"ARC" (space) message & send to 7575

یہودی اور صہیونی

اردو میں Jew کا ترجمہ یہودی ہے‘ لیکن روس کے جو Jews ہیں اُن میں بعض کا نام بھی یہودی ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ صدی کا بہترین وائلن نواز یہودی مینوہن Yehudi Manuhin ہے۔ یعنی اس کو یہودی مذہب کی وجہ سے نہیں کہتے بلکہ اس کا نام ہی یہودی ہے جیسے ہمارے ہاں بعض لوگ نام اسلام الدین رکھ لیتے ہیں۔
یہودی مینوہن مغربی دنیا میں بے مثال وائلن نواز سمجھا جاتا ہے جو گزشتہ پوری صدی مغربی دنیا کی موسیقی پر اس ساز کے حوالے سے چھایا رہا۔ اس منفرد فنکار کا انتقال 1999ء میں ہوا‘ جبکہ یہ کافی عمر رسیدہ ہو چکا تھا مگر وائلن بجانے کا اس کا فن بوڑھا نہ ہوا۔
معروف انگریزی زبان کے ادیب جارج برنارڈ شا ایک مرتبہ یہودی مینوہن کی وائلن کا کنسرٹ سُن رہے تھے۔ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے یہودی مینوہن کے نام ایک چٹ لکھ کر اُن کو بھجوائی جبکہ کنسرٹ ختم ہو چکی تھی۔ اس چٹ پر تحریر تھا۔ Perfection angers the gods. I will advise you to play one or two wrong tunes before going to bed. یعنی فن میں بے عیب اور کامل ہونا دیوتائوں کو ناراض کر دیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ رات سونے سے پہلے ایک دو دھنیں غلط سلط بھی بجا لیا کرو۔
یہ ایک ادیب کا انداز تھا تعریف کرنے کا اور کیا خوب انداز تھا۔
یہودی مینوہن کا روس کے ایک یہودی خاندان سے تعلق تھا جو امریکہ منتقل ہو گیا تھا۔ یہ لوگ پہلے نیویارک میں رہے۔ جہاں یہودی مینوہن پیدا ہوا اور پھر امریکی ریاست کیلی فورنیا چلے گئے۔ یہیں یہودی مینوہن کی پرورش ہوئی اور اسی ریاست میں انتہائی چھوٹی عمر میں اس نے وائلن بجانے کا فن سیکھا اور بہت جلد مشہور و معروف ہو گیا۔ بعدازاں یہ فنکار یورپ منتقل ہو گیا تھا اور آخری عمر تک یورپ ہی میں رہا۔ یہودی مینوہن کا خاندان بیلاروس کے معزز Rabbi کے طور پر جانے جانے والے مذہبی پیشوائوں کا خاندان تھا اور یہ لوگ جن کو ہم یہودی کہہ کر بُرا سمجھتے ہیں‘ یہ بھی اُن کو بُرا ہی سمجھتے تھے۔
یہودی مینوہن کا باپ صہیونیوں کا مخالف تھا۔ ہم بھی جب یہودیوں کو بُرا کہتے ہیں تو دراصل صہیونیوں کو بُرا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں ہمارے ہاں یہودی اور صہیونی دونوں ہم معنیٰ ہو چکے ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر ہم گزشتہ صدیوں کی تاریخ دیکھیں تو صہیونی یعنی (Zionists) تو کہیں موجود ہی نہیں تھے۔ یہودی جو موجود تھے وہ عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل رسوا ہوتے رہے اور خاص طور پر رومن کیتھولک عیسائیوں کے مظالم کا نشانہ بنتے رہے۔ ان ادوار میں صدیوں تک ان یہودیوں کو مسلمانوں کے ہاں پناہ ملتی رہی۔
آج بھی جو یہودی اپنے ماضی سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ہی یہودی خاندان کو پناہ دی جبکہ خاص طور پر رومن کیتھولک عیسائیوں نے تو یہودیوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا اصل میں صہیونیت جو پیدا ہوئی وہ یورپ میں یہودی مخالف تحریکوں کے جواب میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
لیکن کیا کریں سیاست سب کچھ بدل کے رکھ دیتی ہے۔ صہیونیوں کا ایک بڑا مقصد فلسطین میں اپنی ریاست قائم کرنا تھا اور فلسطین مسلمانوں کے پاس تھا۔ بس آج تک جھگڑا چل رہا ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کی نسبت اسرائیل کی بہت زیادہ حمایت کی تھی۔ اب بھی وہ اپنے وعدے پر قائم ہے کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دے گا۔ ابھی تک امریکی سفارت خانہ اسرائیل کے شہر تل ابیب میں موجود ہے کیونکہ یروشلم کے مستقبل کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
اسرائیل کی اتنی زیادہ حمایت کرنے کے باوجود امریکی یہودیوں کی اکثریت نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیئے تھے۔ یہ ایک طرح سے اسرائیلی اور امریکی صہیونیوں کو یہودیوں کا پیغام تھا کہ وہ اُن کی تمام پالیسیوں کے حامی نہیں ہیں۔ لیکن امریکہ میں پروٹسٹنٹ عیسائی اور صہیونیوں کا گٹھ جوڑ اس قدر مضبوط ہے کہ امریکی حکومت ہمیشہ اُن کے سامنے بے بس رہی ہے۔ ساتھ ہی امریکہ میں یہودیوں کی اکثریت بھی تاحال صہیونیوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکی ہے۔ اسرائیل میں بھی ایسے یہودی موجود ہیں جو صہیونیوں کے خلاف ہیں لیکن ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔
اس وقت دنیا میں بینک ہوں‘ میڈیا ہو یا ملٹی نیشنل کارپوریشنز ہوں سب پر صہیونیوں اور امریکہ کے اُن پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا قبضہ ہے جن کو Neo Conservatives بھی کہا جاتا ہے‘ یہ سب اسرائیل کی انسانیت دشمن پالیسیوں سے نہ صرف درگذر کرتے ہیں بلکہ اُن کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
مستقبل میں کیا ہو گا یہ اللہ کو معلوم ہے لیکن دکھائی ایسا دیتا ہے کہ یہ تاریخی حقیقت کہ مسلمان حکومتیں‘ یہودیوں کو صدیوں تک تحفظ فراہم کرتی رہیں اور عیسائی صدیوں تک یہودیوں پر ظلم کرتے رہے اب لوگوں کے ذہنوں سے مکمل طور پر محو ہو جائے گی۔
یہودی مینوہن کے خاندان جیسے لوگ جو ایک زمانے میں کھل کر صہیونیت کے خلاف تھے اب کہیں دکھائی نہیں دیں گے جو یہودی صہیونیت کی مخالفت کرتے ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ معدوم ہو جائیں گے اور یوں یہودی اور صہیونی ہم معنیٰ ہو جائیں گے۔
سیاست اور فنون لطیفہ میں یہی فرق ہوتا ہے۔ اب ممکن ہے یہودی مینوہن خاندان کے بچے صہیونیت ہی کو اپنا چکے ہوں اور اپنی صہیونیت مخالف شناخت کھو چکے ہوں‘ مگر یہودی مینوہن کے وائلن بجانے کے بے مثال فن کو صہیونیت کبھی نقصان نہیں پہنچا پائے گی۔ یہودی مینوہن ایک بے مثال وائلن نواز کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا اور کبھی بھی صہیونی مینوہن نہیں کہلائے گا۔ یہودی مینوہن ہی کہلائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں