"ARC" (space) message & send to 7575

واہ ری سیاست!

دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کرنے والے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیتے دکھائی دے رہے ہیں اور موصوف نے ری پبلکن پارٹی کے اہم رہنما ہونے کے باوجود اعلانیہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ بھی نہیں دیا تھا۔ ہیلری کلنٹن کو بھی نہیں دیا تھا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے دل میں سب سے بڑا خوف بظاہر جومعلوم ہوتا ہے وہ اس انکوائری کا خوف ہے جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے روس کے کردار کی تفتیش کی جائے۔ سابق صدر بش بھی یہ مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہو چکے ہیں۔اسی طرح سابق نائب صدر ڈک چینی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس صدارتی حکم پر تنقید کی تھی جو بعض مسلمان اکثریتی ملکوں کے لوگوں کی امریکی آمدپر پابندی عائد کرتا تھا۔ ڈک چینی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے آبائو اجداد بھی اسی طرح بے آسرا اس ملک میں آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی امریکہ آمد کا مسئلہ مختلف طریقے سے حل ہونا چاہیے۔
صدر ٹرمپ نے جو طرز حکمرانی اختیار کر رکھا ہے اس میں سابق صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی کے ٹرمپ مخالف بیانات کو نہ صرف امریکہ میں پسند کیا گیا بلکہ پوری دنیا میں ان بیانات کی کافی پذیرائی ہوئی۔تو جناب یہ بھی صدر ٹرمپ کا کمال سمجھیں کہ امریکی تاریخ کی دو ایسی قابل نفرت ہستیوں کے بیانات کو پذیرائی مل رہی ہے جنہوں نے اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں خون کی وہ ہولی کھیلی کہ آج تک اس کے منفی اثرات قائم ہیں۔
عراق پر حملہ کرنے کے لیے جو بہانہ بنایا گیا وہ سی آئی اے کی یہ رپورٹیں تھیں کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ اب تو ہر کوئی جانتا ہے کہ سی آئی اے کی اس رپورٹ سے پہلے نائب صدرڈک چینی نے سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا تھا جس کے بعد یہ جھوٹ منظر عام پر آیا تھا۔ اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہوگا۔ اس کے بعد کیا وہ منظر بھولا جاسکتا ہے جب سابق صدر بش نے عراق پر حملے کا اعلان کیا تھا۔ اب صدر ٹرمپ کے بارے میں جب سابق صدر بش یہ کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابات میں روس کے کردار کی تفتیش ہونی چاہیے تو کیا اس بات کی تفتیش نہیں ہونی چاہیے کہ کس طرح سی آئی اے کی وہ جھوٹی رپورٹیں حاصل کی گئی تھیں جن کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ میں کشت و خون کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ نہیں جناب وہ تو اب ماضی ہوگیا۔ اب تو بس ٹرمپ ہی ٹرمپ ہے۔جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے، موصوف کی 
حکمت عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ ہرطرف اس قدر چھیڑچھاڑ کی جائے اور جاری رکھی جائے کہ کسی کا دھیان ہی اس طرف نہ جائے کہ صدارتی انتخابات میں روس کے کردار کی تفتیش ہونی چاہیے۔
آپ دیکھیں کہ یہ اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کو مستعفی ہونا پڑا۔ لیکن امریکہ میں میڈیا کی زیادہ تر توجہ ان بیانات پر ہے جو تقریباً روزانہ ہی ٹرمپ صاحب کے دست مبارک سے جاری ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد میری رائے
میں اس ممکنہ انکوائری کے معاملے کو دبانا ہے۔اب آسکرایوارڈز کی تقریب سے بھلا صدر امریکہ کا کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ لیکن موصوف نے ان ایوارڈز کے انعقاد کے بعد ان کو بور قرار دیا اور کہا کہ اگلے ایوارڈز کے لیے میں خود سب سے موزوں میزبان ہوں۔ اب میڈیا ان کے اس بیان کے پیچھے لگ گیا۔ روس والا معاملہ پھر پیچھے رہ گیا۔صاف نظر آ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ یہ چھیڑچھاڑ عوام کی توجہ صدارتی انتخابات کی انکوائری کے معاملے سے ہٹانے کے لیے کر رہے ہیں۔ شاید کسی کوخیال ہو کہ چونکہ آسکرایوارڈز کی تقریب میں صدر ٹرمپ پر بالواسطہ چوٹیں کی گئی تھیں تو اس وجہ سے جواب دیا گیا۔ نہیں جناب۔ آپ آسکرایوارڈز کی تاریخ دیکھ لیں ان میں ہمیشہ امریکی صدور سمیت اہم شخصیات پر چوٹیں کی جاتی ہیںکیونکہ یہ انٹرٹینمنٹ کا شو ہے۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیںہوا کہ کسی امریکی صدرنے آسکرایوارڈز میں کیے گئے کسی طنز کے جواب میں بیان جاری کیا ہو۔
میڈیا سے کھلی جنگ، اخباروں کے اور ٹی وی چینل کے نام لے
لے کر کہنا کہ یہ عوام دشمن ہیں‘ یہ کہنا کہ دنیا کے ہر ملک نے امریکہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور اب وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ پھر یہ صدارتی آرڈر وغیرہ ان سب کے بوجھ میں، صدارتی انتخاب میں روسی کردار کی تفتیش کا مطالبہ دب سکے گا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن ٹرمپ کے اس شور شرابے کا سابق صدر بش اور سابق نائب صدر ڈک چینی جیسے لوگوں کو براہ راست یہ فائدہ ہوا ہے کہ ان کے ٹرمپ مخالف بیانات نے ان کے خلاف موجود نفرت کوکم کرنے میں مدد دی ہے۔ کتنی عجیب ہے سیاست کی دنیا۔ سوچوتو سرچکرانے لگتا ہے۔ دو لوگ جنہوں نے عراق پر خونریز چڑھائی کرتے وقت لاکھوں لوگوں کے احتجاج، اقوام متحدہ کا اجازت دینے سے انکار وغیرہ کسی کی بھی پروا نہ کی اور جھوٹ کے سہارے امریکیوں سمیت ہزاروں لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنے وہ اب اپنے بیانات کے ذریعے امریکیوں کو اصول سکھا رہے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش کہتے ہیں کہ اصول کی بات یہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں روسی کردار کی تفتیش ہونی چاہیے اور ڈک چینی کہتے ہیں کہ اصولاً صدر ٹرمپ کا بعض مسلمان اکثریت والے ملکوں سے لوگوںکی امریکہ آمد پرپابندی کا حکم درست نہیں ہے۔ واہ ری سیاست۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں