"ARC" (space) message & send to 7575

عرب بہار اور خون خرابہ

الربیع العربی، جس کو ہم عرب بہار کہتے ہیں اور مغربی دنیا میں جسے Arab Spring کہا جاتا ہے، مجھے تو مغرب کا ایک ڈرامہ معلوم ہوتی ہے، جس کے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد تو بہت سے تھے مگر بڑا مقصد مسلمان ملکوں خاص طور پر عرب دنیا کے مسلمان ملکوں میں شورش بپا کرنا اور ان کو مسلسل کمزور اور محتاج رکھنا تھا۔
2010ء کے آخر میں تیونس سے یہ ظالم بہار شروع ہوئی اور پھر عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن سمیت کئی دیگر مسلمان ملکوں میں اس کے اثرات جا پہنچے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ مغرب والے اس قسم کے کام شروع تو بڑی منصوبہ بندی سے کرتے ہیں مگر اس دنیا میں آج تک اس طرح کے کام کبھی منصوبہ بندی سے ہوئے نہیں۔ لہٰذا جب نتائج سامنے آتے ہیں تو پھر مغربی دنیا سارا گند میڈیا کے حوالے کر کے خود حقوق انسانی اور معصوموں پر ظلم کی باتیں کرنے لگتی ہے۔ چونکہ بڑا مقصد جو مسلم دنیا میں شورش پیدا کرنا ہے، وہ تو پورا ہو چکا ہوتا ہے، لہٰذا پالیسی کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔
آج کل مغرب کے پالیسی ساز کہہ رہے ہیں کہ Arab Spring ختم ہو گئی ہے اور اب Arab Winter شروع ہو گیا ہے۔ Arab Winterکیا ہے؟ یہ ایک اور لمبی کہانی ہے۔ آج سپرنگ تک ہی رہتے ہیں، جس کے حوالے سے سب سے نزاعی صورت حال مسلمان ملک شام کو در پیش ہے۔ شام میں Arab Spring کا ڈرامہ مغرب نے Free Syrian Army کے نام سے شروع کیا اور ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے شور مچانا شروع کر دیا کہ بشار الاسد کی فوج کے سپاہی اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے جوق در جوق فری سیرین آرمی میں شامل ہو رہے ہیں۔ بھاری مقدار میں ڈالر خرچ کئے۔ معمولی تعداد میں ایسے شامی لوگوں کو جمع کیا جن کو پیسے کا لالچ تھا اور یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ امریکہ اس کام میں آگے آگے تھا اور مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیف ایک سعودی ملک کو چکر دے رہا تھا کہ فری سیرین آرمی کے لوگ سنی العقیدہ عرب ہیں اور ان کے کامیاب ہونے سے علوی شیعوں سے سنی اکثریت والے ملک شام کو نجات مل جائے گی۔ امریکی اس بات کی بھی ضمانت فراہم کر رہے تھے کہ فری سیرین آرمی کے لوگ سیکولر ذہنیت کے ہیں، لہٰذا ان کے القاعدہ وغیرہ کی طرف جانے کا خطرہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ یہ عرب ملک القاعدہ والوں کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ باور کرتا ہے۔ چونکہ دنیا تک سب کچھ مغربی میڈیا کے ذریعے پہنچتا ہے اور جو کچھ عرب میڈیا کے ذریعے پہنچتا ہے وہ بھی مغربی میڈیا کا عکس ہی ہوتا ہے، لہٰذا ایسی عجیب و غریب خبریں آتی رہیںکہ بشار الاسد آج گیا کہ کل گیا۔
کہتے ہیں کہ مکھیاں اکٹھی کرنی ہوں تو گڑ لا کر پھیلا دینا چاہیے۔ چنانچہ امریکہ نے گڑ پھیلا دیا۔ اس گڑ میں ایک بڑے عرب ملک نے بھی حصہ ڈالا اور دیگر کچھ عرب ریاستوں نے بھی۔ انتہا پسند مسلمان مکھیوں کی شکل میں جمع ہو گئے اور اپنی مداخلتِ بے جا کو جہاد کہنا شروع کر دیا۔
اگر ہم پاکستانی ان لوگوں کی شام میں مداخلت کو جہاد مان لیں تو پھر ہمیں لا محالہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان جو کچھ کر رہی ہے اس کو بھی جہاد ہی کہنا پڑے گا اور پھر لال مسجد والا مولوی ہی ہمارا رہبر ہو گا۔ بندہ پوچھے کہ شام کے لوگ یہ جعلی فری سیرین آرمی سے پہلے کیا امن سے نہیں رہ رہے تھے۔ حکومت سے شکایت پیدا ہوتی تھی، مظاہرے ہوتے تھے اور مظاہروں کو کچل دیا جاتا تھا۔ یہ ان ملکوں کا دستور ہے۔ جو لوگ مظاہرہ کرتے تھے ان کو بھی پتا ہوتا تھا کہ حکومت کا ہاتھ سخت ہے، وہ اکثر جوش میں آئے عام آدمیوں کو مروا کر اِدھر اُدھر ہو جاتے تھے۔ یہی صورت حال عراق میں امریکی حملے سے پہلے تھی۔ صدام حسین بڑا سخت حکمران تھا مگر اس نے امن قائم رکھا ہوا تھا۔ امریکی حملے نے وہاں اس قدر دکھ پیدا کیا کہ اس کی تاریخ میں مثال ملنا محال ہو گا۔ اسی طرح جو فری سیرین آرمی بنا کر شام کے عوام کے لیے دکھ درد پیدا کیا گیا وہ بھی بے مثال ہے۔
عراق میں بھی انتہا پسند مسلمانوں کے گروہ بن گئے جو ایک دوسرے کے خلاف ''جہاد‘‘ کرنے سے نہیں چوکتے۔ پھر ایران کا رسوخ بڑھا تو شیعہ ملیشیا بھی میدان میں آ گئی۔ آج امریکہ میں ہر کوئی یہ بات مانتا ہے کہ امریکی حملے سے پہلے عراق حد درجہ بہتر حالت میں تھا۔ امریکہ نے کھربوں ڈالر خرچ کئے اور ہاتھ صرف رسوائی آئی مگر خوش ہیں کہ مسلمان تو تباہ ہو رہے ہیں۔
شام میں امریکہ کا خرچہ اتنا نہیں ہوا کیونکہ اوباما کے پاس پیسے ہی نہیں تھے، وگرنہ امریکہ میں اسلحے کی صنعت کے کرتا دھرتا کوئی طریقہ نکال لیتے۔ اب البتہ صورت حال بہتر ہو چکی ہے۔ لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ اسلحے کی صنعت کو ممکنہ طور پر فائدہ پہنچائے گا۔
شام میں جہاد کے نام پر خون خرابہ کرنے والی اتنی تنظیمیں بن چکی ہیں کہ ان کو گِنا نہیں جا سکتا۔ النصرہ فرنٹ جو اب جبہۃ النصرہ کہلاتا ہے، بڑا گروپ ہے۔داعش اور القاعدہ والے بھی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان سب سے اوپر ظالم و جابر بشارالاسد کی افواج ہیں جن کو ایران اور روس کے علاوہ حزب اللہ جیسی انتہائی طاقتور تنظیم کی حمایت حاصل ہے۔
حلب پر بشار الاسد کے قبضے کے بعد بعض لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ شاید شام کا مسئلہ بشار الاسد کی فوج حل کر لے گی، لیکن یہ قرین قیاس نہیں ہے۔ نہ عراق کا مسئلہ حل ہونا ہے‘ نہ شام کا اور یمن کا۔ مستقبل قریب میں تو بس خون خرابہ ہی دکھائی دیتا ہے۔
مغربی تہذیب ہمیشہ سے اسلامی تہذیب کے خلاف صف آرا رہی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کی خلافت ختم کر کے مغرب کو ہمیشہ خوف ہی محسوس ہوتا رہا کہ مسلمان اکٹھے ہو گئے تو مغرب کے لیے مصیبت بن جائیں گے۔ اس وقت سے مختلف طریقے آزمائے گئے؛ تاہم جنگ افغانستان کے بعد مغرب کے دانشوروں نے جہادیوں سے مسلم دنیا کو شورش زدہ رکھنے کا جو دائو کھیلا ہے، وہ میری نظر میں سب سے کامیاب دائو ہے۔ اگرچہ اس کے کچھ اثرات مغربی ملکوں میں بھی پہنچے ہیں مگر اصلی بیڑہ غرق مسلمانوں کا ہی ہوا ہے۔ یہی جہادی لوگ ہمارے اندر سے اٹھتے ہیں اور ہمارے ہی دشمن ہو جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی تاریخ امن کی باتوں سے بھری پڑی ہیں، مگر یہ اس میں سے چن چن کر ایسی باتیں نکالتے ہیں جن کو سیاق و سباق سے ہٹا کر قتل و غارت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے، اسلام کا جو پاک اور صاف جہاد کا حکم ہے، اس کو قتل و غارت کی صنعت بنا لیا ہے اور مغربی دنیا کی مدد سے اب یہ لوگ ایک ایسی ملٹی نیشنل کارپوریشن میں تبدیل ہو چکے ہیں جس پر بظاہر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔
یا رب! ہماری مدد فرما کیونکہ تجھ سے بہتر کوئی تدبیر کرنے والا نہیں ہے۔ جو مسلم دنیا میں عقل و ہوش رکھتے ہیں ان کے دل سے تو یہی دعا نکلتی ہے اور جو عقل و ہوش سے عاری ہیں وہ مغرب کے کسی ملک میں ان دہشت گردوں کا حملہ ہو جائے تو دل ہی دل میں خوش ہو جاتے ہیں؛ حالانکہ ایسے حملوں سے مغربی ملکوں میں موجود ہمارے مسلمان بھائیوں کی زندگی کس قدر تلخ ہو چکی ہے، اس کا اندازہ ان لوگوں کو کم ہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں