"ARC" (space) message & send to 7575

سو فیصد سچائی صرف اللہ کے کلام میں ہے

انسان کا علم کتنا بھی حیران کن کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں جا کر اس کی قلعی کھل جاتی ہے اور نقص سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی بہت بڑی مثال تو مشہور زمانہ سائنسدان آئزک نیوٹن کی ہے جس کی سائنسی دریافتوں پر صدیوں تک سائنس کی عمارت کھڑی رہی لیکن جب زمین سے باہر نکل کر خلاء میں جانے کا موقع آیا تو نیوٹن کا حساب کتاب ساتھ نہ دے سکا اور آئن سٹائن نے جو کُلیے دریافت کیے تھے وہ کام آئے اور انسان چاند پر بھی پہنچا اور دیگر خلائی معرکے بھی سر کیے جو تاحال جاری ہیں۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کی سائنسی دریافتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ آنے والے زمانوں میں موصوف بھی قصہ پارینہ ہو جائیں گے۔
اسی طرح مستقبل کی پیش گوئیوں کے لیے Nostradamus مشہور ہے۔ مستقبل کی کئی انتہائی صحیح پیش گوئیاں موصوف سے منسوب ہیں لیکن اس زمانے تک آتے آتے ان کی پیش گوئیاں مزاحیہ مضامین معلوم ہوتی ہیں؛ حالانکہ پچھلی صدی کے وسط تک مغربی دنیا میں خاص طور پر Nostradamus کی پیش گوئیوں کو بہت وقعت دی جاتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں اڈولف ہٹلر کے دست راست جوزف گوئبلز(Goebbels)نے Nostradamus کی جعلی پیش گوئیاں، جن میں جرمنی کی فتح کی نوید تھی، اشتہارات کی شکل میں برطانیہ کے شہروں میں ہوائی جہازوں کے ذریعے شہریوں تک پہنچا کر ان کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی تھی، جس کے جواب میں پھر برطانیہ نے بھی اسی قسم کے اشتہارات جرمن عوام تک پہنچائے تھے، جن میں اتحادیوں کی فتح اور جرمنی کی شکست کی پیش گوئیاں، Nostradamus سے منسوب کی گئی تھیں۔
Jeane Dixon ایک امریکی خاتون تھیں جنہوں نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی پیش گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہوئی۔ لیکن موصوفہ نے اپنی اسی روحانی طاقت کے زور پر یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ 2000ء میں پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔ جین ڈکسن کا کہنا تھا کہ 1998ء اور 1999ء میں حالات خراب ہوں گے مگر پھر ایک سال بعد پوری دنیا پرامن ہو جائے گی۔ آپ خود دیکھ لیں کہ 2000ء اور اس کے بعد دنیا میں کتنا امن قائم ہوا ہے۔
اسی طرح اور بھی مشہور لوگوں کے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں، جن میں ان کی کہی کچھ باتیں درست نکلیں اور کچھ غلط ثابت ہوئیں۔ یہ سب کچھ صرف مشہور و معروف لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ زندگی میں آپ کو بعض اوقات ایسے غیر معروف لوگ بھی ملتے ہیں جن کی بعض باتیں سچ نکلتی ہیں۔
مجھے یاد ہے، ستر کے عشرے کے وسط میں میرے ایک دوست اپنے ہمراہ ایک خان صاحب کو میرے دفتر لایا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کا اقتدار عروج پر تھا۔ ریڈیو کے پروگرام بھٹو صاحب کی مدح سے پُر ہوتے تھے۔ یہ 1976ء کے آخری مہینوں کی بات ہے کہ مذکورہ خان صاحب میرے دوست کے ہمراہ میرے دفتر میں بیٹھے تھے کہ انہوں نے کوئی حساب لگا کر بتایا کہ اگلے برس بھٹو صاحب کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔ مجھ سے ہنسی نہ روکی جا سکی کیونکہ بھٹو صاحب کی اقتدار پر جس طرح کی گرفت تھی، ایسا سوچنا بھی حماقت معلوم ہوتا تھا۔ میرے ہنسنے پر خان صاحب ہلکے سے خفا ہوئے اور بولے، اور پھر چند برسوں میں بھٹو صاحب دنیا سے ہی رخصت ہو جائیں گے۔ خیر ایسی باتوں کا کیا جواب ہو سکتا تھا۔ خان صاحب البتہ تھوڑے سے ناراض‘ میرے دوست کے ہمراہ رخصت ہوگئے۔
بعدازاں جب جولائی1977ء آیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا تو خان صاحب تو ہمارے لیے ایک ہستی بن گئے۔ ہر کوئی ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ پھر اپریل 1979ء اور بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی تو خان صاحب کا سکّہ اور بھی جم گیا۔ پھر کیا ہوا کہ خان صاحب نے 1980ء میں ایک اور پیش گوئی کی کہ بھارت پاکستان پر ایٹمی حملہ کرے گا اور کراچی اور لاہور تباہ ہو جائیں گے۔ ان کو اپنی پیش گوئی پر اس قدر یقین تھا کہ اپنی بیوی کا جو کہ لاہور کے ایک کالج میں ٹیچر تھیں، راولپنڈی کے ایک کالج میں تبادلہ کروا لیا اور پوری فیملی راولپنڈی منتقل ہو گئی۔ میں اور میرے چند دوست جو خان صاحب کی پیش گوئیوں سے واقف تھے، بہت پریشان ہوئے کہ کہیں یہ پیش گوئی بھی درست ثابت نہ ہو جائے۔ ہم تو اپنا تبادلہ کروانے پر قادر نہیں تھے وگرنہ شاید کروا لیتے۔ ہم دوست ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے کہ خان صاحب نے فلاں شخص کو بتایا تھا کہ وہ ملک سے باہر چلا جائے گا مگر وہ تو ابھی ادھر ہی پھر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھارت کے پاکستان پر ایٹمی حملے کا وقت خان صاحب نے مارچ1981 ء بتا رکھا تھا۔ ڈرتے ڈرتے جب یہ زمانہ گزرا تو ہمارا خوف ختم ہوا۔ اس دوران میں خان صاحب دوبارہ لاہور آ چکے تھے، بیوی بیچاری البتہ وہیں راولپنڈی میں پھنسی ہوئی تھی کیونکہ دوبارہ ٹرانسفر محال تھا۔ خان صاحب کی دوبارہ لاہور میں موجودگی کا پھر ہم لوگوں نے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی۔ کافی تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔
آج کل ٹی وی پر بھی مستقبل کی باتیں بتانے والے آتے ہیں۔ کئی بار ان لوگوں کے حساب سے عمران خان وزیر اعظم بن چکا ہے اور کئی بار نواز شریف کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ انتخابات سے قبل ان لوگوں کے اندازے اکثر انتخابات کے نتائج والے دن بالکل غلط ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی پیش گوئی ان لوگوں کی درست ثابت ہو جائے تو اس کی مدد سے اپنی ساکھ مسلسل قائم رکھتے ہیں۔
جس طرح میں نے شروع میں عرض کیا کہ انسان کا علم کتنا بھی حیران کن ہو کبھی نہ کبھی اس کی قلعی کھل جاتی ہے کیونکہ وہ سچائی جو سو فیصد سچائی ثابت ہوتی ہے وہ اس دنیا کے بنانے والے کی باتیں ہیں جو اس نے اپنی کتاب یعنی قرآن پاک میں بیان کی ہیں۔ آج تک اس کتاب کی کوئی بات معمولی سی غلط بھی ثابت نہیں ہو سکی اور ہو سکتی بھی نہیں۔
انسانوں کی باتیں سو فیصد سچ اس لیے نہیں ہوتیں کہ پروردگار نے یہ ہنر انسان کو دیا ہی نہیں۔ جو چیز انسان کو دی ہی نہیں گئی وہ کیسے اس کے پاس ہو سکتی ہے۔ پیغمبروں کی باتیں جو سو فیصد سچ ہیں وہ رب کریم کے علم کا عکس ہوتی ہیں۔ انسانی عقل کی یہ مجال نہیں ہے۔
آخر میں ذکر کروں گا رشاد خلیفہ (Rashad Khalifa) نامی ایک مصری شخص کا جس نے 1974ء میں کمپیوٹر کی مدد سے یہ دریافت کیا کہ قرآن پاک میں 19کے عدد کی خاص اہمیت ہے۔ تفصیل میں جائیں تو حیران کن دریافت تھی اور شروع میں تو معروف مذہبی سکالر احمد دیدات اور ڈاکٹر اسرار احمد تک اس کے گرویدہ ہو گئے تھے۔ جس طرح میں نے عرض کیا کہ انسان کی سو فیصد حقیقت تک رسائی ہو ہی نہیں سکتی، لہٰذا اس شخص کے حساب میں قرآن کی سورہ توبہ کی آخری دو آیتیں فٹ نہیں بیٹھتی تھیں۔ موصوف نے جھوٹے نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا اور ان دونوں آیتوں کو قرآن کا حصہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال میں احمد دیدات اور ڈاکٹر اسرار نے بھی اس جھوٹے پر لعنت بھیج دی۔ امریکہ میں 1990ء میں اس ملعون کو قتل کر دیا گیا تھا وگرنہ اب تک پتا نہیں کس قدر فساد ہو چکا ہوتا۔ اتنے مذہبی سکالرز کو متاثر کرنے والے اس شخص کا علم بھی ناقص نکلا کیونکہ سو فیصد سچائی اللہ ہی کے پاس ہے۔ انسان کو یہ چیز دی ہی نہیں گئی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں