اگر ہم اندازہ لگائیں تو ذہن میں آئے گا کہ چینی لوگوں کو اردو زبان سیکھنے میں خاصی دشواری پیش آتی ہو گی، کیونکہ ایک تو ان کی مادری زبان بالکل مختلف ہے‘ دوسرا، ان کے بولنے کا انداز اردو کے لیے انتہائی غیر موزوں معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ سوچتے جائیں‘ کہیں بھی کوئی مطابقت پیدا ہوتی دکھائی نہیں دے گی۔ اس کے باوجود چینی لوگ جب اردو سیکھ جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ بالکل ہماری‘ آپ کی طرح اردو بولتے سنائی دیتے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین نے آزادی کے حصول کے بعد ایک پالیسی کے تحت دنیا کی اہم زبانیں سیکھنے کا اہتمام کیا تھا۔ زیادہ زور تو بہرحال انگریزی پر تھا؛ تاہم اردو بھی سیکھانے کا اہتمام تھا۔ پھر ریڈیو بیجنگ نے اردو سروس بھی شروع کی تھی جو اب تک جاری ہے۔ اس میں ہمارے وائس آف امریکا کے ساتھی مرحوم سلطان غازی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ ہمیں درست چینی تلفظات بھی بتایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کے ساتھ دوستی تھی‘ اس لیے اُن کے گھر بھی جانا ہوتا تھا۔ پانی مانگیں تو ان کے فریج میں ٹھنڈے پانی کی بوتل نہیں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ پورے چین میں پانی کمرے کے درجہ حرارت پر ہی پیا جاتا ہے اور برف کا استعمال چینی لوگ شراب وغیرہ کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ وہاں رہ کر غازی صاحب بھی اس بات کے قائل ہو چکے تھے کہ صحت کے لیے ٹھنڈا پانی مفید نہیں ہوتا۔ البتہ جب ہم اصرار کرتے تو پھر وہ فریزر میں سے برف نکالتے اور پانی میں ڈال کر ہمیں دے دیتے۔
چینی ثقافت کی بہت باتیں وہ ہمیں سنایا کرتے تھے‘ جن میں ایک یہ بات بھی تھی کہ چینی لوگ زیادہ تر بیماریوں کا علاج اپنے روایتی طریقوں سے ہی کرتے ہیں اور ایلو پیتھک دوائیاں غیرملکی سفارتخانوں وغیرہ میں ہی استعمال ہوتی تھیں۔ یہ تو میں اسّی کی دہائی کی بات سنا رہا ہوں‘ اب وہاں حالات شاید تبدیل ہو گئے ہوں گے کیونکہ چین مسلسل بدل رہا ہے ا ور آگے بھی بڑھ رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی چینیوں کے اردو سیکھنے کی۔ حمید احمد خاں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے‘ اُن سے ملنے چین سے ایسے طالب علموں کا ایک وفد آیا جنہوں نے چین ہی میں اردو سیکھی تھی۔ وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس وفد کے کراچی جانے سے پہلے ہی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی کو خط لکھا کہ جو چینی وفد آ رہا ہے چین میں اردو سیکھ کر‘آپ اُن سے ضرور ملیں اور ان کو دیکھے بغیر اُن سے گفتگو کریں تو آپ پہچان نہیں پائیں گے کہ یہ لوگ چینی ہیں۔ خیر وہ وفد کراچی گیا تو وہاں اُس کی اشتیاق حسین قریشی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ بعد میں قریشی صاحب نے حمید خاں صاحب کو خط لکھا جس میں حیرت کااظہار کیا کہ یہ لوگ ا یسی فصیح اردو بول رہے تھے کہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ اُن کے بقول‘ بس ایک جگہ اُن میں سے ایک لڑکے نے اس سوال کے جواب میں‘ کہ آیا اُن کی شادی ہو چکی ہے‘ کہا: جی نہیں! میں ابھی ناکتخدا (کنوارا) ہوں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بس صرف یہ ایک جملہ تھا جو نشاندہی کرتا تھا کہ یہ غیرملکی ہیں۔
ہم نے اردو کو اپنی قومی زبان بنایا ہے مگر اس کی ترویج کا اہتمام کسی دورمیں جھی تسلی بخش نہیں رہا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معیار مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ کتنے لوگ ہوں گے جن کو معلوم ہو کہ اردو میں کنوارے شخص کو ناکتخدا کہتے ہیں؟ جس نے چین میں رہ کر اردو سیکھی تھی‘ اس کو یہ معلوم تھا۔
جوش ملیح آبادی مرحوم اردو کی خاطر پاکستان آئے تھے اور یہاں آ کر مسلسل پاکستان میں اردو کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے رہے۔ وہ اردو کو ماں کی زبان کہتے تھے اور انگریزی کو باپ کی زبان۔ یہ ایک طرح سے اُن لوگوں پر طنز کرتے تھے جنہوں نے انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔ جوش صاحب الفاظ کی صحت کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ ایک انٹرویو میں میزبان نے قریب المرگ بول دیا۔ فوراً ٹوک دیا۔ قریب عربی ہے اور مرگ فارسی‘ قریب الموت بولو۔ اسی انٹرویو میں جب میزبان نے جوش صاحب کے اردو پر عبور کا ذکر کیا تو بولے: بھائی میں تو پریشان رہتا ہوں کہ میرے خیالات کو الفاظ کی سواریاں نہیں ملتیں۔ جب میزبان نے وضاحت چاہی توجواب میں ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے: دلّی میں ہم تانگے میں جا رہے تھے کہ کوچوان نے ایک عورت کو‘ جو بیچ سڑک کے چل رہی تھی‘ آواز دی۔ اوہ مائی ہٹ! جب اُس عورت نے مڑ کردیکھا تو معلوم ہوا کہ اصل میں وہ بارہ تیرہ سال کی ایک لڑکی تھی‘ مائی کا تخاطب سن کر اس کے چہرے پر جو تاثر پیدا ہوا اُس کو بیان کرنے کیلئے اردو میں کوئی لفظ ہی نہیں۔ جوش صاحب کا کہنا تھا اس بچی کے چہرے کے تاثر کو آج تک کسی لفظ کی سواری نہیں مل سکی۔
ضیاء الحق دور میں پاکستان میں عربی زبان رائج کرنے کی کوشش بھی ہوئی تھی۔ سعودی عرب سے ایک استاد کو پاکستان بلوایا گیا جو عرب تھے مگر اردو جانتے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کے شعبہ سنٹرل پروڈکشنز میں اپنا دفتر قائم کیا اور عربی سیکھنے کے اسباق تیار کیے کہ ان کو ریکارڈ کر کے ریڈیو پر نشر کیا جائے گا۔ یہ ایسی ہی کوشش تھی جیسی ایوب خان کے دور میں مغربی پاکستانیوں کو بنگالی زبان سکھانے کے حوالے سے کی گئی تھی۔ اُس وقت بھی ریڈیو پر ہی اسباق نشر کیے جاتے تھے۔ حالانکہ ریڈیو کے ذریعے بنگالی زبان سکھانے کا ناکام تجربہ ریکارڈ پر تھا لیکن جب ضیا حکومت نے عربی سکھانے کی کوشش کی اور ریڈیو کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو ماضی کے تجربے کو کسی نے بھی سامنے نہ رکھا۔ ممکن ہے اُس دور میں ٹی وی پر بھی عربی سکھانے کے اسباق نشر ہوئے ہوں۔ اصل میں ایسے کام کبھی بھی سرکاری احکامات کے ذریعے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔
ہمارے ہاں پاکستان رائٹرز گلڈ بنی‘ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بنی‘ مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ قائم ہوا۔ ان اداروں نے کافی سود مند کام کیے لیکن اردو زبان جس رفتار سے تنزلی کا شکار ہے‘ اس کو روکنے میں یہ ناکام رہے۔ اب سوشل میڈیا نے آ کر ''مرے پر سو دُرے‘‘ والا کام کیا ہے۔ انگریزی حروف میں اردو لکھی جاتی ہے۔ نہ گرامر کی کوئی پروا کرتا ہے نہ لفظوں کا درست استعمال ہوتا ہے۔ مذکر مونث تک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مطلب‘ ایسی غلطیاں ہوتی ہیں جو چٹھی جماعت کے بچے بھی ہمارے زمانے میں نہیں کرتے تھے۔ ''صحیح‘‘ کو سہی لکھنا عام ہے۔ نامعلوم شعرا کے بے وزن اشعار علامہ اقبال کے سر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری کے نمونے سوشل میڈیا؛ فیس بک اور ٹویٹر پر بڑی تعداد میں روزانہ پوسٹ ہوتے ہیں۔ عربی میں دو فریقوں کو فریقین کہا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں عام استعمال ہونے لگا ہے کہ دونوں فریقین نے یہ کردیا‘ وہ کر دیا، وغیرہ۔اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ اردو زبان مسلسل یہ ظلم برداشت کر رہی ہے۔
میں نے کالم کے شروع میں چینیوں کے اردو سیکھنے کی مثال دی تھی۔ غیر ملک کے لوگ اگر درست اردو اور اپنے ملک میں رہتے ہوئے سیکھ سکتے ہیں تو ہم یہاں کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟ ہمارے انگلش میڈیم سکولوں میں تو اردو ویسے ہی برائے نام رہ گئی ہے لیکن اردو میڈیم سکولوں میں بھی اردو سکھانے والے استاد ناپید ہیں۔ریڈیو پاکستان کی نشریات میں اردو کا اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر کسی پروگرام میں کسی لفظ کا تلفظ درست نہ ہو تو وہ پروگرام دوبارہ ریکارڈ ہوتا تھا۔ بڑے سٹیشنوں پر ایک جید شخصیت کو تلفظ چیک کرنے پر مامور کیا جاتا تھا۔ پھر غلط العام اور غلط العوام کی بحثیں ہوتی تھیں۔ تنزلی اس ادارے میں بھی آخر کار پہنچ گئی۔ اب آپ کو وہ پرانی روایات نہیں ملیں گی۔
ہمارے ایک پروفیسر ہوتے تھے‘ وہ اس بارے میں کہا کرتے تھے کہ جب تک انگریزی زبان کو ہمارے ہاں اولیت حاصل رہے گی اردو زبان اپنا آپ چھپاتی رہے گی کیونکہ یہ ایک باغیرت زبان ہے۔ کچھ ہو جائے‘ سیکنڈ کلاس کے ڈبے میں سفر نہیں کرے گی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اردو نے ہمیں میرؔ‘ غالبؔ اور اقبالؔ جیسے شعرا دیے‘ اب وہ کیسے انگریزی کی برتری قبول کرے؟ جب انگریز حکمران تھے اس وقت بھی اردو صفِ اوّل میں رہی‘ اب جبکہ ہم آزاد ملک ہیں‘ اب اردو کیسے انگریزی سے دب کر رہنا قبول کرے؟ اسی طرح ہماری علاقائی زبانیں ہیں۔ وہ اپنے اپنے دائرۂ اثر میں اردو اور انگریزی کی برتری قبول نہیں کرتیں۔ مجبوریاں اپنی جگہ ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں سے آج کل جو ڈگری لے کر نکلتے ہیں اُن میں سے اکثریت کو نہ درست انگریزی آتی ہے، نہ وہ صحیح اردو جانتے ہیں اور نہ ہی اپنی مادری یا علاقائی زبان پر ہی اُن کو عبور ہوتا ہے۔ اس مسئلے کو اب خصوصی ذہانت کا انقلاب ہی حل کرے گا‘ جب روبوٹ گرامر کے لحاظ سے سو فیصد درست زبان میں گفتگو کیا کریں گے۔