہے کہ جنرل یحییٰ نے صدر نکسن کو یقین دلایا تھا کہ وہ مارچ 1972ء تک مشرقی پاکستان کو آزادی دے دے گا۔ ہم نے اس زمانے میں جو کچھ باخبر لوگوں سے سنا تھا وہ یہ تھا کہ یحییٰ خاں‘ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے پس منظر میں اگلی حکومت میں مشرقی پاکستان کو کئی شعبوں میں Autonomy دینا چاہتا تھا۔ ممکن ہے اس بات کو ہنری کسنجر بڑھاپے کی وجہ سے اس طرح بیان کر رہا ہو کہ مشرقی پاکستان کو مکمل طور پر آزاد کرنے کی بات ہو رہی تھی۔ ایسی کوئی بات بھی نہیں تھی اُس وقت۔
یہ تو ایک سازش تھی جس کو بین الاقوامی شطرنج کے بڑے بڑے کھلاڑی جانتے تھے۔ بعض جانتے تھے مگر روک نہیں سکتے تھے اور بعض خوش تھے کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اس سازش کے چھ بڑے کردار تھے۔ جنرل یحییٰ‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن‘ اندراگاندھی‘ الیکسی کوسیگن اور صدر نکسن۔ ان میں سوویت وزیراعظم الیکسی کوسیگن اور بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی اصل سازشی تھے۔ باقی چار کرداروں نے جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے واقعات کو ہونے کی اجازت دیتا ہے تو اس کے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ عقل و فہم والے لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے کوشش کی ہے کہ ہم پنتالیس برس قبل ہونے والے اس سانحے سے کوئی سبق حاصل کریں۔ مجھے تو صرف بیان
بازی ہی دکھائی دی اِن تمام برسوں میں۔کراچی میں ہمارے احباب میں شامل محترم شاہد ہاشمی صاحب نے اس حوالے سے ایک مختصر تحریر بھیجی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں۔ ''سولہ دسمبر کا دن آ رہا ہے۔ اب سے پنتالیس سال قبل ہمارے ملک کو بیرونی مداخلت اور عسکری جارحیت کا سنگین اور ہولناک سامنا کرنا پڑا تھا۔سولہ دسمبر کو ڈھاکہ پر جارح ہندوستانی فوج کا قبضہ مکمل ہوا تھا اور دفاع پاکستان پر مامور افواج کو ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم اس سانحے کو بھلا بیٹھی ہے۔ ہمارے اجتماعی ضمیر و نفسیات میںاور ہمارے شعور و لاشعور میں اس عبرتناک واقعے کا کوئی اثر کوئی عمل دخل ہی نہیں۔بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس ''بھلاوے‘‘ کا بھی بڑا عیارانہ‘ بے رحمانہ اور بھرپور اہتمام کیا جاتا رہا ہے ؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
نتیجتاً آج ہمارے نوجوان اپنی ملی تاریخ کے اس دردناک باب سے ناواقف‘ یا کم ہی آگاہ ہیں۔
لہٰذا ایک عاجزانہ رائے ہے کہ کم از کم ہم لوگ اپنے خاندان کے بچوں اور بچیوں کو سولہ دسمبر یا اس کے آس پاس کھانے پر جمع کریں انہیں پاکستان حاصل کرنے اور بعد میں اس کی حفاظت نہ کر سکنے کی تاریخ کے کچھ ابواب‘ کچھ حصے‘ کچھ قصے سنائیں‘ سمجھائیں یاد کرائیں۔ تاکہ ہماری اگلی نسلوں کے اجتماعی شعور اور لاشعور میں‘ اس دردناک‘ چشم کشا اور سبق آموز واقعہ کی آگہی‘ شدت احساس اور قوت عمل بخشنے والی خلِش‘ زندہ بھی رہے اور کارفرما بھی ہو۔امسال سولہ دسمبر کو جمعہ ہے اسی شب یا اگلی شب (سترہ دسمبر کو) یہ نشست ہو سکتی ہے۔اس عاجز کی رائے ہے کہ ہمیں سارے کام اہل اقتدار و اختیار پر نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ نجی سطح پر خود بھی کچھ اچھی روایات کی داغ بیل ڈالنی چاہیے۔خدا کرے کہ امسال ہماری حکومت‘ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے کو بھلانے‘ دبانے یا اس سے نظریں چرانے کی غلطی نہ کرے‘‘یہ وہ تحریر ہے جو ہمارے احباب میں شامل شاہد ہاشمی صاحب نے بھیجی ہے۔
اتنی موثر تحریر کے بعد اب کچھ اور لکھنے کو جی نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحے پر سکوت اب بھی اگر ہم ختم نہ کر پائے تو خداوند کریم نے جس غرض سے اس سانحے کو وقوع پذیر ہونے کی اجازت دی تھی وہ غرض پوری کرنے میں ہم بحیثیت قوم کلی طور پر ناکام ٹھہریں گے اللہ تبارک تعالیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ تو غنی بھی ہے اور حمید بھی۔