کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں۔ یہ تو اُس دور میں کہا جاتا تھا جب خط و کتابت عام تھی اور انٹرنیٹ، ای میل، وٹس ایپ وغیرہ ابھی عدم میں تھے۔ اب جبکہ ان کو وجود مل چکا ہے، تو قیامت کے نامے تو نہیں آتے مگر اِن ذریعوں سے قیامت خیز پیغامات مسلسل موصول ہوتے رہتے ہیں۔
ایک صاحب نے پہلے اپنا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا کہ آپ agree کریں گے کہ لوگ ہمارے ہاں بہت کم سوچتے ہیں۔ یہ صاحب اپنے آپ کو سوچنے سمجھنے والا شخص یعنیI am a thinking man جانتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر وہ رقم طراز ہیں کہ پنجاب میں بلاول بھٹو کی آمد اور پھر یہاں آکر بڑے دھوم دھڑکے سے سیاسی کارروائیاں شروع کرنا دراصل سابق صدر اور بلاول کے والد محترم آصف علی زرداری کی سیاسی چال ہے اور اس چال کا تعلق اُن کی اپنی خاندانی سیاست سے ہے۔ اِن صاحب کے بقول زرداری صاحب اس بات سے خوش نہیں تھے کہ بلاول سندھ حکومت کے کاموں میں ٹانگ اڑاتے تھے اور کبھی کبھی اڑ بھی جاتے تھے۔ بیٹے کو منع بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، خاص طور پر اس صورت میں جبکہ وہ ٹھیک بات کر رہا ہو۔ لہٰذا زرداری صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ بلاول کو پنجاب کو واپس حاصل کرنے کا ناممکن ٹاسک دے دیا جائے۔ نہ کبھی یہ کام مکمل ہو گا اور نہ کبھی بلاول دوبارہ سندھ حکومت میں جا کر من مانیاں کرے گا۔ زرداری صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف نے جو میدان سجا رکھا ہے، اس کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کی دال نہیں گل سکتی۔ اس جماعت کی پنجاب کی قیادت تو کافی پُر عزم ہے مگر محض پُر عزم ہونے سے سیاست میں کچھ نہیں ہوتا۔
تو جناب یہ ایک قیامت کا نامہ تھا جس کا خلاصہ میں نے پیش کیا ہے۔ اصل میں جو پیغام موصول ہوا تھا وہ ایک کالم سے بھی زیادہ طویل ہے اور اس میں بعض ایسی معلومات بھی درج ہیں جو ممکن ہے زرداری صاحب کے علم میں بھی نہ ہوں، لہٰذا اُن معلومات کو حذف کر دیا گیا ہے۔
دوسرا قیامت کا نامہ ایک غیر ملک سے موصول ہوا ہے۔ اِن صاحب نے پہلے دو تین پیراگراف میں سابق صدر مشرف کو بہت بُرا بھلا کہنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ پھر پاکستان پر حکمرانی کرنے کے لیے مغربی ملکوں اور خاص طور پر امریکا کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ اِن صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ جو سوشل میڈیا پر آپ مشرف صاحب کو ناچتے گاتے دیکھتے ہیں، وہ پاکستانیوں کے لیے یہ نہیں کر رہے بلکہ وہ امریکیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ مغربی ثقافت کوپاکستان میں ترویج دینے کے لیے اب بھی وہ سب سے زیادہ موزوں شخص ہیں۔ اپنی تحریر میں اِن صاحب نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ میاں نواز شریف یا عمران خان یا پھر زرداری صاحب اس طرح رقص کر کے مغرب کا دل تو لبھا نہیں سکتے۔
ایک اور قیامت کا نامہ جو بذریعہ ای میل موصول ہوا، اس میں مجھے کہا گیا ہے کہ ٹی وہ پر جو اشتہارات چلتے ہیں، مَیں اُن کا پوسٹ مارٹم کیا کروں۔ مجھے نہیں معلوم کہ موصوف کو کس بات سے یقین ہوا کہ میں اس کام کے لیے موزوں ہوں۔ ممکن ہے کچھ دیگر لوگوں کو بھی انہوں نے یہی مشورہ دیا ہو۔
اشتہاروں کا پوسٹ مارٹم کیسے ہو؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ دیکھیے، جو دوائیوں وغیرہ کے اشتہار ہوتے ہیں اُن میں اکثر سنا جاتا ہے کہ ''ہمیں مریض آکر بتاتے ہیں کہ انہیں اس دوا سے آرام آ گیا ہے‘‘۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب آپ ہی بتائیں جو مریض کسی بھی دوا سے شفایاب ہو جائے تو کیا کبھی وہ ڈاکٹر کو جا کر بتاتا ہے کہ میں آپ کی دوا سے ٹھیک ہو گیا ہوں۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوتا۔ اس کے بعد انہوں نے انگریزی میں لکھا ہے: This is illogical۔۔۔ یعنی یہ ایک غیر منطقی بات ہے۔ آپ دیکھیے کیسے کیسے باریک بین حضرات پڑے ہیں۔
آخر میں کچھ ذکر ایسے حضرات کا جو بزعم خود کالم نگار ہیں۔ وہ کسی موضوع پر مکمل کالم لکھ کر غالباً تمام ہی کالم نگاروں کو بحیثیت ایڈیٹر مخاطب کرکے بھجوا دیتے ہیں۔ کالم نگاروں کے ای میل کالم کے ساتھ شائع ہوتے ہیں اور یہ حضرات ممکنہ طور پر یہ سوچتے ہیں کہ اِن میں سے کوئی نہ کوئی تو ایڈیٹر ہوگا، لہٰذا سب کو اپنا کالم بھجوا دیتے ہیں۔ اِن لوگوں میں ایک شرافت ضرور ہے کہ بعد ازاں یہ دریافت کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ اُن کا کالم چھپا یا نہیں چھپا۔
کالم نگاروں کو سب سے زیادہ قیامت خیز اور موڈ خراب کرنے والے نامے غالباً ایک ڈیڑھ سال پہلے تک ایک ایسے شخص کی طرف سے موصول ہوتے تھے جس نے کالم نگاروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا تھا۔ اِن صاحب کا انتقال ہو چکا ہے تاہم جب حیات تھے تو اُن کے قیامت کے ناموں سے کوئی کالم نگار بھی محفوظ نہ تھا۔ وہ کالموں کا پوسٹ مارٹم بالکل سائنسی طریقے سے کرتے تھے۔ اگر کسی کالم نگار نے کوئی شعر تحریر کیا ہے تو وہ اصل دیوان میں موجود شعر سے جب تک اس کا موازنہ نہ کر لیں، چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ اگر کسی نے کسی واقعے کی کوئی تاریخ درج کر دی ہے تو اس کو وہ گوگل کی مدد سے چیک کرتے تھے اور اکثر غلطی پکڑ لیتے تھے۔ میں نے قصداً مرحوم کا نام لکھنے سے گریز کیا ہے کیونکہ موصوف کا ہمار ے قارئین سے تو تعارف بھی نہیں تھا، اور جہاں تک کالم نگاروں کا تعلق ہے اُن کے تو دل پر مرحوم کا نام نقش ہو گا۔