"ARC" (space) message & send to 7575

ایران جوہری معاہدہ اور ٹرمپ

جب امریکہ سے ایسی خبریں آتی ہیں کہ وہاں صدارتی انتخاب میں روس نے کچھ ایسا کام کیا جو ہلیری کلنٹن کے خلاف اور ٹرمپ کے حق میں گیا تو ایک عجیب کمینی سی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ حال ہی میں ایک مطالعاتی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق 1946ء سے لے کر 2000ء تک پوری دنیا میں قومی سطح کے 937 انتخابات ہوئے۔ ان میں سے 81 انتخابات میں امریکہ نے مداخلت کی اور 36 انتخابات میں سابق سوویت یونین اور موجودہ روس نے دخل اندازی کی۔ ایران میں 1953ء میں گوئٹے مالا میں 1954ء میں اور چلی میں 1973ء میں جو کچھ ہوا یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں اور ان میں امریکی مداخلت کو سب ہی تسلیم کرتے ہیں لیکن بقیہ 78 انتخابات میں امریکی مداخلت کو وہ ملک تو لازمی جانتے ہیں جن کے ہاں یہ مداخلت ہوئی۔ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا رہا وہ کس سے پوشیدہ ہے۔ لوگ AAA کا ذکر کرتے ہیں تو ان سے مراد اللہ‘ امریکہ اور آرمی ہوتا ہے تو بہرحال اب حالات نے کچھ پلٹا کھایا ہے اور جو دوائی امریکہ دوسرے ملکوں کو کھلاتا رہا ہے لگتا ہے کہ اس کی ایک آدھ خوراک خود اس کو بھی کھانا پڑ گئی ہے بھلے اس وقت تک وہ ہومیوپیتھک قسم کی خوراک ہی ہے لیکن پھر بھی کمینی سی خوشی تو محسوس کی جا سکتی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ماضی میں ایک مستحکم سپر پاور کے طور پر اپنا جو لوہا منوا رکھا تھا اس تاثر کو ایسی رپورٹوں سے بہت ٹھیس پہنچی ہے کہ ایک غیر ملک نے امریکی صدارتی انتخابات کو کسی نہ کسی طور متاثر کر دیا ہے۔ لیکن اس انتخاب کا جو نتیجہ نکلا ہے یعنی ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت‘ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے سپر پاور امیج کو اور بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب نے ایسے ایسے بلند بانگ دعوے کر رکھے ہیں کہ اُن سب سے یک قلم پیچھے ہٹا نہیں جا سکتا۔ ابھی تک تو یہ ہو رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مختلف اہم عہدوں کے لیے جن افراد کی نامزدگیاں کی ہیں وہ کانگریس میں اپنی Confirmation Hearing کے دوران ٹرمپ کے بعض بیانات کی نفی کرتے سنائی دئیے ہیں۔ ٹرمپ نے بھی تو حد کر رکھی تھی۔ کوئی شعبہ چھوڑا نہیں جس میں انقلاب لانے کا اعلان نہ کیا ہو۔ کالم کے باقی حصے میں ذرا ایران کے بارے میں ٹرمپ کے فرمودات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ اوباما انتظامیہ نے جو جوہری معاہدہ کیا تھا وہ اس کا تیاپانچہ کر دیں گے۔ اگر یہ معاہدہ ایک دو کاغذوں پر ہوتا تو موصوف اس معاہدے کی نقل کے کاغذ ٹی وی کے سامنے پھاڑ کر بھی دکھا دیتے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ معاہدہ 159 صفحات پر محیط ہے۔ اس کا پورا نام ہے Joint Comprehensive Plan of Action اس کو (JCPOA) لکھا جاتا ہے یہ معاہدہ صرف امریکہ کے ساتھ ایران نے نہیں کیا تھا۔ اس میں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ روس اور چین کے علاوہ یورپی یونین بھی شامل ہے‘ یہ سب مل کر P5+1 کہلاتے ہیں۔اس معاہدے کی شرائط اس قدر سخت ہیں کہ ایران کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ تین فیصد سے زیادہ یورینیم کو افزودہ کر لے یا پلوٹونیم کو بم بنانے میں استعمال کر سکے۔لیکن بیانات کی حد تک ٹرمپ نے ابھی تک پکا ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ 
ابھی گزشتہ ماہ جب اوباما انتظامیہ نے سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد ویٹو کرنے سے انکار کیا تو اس وقت اسرائیل کو ٹرمپ نے تسلی دی کہ وہ صدر کا حلف اٹھانے کے بعد سب ٹھیک کر دیں گے اور اس تسلی میں بھی ایران کے ساتھ اس جوہری معاہدے کو موصوف نے HORRIBLE Iran Deal کہا۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ دسمبر 2016ء ہی میں امریکہ میں رائے عامہ کے ایک جائزے میں امریکی عوام کے 60 فیصد نے ایران کے ساتھ اس معاہدے کی حمایت کی تھی۔امریکی صدر بہت طاقتور ہوتا ہے۔ اگر ٹرمپ کرنے پر آئے تو ایران کے ساتھ JCPOA کو امریکہ کی حد تک ختم کر کے صورتحال میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا بہت مشکل ہو گا۔اب صورتحال یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد ایران کے خلاف جو پابندیاں نرم ہوئی ہیں اُن کے تحت ایران کے منجمد فنڈز جو ڈیڑھ سو بلین ڈالر تھے وہ ایران کو مل چکے ہیں۔ ایرانیوں نے چالاکی سے یورپی یونین سے 100 ایئر بسیں خریدنے کے معاہدے پر گزشتہ ماہ دستخط کئے ہیں۔ 29 کے قریب یورپی اور ایشیائی کمپنیاں ایران کے ساتھ توانائی کے حوالے سے مختلف معاہدے کر چکی ہیں یا کرنے والی ہیں۔ پھر امریکی کمپنی Boeing کے ساتھ بھی لگ بھگ سترہ بلین ڈالر کا ایک سودا دسمبر میں ایران نے کر لیا ہے۔اب اگر ٹرمپ ایسا کرتے ہیں تو ایک تو امریکہ میں جو معاہدہ ہوا ہے وہ ٹوٹے گا اس کے منفی اثرات ہوں گے اور پھر اس معاہدے میں شامل دیگر ممالک امریکہ کے کہنے پر اپنا نقصان تو نہیں کریں گے۔ یورپی یونین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ 100 ائربسوں کا آرڈر منسوخ کر دے۔
سیاسی سطح پر دیکھیں تو مشرق وسطیٰ میں JCPOA کے سب سے زیادہ مخالف اسرائیل اور سعودی عرب تھے۔ حال ہی میں اسرائیل کے وزیراعظم نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پروگرام ساٹھ منٹس میں اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کا اُن کے ملک کو ایک غیر متوقع فائدہ یہ ہوا ہے کہ عرب ممالک‘ اسرائیل کے قریب آ گئے ہیں۔ لہذا اب مشرق وسطیٰ میں بھی اس معاہدے کی وہ مخالفت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ ہاں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں یہ باور کرتے تھے کہ اوباما انتظامیہ‘ ایران کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے لہذا اب ٹرمپ انتظامیہ کے آ جانے کے بعد ان دونوں ملکوں کے حوصلے بلند ہو سکتے ہیں تو JCPOA تو رہے گا لیکن یہ ممکن ہے کہ ایران کے ساحل کے ساتھ تیل کی سپلائی کے جو راستے ہیں اُن پر کوئی کشیدگی پیدا ہو جائے یا پھر شام اور یمن میں جو صورتحال ہے اس کے حوالے سے کبھی امریکہ اور ایران آمنے سامنے آ جائیں لیکن یہ محض قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ ایران کے ساتھ JCPOA پر ٹرمپ کے سخت بیانات کے باوجود معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض بیانات ہی ثابت ہوں گے اور اگر موصوف نے زور زبردستی یہ معاہدہ توڑ دیا تو فائدہ ایران ہی کو ہو گا کیونکہ دیگر ملک اپنے کاروباری مفادات کی خاطر اس معاہدے سے جڑے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں