زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ریڈیو پاکستان میں ایک نئے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی ہوئی جنہوں نے اعلان کیا کہ وہ ریڈیو کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بہت خوش آئند بات تھی اور ممکن ہے انہوں نے اس حوالے سے کوششیں بھی کی ہوں لیکن جو نظر آ رہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ مالی وسائل کی کمی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ یہ مسئلہ تو اس وقت پورے ملک کو درپیش ہے‘ اس لیے ریڈیو پاکستان کے لیے کسی خصوصی رعایت کی توقع کرنا ان حالات میں حقیقت سے بے خبری ہو گی۔
ریڈیو سے اپنی دیرینہ وابستگی کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مالی وسائل بھلے کم ہوں‘ ریڈیو کے پاس پرانی ریکارڈنگز کا ایک خزانہ ہے جس کی بنیاد پر اگر پروگرام پروڈیوس کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے تو مالی وسائل کی کمی آڑے نہیں آئے گی۔ ابھی تک تو ریڈیو پاکستان صرف پرانی ریکارڈنگز من و عن پیش کر کے اس خزانے سے مستفید ہو رہا ہے؛ تاہم ان ریکارڈنگز پر مبنی دلچسپ پروگرام پروڈیوس کرنے کی کوشش منظر عام پر نہیں ہے۔ میں اس بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ آپ ریڈیو کی سنٹرل لائبریری سے کوئی پرانا مشاعرہ نکال کر اور اس کو ایڈٹ کر کے پیش کر سکتے ہیں۔ یہ آسان کام ہے اور کسی تخلیقی صلاحیت کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن اگر کوئی تخلیقی صلاحیت کا مالک پروڈیوسر ایک سے زیادہ مشاعروں کی ریکارڈنگز سنے اور پھر ان میں سے جن شعرا کا کلام بہت زیادہ پسند کیا گیا ہو‘ ان کو الگ کرکے ایک تصوراتی مشاعرہ ترتیب دے تو یہ ایک جدت ہو گی۔ اعلان میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پرانے مشاعروں کی ریکارڈنگ پر مبنی ایک تصوراتی مشاعرہ ہے۔ اس کا میزبان کسی موجودہ اچھی آواز کو بنایا جا سکتا ہے۔ اعلانات اس قسم کے ہو سکتے ہیں؛ یہ تصوراتی مشاعرہ آپ تک ایسے اشعار پہنچانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے جن کو اپنے دور میں بہت داد ملی۔ جس شاعر کا کلام آخر میں پیش کرنا ہو‘ اس کو صدرِ مشاعرہ بنا دیا جائے اور شروع یوں کیا جائے کہ آیئے ہم اس تصوراتی مشاعرہ کی شمعِ محفل فلاں شاعر کے آگے رکھتے ہیں۔ اس شاعر کے بعد اگلا اور اگلا شاعر آتا رہے گا۔ جس شاعر کے بارے میں کوئی خاص بات مشہور ہو‘ شمعِ محفل ان کے آگے لانے سے پہلے میزبان اس خاص بات کا اعلان کرکے سامعین کی دلچسپی بڑھا سکتا ہے۔ اس میں جتنا دورانیہ چاہیے ہو‘ وہ پروڈیوسر کے اختیار میں ہوگا۔ اسی طرح سنٹرل لائبریری میں جو تقریریں ہیں، جو مذاکرے ہیں، جو انٹرویوز ہیں، جو سیمینارز ہیں ان سب پر تصوراتی پروگرام بھی سجائے جا سکتے ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر بھی پروگرام بنائے جا سکتے ہیں۔ بس یہ خیال رہے کہ کوئی ٹکڑا دو تین منٹ سے زیادہ کا نہ ہو۔ اگر طویل ٹکڑا ہوا تو سامع آپ کا ساتھ چھوڑ جائے گا۔ اب بتائیں ان پروگراموں پر کیا لاگت آئے گی۔ معمولی فیس ممکن ہے میزبان کو دینی پڑے‘ باقی کام پروڈیوسر کا ہوگا۔
اب مسئلہ یہ ہوگا کہ ایسے پروڈیوسر کہاں سے لائیں۔ یہ بات کئی لوگ کہیں گے۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ہمیشہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف اچھا کام کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں ان کو اور کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ ان کا شناخت کرنا البتہ افسران کا کام ہے‘ اور ان کی شناخت ان کے پرانے کام سے نہیں ہوتی بلکہ ان کو نیا پروجیکٹ اور اعتماد دینے کے بعد اور ساتھ ساتھ ان کی غلطیاں درست کرنے سے ہوتی ہے۔ کام کرنے کا تجربہ ہی اصلی استاد ہوتا ہے۔ اکیڈیمیوں میں جتنی مرضی ٹریننگ دے لیں‘ بے فائدہ نکلتی ہے۔
یاد رہے کہ جس دور کو ریڈیو کے حوالے سے نئے ڈائریکٹر جنرل بحال کرنا چاہتے ہیں‘ اس دور میں بھی مالی وسائل واجبی سے تھے۔ تنخواہ، پنشن، بجلی کا بل، ٹرانسپورٹ اور میڈیکل بل کے بعد پروگراموں کے لیے ایک‘ دو فیصد بجٹ بچتا تھا۔ ایسے ماحول میں بھی معرکہ آرا پروگرام پیش کیے گئے۔ اس حوالے میں اپنے پروڈیوس کیے ہوئے ایک پروگرام کی مثال پیش کرتا ہوں؛ خودنمائی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کی ساری تفصیل مجھے یاد ہے۔
1980ء میں شاید یا 81ء میں لاہور سٹیشن پر میں بطور سینئر پروڈیوسر تعینات تھا۔ 23مارچ سے دو ہفتے قبل ہمیں ہیڈ کوارٹر سے آرڈر ملا کہ یوم پاکستان پر جو مخصوص پروگرام قومی نشریاتی رابطے پر پیش ہوگا۔ وہ اس برس لاہور سٹیشن پروڈیوس کرے گا۔ میرے سٹیشن ڈائریکٹر عبدالحمید اعظمی نے مجھے بلا کر وہ آرڈر میرے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ تم کرو گے۔ میں حکم سن کر آ گیا اور اس بارے میں سوچ بچار کرنے لگا کہ کیا کرنا چاہئے کیونکہ اعظمی صاحب نے کہا تھا کہ دوسرے شہروں سے لوگ نہ بک کرلینا‘ ہمارے پاس ان کو ٹی اے ڈی اے دینے کا بجٹ نہیں ہے۔
سلیم گیلانی صاحب‘ جو بعد میں ریڈیو کے ڈی جی بنے‘ اس وقت ڈائریکٹر پروگرامز تھے۔ ایک روز بعد مجھے اعظمی صاحب نے بلایا اور کہا کہ گیلانی صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پھر فون ملا کر مجھے پکڑا دیا۔ ان کے ساتھ پہلے میں کئی برس کام کر چکا تھا‘ اس لیے ان کی بات سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی تھی، کہنے لگے: کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا کہ ابھی تو تصورات کی دنیا میں ہوں۔ بولے: تو پھر 1940ء کے جلسے پر ایک تصوراتی رننگ کمنٹری کیوں نہیں کروا دیتے؟ میں نے کہا :بہتر ہے‘ میں دیکھتا ہوں کہ کیا میٹریل مل سکتا ہے۔ بس یہ مرکزی خیال تھا۔ اس کے بعد میں نے صوتی اثرات کے اپنے ماہر الطاف الرحمن کو اپنے ساتھ منسلک کر لیا۔ سنٹرل لائبریری سے مجھے دو چیزیں ملیں۔ ایک اس جلسے کے دو نعرے‘ جو بابو فیروز دین کی اصل آواز میں تھے۔ نعرہ تکبیر‘ اللہ اکبر اور قائداعظم زندہ باد۔ اور ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح‘ اس نظم کی ریکارڈنگ میاں بشیر کی آواز میں۔ اس کے بعد میں نے اس جلسے کے تین عینی شاہدوں سے ملاقاتیں کیں اور نوٹس بنا لیے کہ جلسے میں کیا کچھ ہوا تھا۔ظہور عالم شہید، ابو سعید انور اور م ش۔ یہ تینوں 1940ء میں جوان تھے اور سب کچھ ان کو یاد تھا۔
اپنے معروف انائونسر عزیز الرحمن کو کمپیئر بنایا اور خود مسودہ لکھ کر بالکل رننگ کمنٹری کے انداز میں پیش کیا۔ نعروں کو الطاف الرحمن نے بار بار دہرا کر جلسے کا نقشہ بنا دیا۔ قائداعظم کی آمد پر یہی نعرے چلا کر ساتھ اس دور کے ریلوے انجن کی آواز بھی شامل کی گئی اور یہ تک شامل کیا گیا کہ قائداعظم ریلوے سٹیشن سے سیدھے میوہسپتال گئے‘ جہاں وہ ایک روز پہلے جو خاکسار تحریک کے کارکنان پولیس ایکشن میں زخمی ہوئے تھے‘ ان کی عیادت کریں گے۔
خیر اور بھی بہت تفصیل ہے؛ تاہم یہ پروگرام گیلانی صاحب سمیت سب افسروں کو تو پسند آنا ہی تھا لیکن بہت خوشی اس وقت ہوئی جب ظہور عالم شہید، ابو سعید انور اور م ش نے بھی اس کی تعریف کی۔ م ش کا یہ جملہ مجھے آج تک یاد ہے: ''اوہ منڈیا! توں تے مینوں انیس سو چالی وچ پہنچا دِتا‘‘۔ (او لڑکے! تم نے تو مجھے 1940ء میں پہنچا دیا تھا)۔
یہ پروگرام بعد میں کئی مرتبہ 23مارچ کے موقع پر نشر ہوا اور اس کا ٹرانسکرپٹ بھی وڈیو کے رسالے ' 'آہنگ‘‘ میں چھپا۔ واضح رہے کہ اس پروگرام پر کوئی رقم خرچ نہیں ہوئی تھی۔