میں نے اپنی ریڈیو سروس کے دوران صدر ایوب خان کی صدارت کا آخری زمانہ دیکھا‘ جب ایک طرف اصلاحات کا عشرہ یعنی Decade of Reformsمنایا جا رہا تھا اور دوسری طرف صدر کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں 1963ء میں تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا تو کیا رعب ہوتا تھا صدرِ پاکستان ایوب خان کا۔ ہمارے لاہور سٹیشن پر ایک سٹاف آرٹسٹ ہوتے تھے عقیل احمد۔ وہ کسی زمانے میں فٹ بال کے بہت معروف کھلاڑی تھے اور کلکتہ کے محمڈن سپورٹنگ کلب کی طرف سے کھیلتے تھے۔ صدر ایوب خان نے عقیل احمد کو فٹ بال میچز کھیلتے دیکھا ہوا تھا اور موصوف کو یاد بھی تھا۔ عقیل احمد نے بھارت میں اپنی پراپرٹی کا کلیم داخل کیا ہوا تھا مگر ان کے پاس کوئی ثبوت وغیرہ نہیں تھا۔ ان کو یہ معلوم تھا کہ ایوب خان ان کے فٹ بال کے عروج کے دنوں میں ان کے کھیل کے پرستار رہے ہیں مگر وہ سوچتے تھے کہ پتا نہیں انہیں کچھ یاد بھی ہو گا کہ نہیں‘ پرانی بات ہو چکی تھی؛ تاہم ایک روز عقیل احمد نے ایک پوسٹ کارڈ پر اپنی داستان لکھی اور پتے کی جگہ صدر جنرل محمد ایوب خان‘ راولپنڈی لکھ کر پوسٹ کارڈ لیٹر بکس میں ڈال دیا۔ معلوم نہیں اس دور میں صدر تک ڈاک پہنچنے کا کیا انتظام تھا مگر یہ پوسٹ کارڈ ایوب خان تک پہنچ گیا۔ انہوں نے فوراً اپنے سٹاف کے ذریعے لاہور کے چیف سیٹلمنٹ کمشنر کو وہ خط اور اپنا حکم بھجوایا کہ عقیل احمد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں‘ اس کا پورا کلیم منظور کرکے نقد رقم عقیل کو ادا کرکے مجھے اطلاع دی جائے۔ اس زمانے میں عقیل احمد کو اسی ہزار روپے کے قریب رقم ملی اس وقت بطور سٹاف آرٹسٹ ان کو ماہانہ دو‘ اڑھائی سو روپے ملتے ہوں گے شاید۔ اب اس رقم کا کیا ہوا‘ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ میں بتا رہا تھا کہ ایوب خان کا رعب کتنا تھا کہ ایک پوسٹ کارڈ پر صدر کا نام دیکھ کر ہر کوئی اس کو آگے بڑھاتا رہا اور وہ صدر تک پہنچ گیا۔ پھر جب اقتدار ہاتھ سے جا رہا تھا تو اسی ایوب خان کے نام کو گلیوں‘ بازاروں میں رسوا کیا گیا اور پھر یحییٰ خان کا مارشل لا آ گیا۔ کچھ لوگ صدر ایوب خان کے خلاف احتجاج میں تیزی لانے کے حوالے سے یحییٰ خان کا نام لیتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی باتوں کا حقیقی علم صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کو ہے۔
لوگ اکثر ''میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سے مارشل لا کا نفاذ مراد لیتے ہیں مگر یحییٰ خان کی تقریر انگریزی میں تھی اور Fellow Country Men کے الفاظ سے شروع ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے کئی لوگ یہ سمجھے کہ یحییٰ خان نے ''ہیلو کنٹری مین‘‘ کہہ کر تقریر شروع کی تھی۔ اس زمانے میں نیشنل پک اَپ یعنی قومی نشریاتی رابطے کے سارے پروگرام کراچی سے نشر ہوتے تھے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام ریڈیو سٹیشن کراچی کو رِیلے کرتے تھے۔ یحییٰ خان نے مارشل لا کے نفاذ کی تقریر راولپنڈی میں ریکارڈ کروائی تھی‘ وہاں سے ہمارے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل چودھری اقبال ایک چھوٹے جہاز میں ٹیپ لے کر کراچی پہنچے۔ پھر اُردو اور بنگلہ زبان کے مترجمین کو ایک جگہ بند کردیا گیا اور ان سے ترجمہ کروایا گیاجو یحییٰ خان کی تقریر کے فوراً بعد نشر ہونا تھا۔ اردو والا مغربی پاکستان میں اور بنگلہ والا مشرقی پاکستان میں۔
مترجمین جب کام ختم کر چکے تو ان کو سختی سے منع کیا گیا تھا کہ جب تک تقریر نشر نہ ہو جائے‘ کسی سے تقریر کے متن کا ذکر نہ کریں۔ اردو میں ترجمہ کرنے والوں میں ہمارے ایک عزیز دوست شمس الدین خالد بھی شامل تھے۔ ان کے بارے مشہور تھا کہ ان کو کوئی بات پتا چل جائے اور وہ ان کے نزدیک اہم ہو تو وہ اپنی موٹرسائیکل پر نکلتے اور جہاں جہاں جاتے‘ شروع ہو جاتے: سنا آپ نے؟ اور پھر ساری داستان بیان کر دیتے اور آخر میں یہ ضرور کہتے کہ کسی سے کہیے گا نہیں۔ ہمارے ایک ساتھی تھے منظور عباس۔ ان کا کہنا تھا کہ جب شمس صاحب کہیں کہ کسی سے کہیے گا نہیں تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ بات صیغۂ راز میں رہے بلکہ ان کا مطلب ہوتا ہے کہ میں خود ہی سب کو بتانے کیلئے کافی ہوں۔ شمس الدین خالد کی اس عادت کے سبب یحییٰ خان کی تقریر کا متن کراچی کے بہت سے حلقوں کو تقریر نشر ہونے سے پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا۔ویسے سچی بات یہ ہے کہ لوگوں کو ویسے بھی یہ معلوم تھا کہ دوبارہ مارشل لا آ رہا ہے۔
صدر ایوب جتنے رکھ رکھائو والے تھے‘ یحییٰ خان اتنے ہی متضاد تھے۔ جب ہوائی جہاز سے باہر نکلتے تو دروازے پر اپنے بالوں کو کنگھی کرنا شروع کر دیتے۔ اب بھی اگر آپ پرانی پی ٹی وی فوٹیج دیکھیں تو آپ کو یحییٰ خان جہاز کے دروازے پر کھڑے دکھائی دیں گے‘ پھر یکدم وہ آدھی سیڑھیوں پر ہوں گے۔ جب وہ کنگھی کرتے تھے تو ٹی وی والوں کو وہ حصہ ایڈٹ کرنا پڑتا تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ جب اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس سٹیٹ بینک کراچی کے ہال میں منعقد ہوئی تو پوری مسلم دنیا کے وزرائے خارجہ بیٹھے تھے اور صدر صاحب کا انتظار ہو رہا تھا۔ وہ کافی دیر سے پہنچے‘ جب لکھی ہوئی تقریر پڑھنے لگے تو کاغذوں کی ضرورت سے کہیں زیادہ کھڑکھڑاہٹ صدر صاحب کی کیفیت کا پتا دے رہی تھی۔ اس وقت ہم لوگ تقریر براہِ راست نشر کر رہے تھے جس کا ساتھ ہی ساتھ عربی زبان میں ترجمہ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کیلئے خصوصی سرکٹ بکنگز کے ذریعے نشر ہو رہا تھا۔''اھلاً و سہلاً مرحبا‘‘ کے بورڈ پہلی مرتبہ اس کانفرنس کے دوران شہر بھر میں لگائے گئے تھے۔ بعد میں 1974ء میں جب لاہور میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس ہوئی تو پھر اس وقت یہی بینرز ہر طرف نظر آئے تھے۔
یحییٰ خان کے معمولات کیا تھے وہ تو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے ذریعے منظر عام پر آ چکے ہیں لیکن اس سے قطع نظر موصوف کی طبیعت میں بچوں والا لاابالی پن بھی تھا۔ بحریہ کی ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی تھے‘ حسبِ معمول تاخیر سے پہنچے‘ تقریب کے بعد جب سب مہمانوں کو چائے وغیرہ کی دعوت دی گئی تو جو میز اُن کیلئے مختص تھی‘ اسے چھوڑ کر ادھر ادھر پھرنے لگے۔ ایک نوجوان اپنی آٹو گراف بک لے کر آ گیا۔ آٹو گراف بک ہاتھ میں پکڑ لی اور کرخت انداز میں بولے: یو وانٹ آٹو گراف؟نوجوان سہم گیا‘ آہستہ سے بولا: یس سر!۔صدر صاحب گرجے: ٹرن بیک۔ نوجوان نے سہمے سے انداز میں منہ دوسری طرف کر لیا۔ اس کے بعد اس نوجوان کی پشت پر آٹو گراف بک رکھ کر انہوں نے آٹو گراف دیا۔ اس کے بعد زور دار قہقہہ لگا کر آٹو گراف بک اس نوجوان کو واپس کی تو اس کی جان میں جان آئی۔ یہ تماشا دیکھ کر اور لوگ بھی آٹو گراف لینے آ گئے۔ وہ ہر ایک کو کہتے ٹرن بیک اور پھر آٹو گراف دے دیتے۔ اسی دوران ایک خاتون آئیں جنہیں دیکھ کر وہ بولے: کیا تم شادی شدہ ہو؟ موصوف کی جو شہرت تھی‘ اس خاتون کی تو جان نکل گئی۔ نحیف سی آواز میں بولی: یس سر! ۔ صدر صاحب بولے: تمہارا شوہر کہاں ہے؟ خاتون نے دور اشارہ کیا۔ اس کا شوہر تو پہلے ہی اِدھر متوجہ تھا۔ صدر صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا اور جب وہ قریب آیا تو اس کو بولے: ٹرن بیک۔ سب ہنسنے لگے۔ اس خاتون کی بھی جان میں جان آئی۔ اس کے شوہر کو پشت پر آٹو گراف بک رکھ کر صدر صاحب نے آٹوگراف دیا اور بک خاتون کو واپس کر دی۔ یہ ہمارے سربراہِ مملکت تھے‘ مکمل بااختیار جو بچکانہ پن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ میرے ساتھ ریکارڈنگ کا سامان اٹھانے کیلئے جو نائب قاصد گیا تھا‘ وہ چائے پینے والوں میں شامل ہو چکا تھا اور سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ ایوب خان کا پرستار تھا اور رہنے والا بھی ان کے آبائی علاقے ہری پور کا تھا۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو گاڑی میں مَیں نے اس سے کہا: دیکھا پھر نیا صدر؟ وہ بولا: صاحب ہمارے بابے ایوب کے ساتھ ظلم ہوا ہے‘ اور ظلم کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔