جمہوریتوں میں ایک بات ہر لیڈر سمجھتا ہے کہ اگر انتخابات میں کامیابی انتہائی معمولی اکثریت سے ہو تو پھر اپوزیشن کو یہ حق دینا پڑتا ہے کہ عوام کے جس حصے کی وہ نمائندہ ہے اس حصے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھے جانے پہ وہ حکمران جماعت کو دبائو میں رکھ سکے اور معمولی اکثریت سے الیکشن جیتنے والے کو من مانی نہ کرنے دے۔
مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے ہیں محض الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت سے‘ جبکہ کُل ووٹروں کی تعداد کے حساب سے ہیلری کلنٹن کے ووٹ ٹرمپ سے زیادہ تھے۔ پھر الیکٹورل کالج کے اپنے ووٹوں کی تعداد بھی ٹرمپ صاحب بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے تھے یعنی جھوٹ بول رہے تھے تو کسی رپورٹر نے اعتراض کیا کہ آپ درست نہیں کہہ رہے۔ ٹرمپ کا استدلال تھا کہ صدر ریگن کے بعد وہ سب سے زیادہ الیکٹورل کالج کے ووٹ لینے والے صدر ہیں۔ اس رپورٹر کا کہنا تھا کہ درمیان میں کئی صدور کے الیکٹورل کالج کے ووٹ آپ سے زیادہ تھے جس کو گوگل کے ذریعے ہروقت چیک کیا جا سکتا ہے۔
یہ سُن کر مجال ہے کوئی شرمندگی کا اظہار کیا ہو۔ ٹرمپ صاحب فرمانے لگے مجھے ایسے ہی بتایا گیا تھا اور میں نے ویسے ہی بیان کر دیا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی بالکل معمولی نوعیت کی ہے لیکن آپ موصوف کے فیصلوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ایک مطلق العنان حکمران ایک پر ایک فیصلہ کئے جا رہا ہے۔
میں ایک امریکی تبصرہ نگار کا مضمون پڑھ رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا منتخب ہونا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے ایک اور نائن الیون ہو گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نائن الیون وہ واقعہ ہے جس میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاور گرے اور پینٹاگون پر حملہ ہوا جس کے بعد دہشت گردی کے خلاف نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوئی۔کسی امریکی کا اپنے ہی صدر کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ یہ تو دوسرا نائن الیون ہے اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں کس قدر ہلچل مچا دی ہے۔
امریکہ میں فاکس نیوز نیٹ ورک ری پبلکن پارٹی کا ترجمان نیٹ ورک ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں اور اس کے بعد بھی اس نیٹ ورک کی حمایت حاصل ہے۔ مگر اسی نیٹ ورک کے ایک رپورٹر Shepard Smith جو کہ Anchor بھی ہیں ایک روز پھٹ پڑے۔ Smith کا کہنا تھا کہ ''ہم روز روز ڈونلڈ ٹرمپ سے جھوٹ سن سن کر تنگ آ چکے ہیں‘‘۔ وہ روس کے بارے میں سوالوں سے اس انداز میں پہلوتہی کر جاتے ہیں گویا ہم سب احمق ہیں۔ اس کے بعد اس اینکر نے کیمرے کی طرف دیکھ کر اور ٹرمپ سے مخاطب ہو کر کہا ''واقعتاً آپ کی اپوزیشن کی Hacking کی گئی تھی اور روسی اس کے ذمہ دار تھے اور آپ کے لوگوں کے روزانہ کی بنیادوں پر اُن دنوں میں فون پر روسیوں سے رابطے تھے‘‘ اس اینکر کا مزید یہ کہنا تھا کہ ''کیا اب بھی ہم احمق ہیں جو اس بارے میں سوال پوچھتے ہیں۔ نہیں جناب! ہم احمق نہیں جو یہ سوال پوچھ رہے ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ان سوالوں کا جواب دیں‘ یہ جواب آپ پر امریکی عوام کا قرض ہے‘‘ تو دیکھیں یہ حالت ہے اُس نیٹ ورک کے اینکر کی جو مسلسل ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی رہا ہے اور اب بھی حامی گنا جاتا ہے۔ اسی طرح ری پبلکن پارٹی کے کافی اہم لوگ ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی کھلے عام مخالفت کر چکے ہیں۔ امریکی میڈیا کے ساتھ ٹرمپ کی لڑائی عروج پر ہے اور وہ میڈیا کو ایسے طعنے دے رہے ہیں جیسے ہمارے ہاں لڑاکا ہمسائیاں ایک دوسرے کو دیتی ہیں۔
اس تمام صورتحال میں ڈیمو کریٹک پارٹی خاصی خاموش ہے۔ اس جماعت کے مختلف لیڈر اپنی جماعت کا نقطہ نظر تو گاہے بگاہے واضح کرتے رہتے ہیں مگر ابھی تک ایسی حکمت عملی کے کوئی اشارے نہیں ملے جن کی مدد سے معلوم ہو سکے کہ اپوزیشن کی یہ جماعت کس انداز سے ٹرمپ کے خلاف صف آرا ہو گی۔
امریکہ میں جو سیاسی پنڈت ہیں ان کا کہنا ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان اور سٹیٹ دونوں میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے اور اس صورتحال میں ٹرمپ کے مواخذے (IMPEACHMENT) کی کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ان مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی اگلے برس کانگریس کے جو انتخابات ہوں گے اُن کا انتظار کرے گی کیونکہ ٹرمپ جس قسم کی طرز حکمرانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ برس کے کانگریس کے انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی‘ ایوان نمائندگان میں اور ممکنہ طور پر سینیٹ میں بھی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ختم کر دے گی جس کے بعد پھر ٹرمپ کے خلاف کوئی ایسی حکمت عملی وضع ہو سکے گی جو یا تو صدر کے اختیارات کم نہ کرنے سے متعلق ہو گی یا پھر صدر ٹرمپ کو Impeach کرنے سے متعلق ہو گی۔
اگر سیاسی پنڈتوں کا یہ تجزیہ تسلیم کر لیا جائے تو وہ پھر 2018ء کے کانگریس کے انتخابات تک ٹرمپ تماشے لگاتے ہی رہیں گے۔ کیونکہ یہی تجزیہ کار توجہ دلاتے ہیں کہ ٹرمپ جس قسم کی شخصیت کے مالک ہیں ان کے بارے میں سوچنا کہ وہ اپنے طرزعمل میں تبدیلی کر لیں گے بعیداز قیاس بات ہے‘ یہ جب تک صدر رہیں گے اسی طرح رہیں گے۔