"ARC" (space) message & send to 7575

سر جی سب کچھ آپ ہی سے سیکھا ہے!

میڈیا کے شعبے میں جو لوگ سینئر ہو جاتے ہیں وہ اس شعبے کے جونیئر لوگوں سے اکثر یہ سنتے ہیں کہ ''سر جی سب کچھ آپ ہی سے سیکھا ہے‘‘۔ یہ جملہ یا اسی مفہوم کے اور جملے اتنے تواتر سے بولے جاتے ہیں کہ یہ بالکل بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری میڈیا میں سرکار کی حد تک اور کارپوریٹ میڈیا میں مالکان کی حد تک سٹاف کی تربیت پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی کہ دی جانی چاہیے۔ میں مغربی دنیا کے ساتھ موازنے سے گریز کروں گا کیونکہ اُن ملکوں میں ہر شعبے میں جس قدر وسائل موجود ہیں وہ ہماری نسبت سینکڑوں گنا ہوتے ہیں۔ لیکن ہم لوگ جو کچھ کر سکتے ہیں اس کو ہم کافی کم وسائل میں بھی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ چونکہ تربیت کا کام آج تک بس برائے نام قسم کا ہوتا ہے، لہٰذا جو جونیئر لوگ ہیں چونکہ خود ہی دوسروں کو دیکھ دیکھ کر اور غلطیاں کر کر کے سیکھتے ہیں اس لیے وہ اپنے اس عمل کا کریڈٹ سینئر لوگوں کو دے دیتے ہیں اور سینئر لوگ بھی اس کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ ''سر جی سب کچھ آپ سے سیکھا ہے‘‘ سنتے رہتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سینئر لوگ حوصلہ افزائی تو کر دیتے ہیں جونیئر فنکاروں وغیرہ کی مگر چونکہ ان کی اپنی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں ہوئی ہوتی، لہٰذا وہ کوئی قابل عمل بات بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ کئی صورتیں ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں کہ سینئر لوگ جونیئرز کی جان عذاب میں کر چھوڑتے ہیں۔ کسی سینئر سے کوئی پروگرام لے کر کسی جونیئر کو اگر دے دیا جائے تو پھر اس سینئر کا طرز عمل دیکھنے کے قابل ہو گا۔
مجھے اس کا ذاتی تجربہ اس دور میں ہوا جب میں نیا نیا پروڈیوسر بھرتی ہو کر ریڈیو پاکستان کراچی کی بند روڈ پر واقع عمارت میں داخل ہوا۔ پہلے روز تو مجھے سٹیشن ڈائریکٹر نے میوزک سیکشن میں تعینات کر دیا۔ وہاں میرے سینئر تھے جمیل زبیری صاحب، وہ تمام دن مجھے ریڈیو میں اپنے بقول جو انہوں نے کارنامے کیے تھے وہ بتاتے رہے۔ ریڈیو میں رہتے ہوئے جو ادب کی انہوں نے خدمات انجام دی تھیں ان کی تفصیل بتاتے رہے۔ شام ہو گئی تو نجات ملی۔ اگلے روز صبح ہماری پروگرام میٹنگ میں ایک اور نئے پروڈیوسر نے ڈیوٹی رپورٹ کی، یہ تھے مشتاق ہاشمی۔ موصوف کا تعلق شعبہ موسیقی سے واضح تھا کیونکہ ان کا ڈاکٹر امجد پرویز کے ہمراہ گایا ہوا ایک پنجابی لوک گیت ''سجنا اوڑک جانا مروے میلے نوں چلیے‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہو چکا تھا۔ ویسے بھی مشتاق ہاشمی معروف بھارتی موسیقار خیام کے سوتیلے بھائی تھے۔ چنانچہ اسٹیشن ڈائریکٹر نے فوراً فیصلہ کیا کہ میوزک سیکشن میں مشتاق ہاشمی کو لگایا جائے اور مجھے اگلے ہی روز ڈرامہ سیکشن میں بھیج دیا گیا۔
ڈرامہ سیکشن میں ایک سینئر کو ہٹا کر مجھے تعینات کیا گیا تھا۔ اس سینئر کو بہت دکھ تھا کہ اسے ڈرامہ سیکشن سے ہٹایا کیوں گیا ہے۔ انہوں نے میرے خلاف ایسی ایسی سازشیں کیں کہ جینا محال ہو گیا۔ نمونے کے طور پر ایک سازش کا ذکر کرتا ہوں۔ رات کو نو بجے جو ڈرامہ نشر ہونا تھا میں اس کا پروڈیوسر تھا۔ ڈرامہ اس دور میں ریکارڈ بہت کم ہوتا تھا۔ براہ راست یعنی لائیو نشر ہوتا تھا۔ ہم نے ڈرامے کی فائنل ریہرسل کی اور آٹھ بجے کے قریب ساری کاسٹ چائے پینے کینٹین میں چلی گئی۔ ڈرامے کی کاپیاں جن پر آرٹسٹ نے اپنی سہولت کے لیے اپنے مخصوص نشانات لگا رکھے تھے وہ میرے کمرے میں تھیں۔ خیر ہم لوگ چائے پی کے واپس آئے۔ سب لوگوں نے ڈرامے کی کاپیاں اٹھائیں اور اوپر سٹوڈیو میں چلے گئے۔ عین جس وقت نو بجنے میں پانچ منٹ تھے تو ہمیں پتا چلا کہ ڈرامے کی جو کاپیاں ہیں ان میں سے کئی صفحات کسی نے غائب کر دیئے ہیں۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں نے تین چار سینئر آرٹسٹوں سے کہا کہ بھائی ڈرامہ تو اب نشر ہو گا۔ آپ لوگوں کو کہانی تو معلوم ہے، بس جہاں جہاں صفحے غائب ہیں خود سے کچھ بول کر سنبھال لینا۔
ڈرامہ بہرحال نشر ہو گیا۔ ظاہر ہے اس کی کوالٹی بری طرح متاثر ہوئی۔ ہفتوں کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ کس نے یہ کام کیا، تاہم کئی ہفتوں بعد ہمارے کاپنگ سکیشن کے ایک کچے ملازم نے مجھے بتایا کہ وہ گندی حرکت انہوں نے کی تھی اور جس سینئر کا میں نے ذکر کیا اس کے کہنے سے کی تھی۔ غالباً اس کچے ملازم کی اب میرے اس سینئر سے کسی بات پر لڑائی ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں یہ بات میرے علم میں آئی۔
اب آپ دیکھیں سینئر تو اس طرح کے بھی ہوتے ہیں، لہٰذا تربیت کے لیے سینئرز پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک تربیت کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی کردار تربیت دینے والے ٹرینر(Trainer) کا ہوتا ہے اور یہ ٹرینر بھی خود بخود نہیں بن جاتے ان کے بھی ٹرینر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ریڈیو کا مجھے معلوم ہے کہ سٹاف ممبرز ہی ٹریننگ کا کام کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ بعض سٹاف ممبرز کو باہر کسی ملک میں دو چار مہینوں کا کورس کروایا جاتا ہے۔ ملائیشیا میں ایشین انسٹی ٹیوٹ آف براڈ کاسٹنگ ڈویلپمنٹ سے اکثر سٹاف کو تربیت دلوائی جاتی تھی مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہماری نشریات کی اپنی انفرادیت ہے۔ ان کے بارے میں اگر آپ مغربی دنیا کی کتابوں کی مدد سے کورس مرتب کریں گے تو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہو گا۔
میڈیا میں تربیت ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کارپوریٹ میڈیا کو سنجیدگی سے باہم مل جل کر سوچ بچار کرنی چاہیے۔ سرکاری میڈیا سے کوئی امید رکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ان کے پاس بڑی بڑی اکیڈیمیوں کی بس عمارتیں ہی ہیں، اندر وہی کچھ ہے۔۔۔۔ ''سر جی سب کچھ آپ سے ہی سیکھا ہے‘‘ ، نہ سکھانے والے کو پتا ہے کہ کیا سکھایا ہے اور نہ سیکھنے والے کو معلوم کہ کیا سیکھا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جیسے چل رہا ہے چلتا رہنے دیں۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ کبھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ یہ اگر ٹھیک ہو گا تو سرکاری اداروں سے ٹھیک نہیں ہو گا بلکہ اس کو صرف اور صرف کارپوریٹ میڈیا خود ٹھیک کر سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں