"ARC" (space) message & send to 7575

یہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے!

ایک لطیفے سے بات شروع کرتے ہیں۔ ایک صاحب اپنے ہمسائے میں موجود ایک میراثی کو آتے جاتے دعوت دیتے تھے‘ یہ کہتے ہوئے کہ ''خاں صاحب کبھی ہمارے ہاں بھی آ کر دال روٹی تناول فرمائیے‘‘۔ میراثی نے آخر ایک دن فیصلہ کر لیا کہ آج اپنے ہمسائے کی دعوت قبول کر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا کھلاتا ہے کیونکہ دال روٹی تو انکساری کی وجہ سے کہا ہو گا‘ آخر مہمان کا کچھ تو خیال کرے گا۔ خیر میراثی پہنچ گیا ہمسائے کے گھر۔ ہمسائے نے بڑی آئو بھگت کی۔ کمرے میں بٹھایا‘ دستر خوان بچھایا اور تھوڑی دیر بعد ایک برتن میں دال اور ساتھ لا کر دو تین روٹیاں سامنے رکھ دیں۔ میراثی بہت پریشان ہوا، کیونکہ یہ گانے بجانے والے لوگ کھانے کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور دال روٹی اگر کوئی پیش کرے تو اس کو ایک طرح سے اپنی توہین محسوس کرتے ہیں۔ خیر‘ اب بیچارہ کیا کرتا۔ آہستہ آہستہ نوالہ توڑ کرکھانے لگا تو سامنے آ کر بلی بیٹھ گئی۔ میزبان نے گرجدار آواز میں بلی سے کہا ''چلی جا وگرنہ کاٹ کر پھینک دوں گا‘‘۔ یہ سن کر میراثی نے بلی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا: بھلی مانس چلی جا... یہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔
یہ پرانا لطیفہ مجھے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اندازِ حکمرانی کو دیکھ کر یاد آیا۔ موصوف نے انتخابی مہم کے دوران جو بھی بظاہر ناقابل عمل قسم کے وعدے کیے تھے اور جن کو ڈیموکریٹک پارٹی تو کیا ٹرمپ کی اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی نے بھی سنجیدہ خیال نہیں کیا تھا، ان ناقابل عمل اور بعض صورتوں میں مزاحیہ قسم کے وعدوں کی وہ ابتدائی دنوں ہی میں تکمیل میں جُت گئے ہیں، اس بات سے بالکل بے نیاز کہ ردعمل کیا ہو گا۔ اوباما کی ہیلتھ سکیم کی کمر تو پہلے دن ہی توڑ دی‘ اور ابھی تک کچھ متبادل سامنے نہیں آیا۔ بس کہا ہے کہ جائزہ لے رہے ہیں۔ مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی نے جو ہلچل مچائی‘ وہ سب کو معلوم ہے۔ امریکہ کے اندر اور باہر سخت ردعمل ہو رہا ہے۔ ایران کے سب سے زیادہ لوگ امریکہ جاتے تھے۔ سات ملکوں پر پابندی لگی ہے۔ ایران سے امریکہ جانے والوں کی تعداد باقی چھ ملکوں سے امریکہ جانے والوں کی کل تعداد کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ایران نے بھی امریکیوں کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی کی بات کی ہے۔
میکسیکو کے بارڈر پر دیوار بنانے کا معاملہ بھی ایسا تھا کہ اس کو کوئی سنجیدہ نہیں لے رہا تھا‘ مگر قبلہ نے حکم جاری کرکے اور اپنے مخصوص انداز میں حکم نامہ ٹی وی پر سب ناظرین کو دکھایا اور حسب معمول چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی جو یہ کہہ رہی تھی ''دیکھو تمہارا خیال تھا میں ویسے ہی کہہ رہا ہوں‘ اب کر دیا ناں‘‘۔
اور بھی بہت کچھ جاری ہے۔ میڈیا سے لڑائی اپنی جگہ چل رہی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کہا جاتا تھا کہ ٹرمپ جو میڈیا کے خلاف بول رہے ہیں تو یہ ان کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہے‘ اگر منتخب ہو گئے تو سب معمول پر آ جائے گا‘ مگر کچھ بھی معمول پر نہیں آیا اور میڈیا کے ساتھ لڑائی اور بھی زیادہ زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک بات‘ جو مندرجہ بالا سب باتوںکی نسبت سے بھی عجیب تر ہے، ماحولیات کے بارے میں صدر ٹرمپ کی سوچ تھی۔ انتخابی مہم کے دوران جب انہوں نے کرہء ارض کو درپیش ماحولیاتی خطرات کو درخور اعتنا نہ سمجھا تو تقریباً سب کا خیال تھا کہ ٹرمپ ایک بزنس مین ہے‘ اس کی ماحولیات کے حوالے سے بریفنگ نہیں ہوئی‘ اس لئے ایسی باتیں کر رہا ہے، وگرنہ گھر کو واضح خطرات لاحق ہوں اور ان خطرات کی نشاندہی سائنسی بنیادوں پر ہوئی ہو تو بھلا کوئی ان خطرات کو نظرانداز کر سکتا ہے؟
ایک سابق امریکی صدارتی امیدوار البرٹ گور Al Gore نے‘ جو امریکہ کے آٹھ برس تک نائب صدر رہے، دنیا کے بہترین سائنسدانوں کی رپورٹوں پر مبنی زمین کا درجہ حرارت بڑھ جانے کے کرہء ارض کو درپیش خطرات سے دنیا کو باخبر کرنے کے لیے بڑی موثر مہم چلائی تھی۔ ان کی اس مہم پر مبنی ایک دستاویزی فلم An Inconvenient truth 2006ء میں بنی اور اس کو دو اکیڈیمی ایوارڈ بھی ملے۔
اس دستاویزی فلم میں چشم کشا حقائق ہمارے کرہء ارض کو لاحق خطرات سے متعلق اعدادوشمار کی مدد سے اور سائنسی ثبوتوں کے ساتھ پیش کیے گئے۔ اس فلم نے ہر پڑھے لکھے شخص کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر ہمیں اس ضمن میں ضرور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس فلم کے آخر میں Al gore کی آواز میں جو چند جملے ہیں‘ ان کا ترجمہ پیش کرتا ہوں:
''ہم میں سے ہر کوئی کرہء ارض کے درجہء حرارت میں اضافے کا سبب ہے لیکن ہم میں سے ہر کوئی یہ کر سکتا ہے کہ جو اشیا وہ خریدے، جو بجلی وہ استعمال کرے، جو کار وہ چلائے، ان سب میں کاربن کا فضا میں اخراج نہ ہو۔ ان مسائل کے حل ہمارے ہاتھ میں ہیں، ہمیں صرف تہیہ کرنا ہے۔ کاربن کے فضا میں اخراج کو روکنے کے لیے یا کم کرنے کے لیے ہمارے پاس سیاسی سطح پر ارادے کے سوا سب کچھ ہے‘‘۔
ان حالات میں کوئی شخص‘ خاص طور پر اگر وہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر ہو‘ سوچ سکتا ہے کہ کرہء ارض کے درجہء حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو منجمد کر دیا جائے۔
مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ کر گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انتظامی حکم کے ذریعے امریکہ کی ماحولیات کے تحفظ کی ایجنسی کو دی جانے والی فنڈنگ کو منجمد کر دیا ہے اور اس ایجنسی نے جو کنٹریکٹس جاری کیے تھے ان پر بھی عملدرآمد روک دیا ہے۔ شاید کوئی یہ سوچے کہ ممکن ہے بعد میں وہ ایک اور حکم سے فنڈنگ جاری کر دیں گے تو عرض ہے کہ دیگر جو احکامات ٹرمپ صاحب نے جاری کیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسا کبھی نہ ہو گا۔
Keystone XL Pipeline جو کینیڈا سے امریکہ تک لائی جانی ہے اس کے خلاف ماحولیاتی تحفظ سے تعلق تنظیموں کے مسلسل احتجاج کے بعد اوباما حکومت نے اس پروجیکٹ کو منسوخ کر دیا تھا، اب ٹرمپ صاحب کے حکم سے یہ پائپ لائن دوبارہ شروع کی جا رہی ہے۔ ایک اور پائپ لائن جس کا نام Dakota Acess Pipeline ہے اور جس کو امریکہ کی قدیم ریڈ انڈین آبادی کے احتجاج کے بعد منسوخ کر دیا گیا تھا، اب ٹرمپ صاحب سے حکم سے پھر تعمیر کرنا عندیہ دے دیا گیا ہے۔
ایسے عجیب و غریب فیصلے ہیں کہ خود امریکی قوم حیران اور پریشان ہے۔ نائن الیون کے بعد صدر بش نے تفتیش کے لیے اذیت انسانی کے طریقوں کی‘ جن میں واٹر بورڈنگ جیسا انتہائی اذیت ناک طریقہ بھی شامل ہے، مخصوص حالات کے پیش نظر اجازت دی تھی مگر صدر اوباما نے آتے ہی یہ اجازت ختم کر دی تھی‘ اب ٹرمپ صاحب دوبارہ اس اذیت اساں طریقے کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے آگے سب کی حالت لطیفے والی بلی جیسی ہے جس کو میراثی ہاتھ جوڑ کر کہہ رہا ہے: بھلی مانس چلی جا، یہ جو کہتا ہے وہی کرتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں