"ARC" (space) message & send to 7575

بے فائدہ سچ

Pilateوہ رومن گورنر تھا جس نے اس دور کے یہودیوں کے دبائو میں آ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ایک ادیب کے بقول کہا تھا کہ سچ کیا چیز ہوتی ہے؟ اور پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے Francis Baconنامی اس برطانوی ادیب نے تحریر کیا تھا کہ Pilateنے یہ سوال استہزائیہ انداز میں کیا تھا اور بعد میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اس کے جواب تک انتظار نہیں کیا تھا۔ انگریزی زبان میں متن مندرجہ ذیل تھا۔ 
What is Truth?Said the Jesting Pilate, and Would not stay for an answer
بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے لیکن رومن گورنر کی زبانی‘ سچ کی جودرگت بنی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ سچ آخر کار تو جیت جاتا ہے لیکن جب جھوٹ نے زور دار جال پھیلایا ہو تو سچ کی وہ درگت بنتی ہے کہ الامان والحفیظ۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ سچ کیا ہے مگر جھوٹ سچ کو سر اٹھانے نہیں دیتا۔ ان حالات میں عام تاثر یہی ابھرتا ہے کہ سچ ایک بے فائدہ سی شے ہے۔ اصلی چیز وہ جعلی سچ ہے جو جھوٹ کے تاروں سے بُنا جاتا ہے اور ہر کوئی اس کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ایسی ہی صورتحال آج کل ہمارے ملک میں ہمارے عوام کو درپیش ہے۔دو جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور دونوں نے اپنے خلاف جانے والے سچ پر جھوٹ کے مضبوط پردے ڈال رکھے ہیں۔ پاناما لیکس کے معاملے پر ملک کے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے مالی معاملات کا سچ ایک طرف ہے اور احتجاجی دھرنوں کی سیاست میں خلاف قانون کام کرنے والوں کے ہاتھوںمیں محض اقتدار کے حصول کی خاطر کھلونا بن جانا دوسری طرف کا سچ ہے۔ یہ دونوں سچ بظاہر جھوٹ کے پردوں میں دب چکے ہیں۔
اگرچہ دھرنوں کی غیر قانونی سیاست کا معاملہ کسی قانونی پلیٹ فارم پر موجود نہیں ہے لیکن یہ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں اسی طاقت سے موجود ہے جس طاقت سے پاناما لیکس کا معاملہ موجود ہے۔یہ حالت ہے ملک کی ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔ کیا لوگوں نے ان جماعتوں کو ووٹ اسی لیے دیے تھے کہ یہ اپنے مفادات کی خاطر سچ پر مسلسل جھوٹ کے پردے ڈالتی رہیں۔سچ کو چھپانے کی ان دونوں جماعتوں کے پاس اپنے اپنے ذاتی حلقوں میں بہت سی دلیلیں ہوں گی۔ مثال کے طورپر میاں نواز شریف اپنے کسی قریبی ساتھی کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائی میں ملک کی باگ ڈور چھوڑ کر اگر ایسے نااہلوں(اشارہ اپوزیشن کی طرف) کے ہاتھ میں حکومت دینے کی سبیل پیدا کر دوں تو یہ ملک کے ساتھ سخت ناانصافی ہو گی۔ دیکھو کس طرح ملک میں ترقی ہو رہی ہے‘ بجلی کے کارخانے لگ رہے ہیں‘ گیس قطر سے آ رہی ہے سٹاک ایکسچینج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت میں نمو کی رفتار بڑھتی دیکھ رہے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ اسی طرح عمران خان بھی اپنے قریبی ساتھیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ بھائی ہم نے دھرنوں کے دوران جو کوشش کی وہ ملک کی بھلائی کے لیے تھی کیونکہ جو لوگ برسر اقتدار ہیں وہ تو ملک کو لوٹ کر کھا چکے اور کھا رہے ہیں۔ اگر ہماری کوشش کے پیچھے ایک سکرپٹ تھا تو وہ قوم کے فائدے کے لیے تھا نقصان کے لیے نہیں تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔مسئلہ تو پھر وہیں رہا اورجھوٹ کو ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا گیا۔
یہاں مجھے فرانس کے معروف ادیب موپساں کی کہانی Useless Beautyیاد آتی ہے‘ اس کا اردو ترجمہ بے فائدہ حُسن ہو سکتا ہے۔ اس کہانی میں ایک خاتون اپنی ایک ذاتی غرض کے لیے جھوٹ کو استعمال کرتی ہے۔اس کہانی میں ہوتا یہ ہے کہ ایک خوبصورت (Countess) چلیں اسے شہزادی کہہ لیتے ہیں اس کی Countیعنی شہزادے سے گیارہ برس کی شادی کے دوران سات بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ شہزادی کو یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ میرا شوہر تعریفیں تو میری بہت کرتا ہے مگر دراصل یہ مجھے صرف بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھتا ہے۔ ایک روز وہ گرجا گھر میں اپنے شوہر کو یہ اطلاع دیتی ہے کہ ان سات بچوں میں سے ایک بچہ کسی اور کا ہے۔ باقی کہانی میں شوہر بس یہ کھوج لگاتا رہتا ہے کہ ساتوں بچوں میں سے کون سا بچہ اس کا نہیں ہے۔ بیوی اس کو یہ راز نہیں بتاتی اور مسلسل پریشانی میں رکھتی ہے۔کہانی کے آخر میں وہ اس راز سے پردہ اٹھا دیتی ہے کہ اس نے یہ جھوٹ اس لیے بولا تھا کہ وہ مزید بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں بننا چاہتی تھی۔
ہماری سیاست میں بھی جھوٹ کو بطور ہتھیار اس غرض سے استعمال کیا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کے پیش نظر اپنا ہی کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے لیکن اگر ان کے بیانات دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خاںؒ کی ٹکر کے لیڈر ہیں۔ کارکردگی کا جائزہ لیں تو سربازار رونے کو جی چاہتا ہے۔موجودہ حکمرانوں کا احوال تو آپ روز سنتے ہیں لیکن تھوڑا سا ماضی قریب کے حکمران کو بھی یاد رکھیں جن کا پانچ برس اقتدار کی میعاد پوری کرنا معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کے پانچ برسوں میں بدعنوانی کی داستانوں کو چھوڑیں کیونکہ ثابت تو کچھ ہوتا نہیں ہمارے ہاں۔ لیکن یہ دیکھیں کہ روز مرہ کی اشیاء کی کیا
قیمتیں تھیں جب بے نظیر بھٹو کی موت کے شور اور ہنگامے کے بعد کے انتخابات میں زرداری صاحب کو اقتدار ملا تھا پھر ان قیمتوں کا موزانہ کریں جب وہ بڑے طمطراق سے گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے۔پانچ برسوں میں تقریباً تین گنا قیمتیں بڑھ چکی تھیں اگر تنخواہوں اورمزدوری وغیرہ میں دوگنا اضافہ بھی ہواہو تب بھی عوام سخت گھاٹے میں رہے۔ موجودہ دور میں سندھ میں زرداری صاحب کی حکومت کی کارکردگی بھی سب کو معلوم ہے۔ لیکن اشتہارات میں اور اخباری بیانات میں یہ جماعت بھی وہی کچھ کر رہی ہے جو مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف کر رہی ہیں۔ یعنی سچ کی بھنک تک کو جھوٹ کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے عوام کو معلوم سب ہوتا ہے لیکن کیا کریں جھوٹ کا پردہ ہٹائے تو کون ہٹائے؟۔ لہٰذا ہمارے اس دور کے جتنے سچ ہیں وہ سب بے فائدہ سچ ہیں۔احمد ندیم قاسمی کی نظم پتھر کا آخری حصہ ملاحظہ فرمائیے ؎
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و جفا بھی پتھر
میرا الہام تیرا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھرہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرے میری زبان پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں