سزائے موت

جس روز پاکستان کی مختلف جیلوں میں دس آدمیوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا‘ ارکنساس نے موت کی سزا ختم کر دی اور اس طرح وہ ان انیس امریکی ریاستوں میں شامل ہو گئی جو انتہائی سزا دینا منسوخ کر چکی ہیں۔ اقوام متحدہ موت کی سزا کے خلاف ایک قرارداد منظور کر چکی ہے مگر امریکہ اور چین سمیت بیشتر ملکوں نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔مغربی یورپ البتہ مانتا ہے کہ سزائے موت میں غلطی کا امکا ن ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ پاکستان میں جہاں سزا میں سیاست کی کارفرمائی کو بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا‘ ایسی سزاؤں میں انسانی فروگزاشت کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں صولت مرزا کی مثال دی جا سکتی ہے جس نے اپنے آخری اوقات میں کچھ با اثر سیاسی شخصیتوں کے نام لئے تھے اور انتظامیہ اس وڈیو سے بظاہر فائدہ بھی اٹھانا چاہتی تھی مگر بالآخر اس نے قتل کے مجرم کے الفاظ کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں قاتل تو تختہ دار پر چڑھ گیا مگر اس کے نامزد ملزم‘ معاشرے میں آزاد پھرتے ہیں۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں جب بورسٹل جیل کے(جو اب نہیں)باہر تین مجرموں کو پہلی اور آخری بار بر سر عام پھانسی کے پھندے سے باندھا گیا‘ میں ''تما شایوں‘‘ میں موجود تھا اور میرے ساتھ انگلستان کا ایک صحافی بیٹھا تھا۔ جب ریاست نے ملزموں کو موت کے گھاٹ اتارا اور عوام نے خوشی سے تالیاں بجائیں تو ڈیلی ٹیلیگراف کا نامہ نگار بولا‘ یہ قوم بے حس ہو جائے گی۔گزشتہ سال پشاور میں ایک سکول پر قاتلانہ حملے اور اس حملے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ بچوں اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں تقریباً چھ سال بعد سزائے موت کی بحالی سے مغربی نامہ نگار کی پیشگوئی درست ثا بت ہو رہی ہے۔ ملک میں قتل اور دہشت گردی بڑھ گئی ہے اور انسان‘ کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جا رہے ہیں۔
ڈسکہ‘ پنجاب میں قانون کے رکھوالے آپس میں دست و گریباں تھے۔ایک پولیس والے نے ایک وکیل کو گولی مار کر مار ڈالا اور ایک اور وکیل قتل ہو گیا۔ وکیلوں نے طیش میں آکر ایک تھانے اور ایک پولیس افسر کے گھر کو آگ لگا دی۔ چند روز بعد گوجرانوالہ اور ٹانک میں آٹھ افراد قتل کر دیے گئے۔ جزا اور سزا میں امیر اور غریب کا امتیاز اور سیاست کی کارفرمائی بھی پائی جاتی ہے۔ ایک اردو چینل نے ایک ہی فریم میں ایان علی اور ایک بچے کو دکھایا۔ جواں سال اور خوبصورت ماڈل دو ہفتوں سے منی لانڈرنگ کے الزام میں حوالات میں ہے اور اسے آزادانہ اڈیالہ جیل سے آتے جاتے دکھایا جاتا ہے‘ جب کہ گڈی اڑانے والے ایک بچے کو ہتھکڑی لگی ہے جس کا ایک سرا پولیس کانسٹیبل کے پاس ہے۔ پنجاب میں مس ایان علی کے خلاف تا دم تحریر کوئی استغاثہ عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا‘ مگر خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی شام سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کو قتل کے الزام میں ہتھکڑی لگا کر جیل بھجوا دیا گیا۔اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم کے ایک زیر حراست کارکن وسیم دہلوی کو قتل کر دیا گیا‘ جو تنظیم کے بقول ماورائے عدالت چالیسواں قتل تھا۔ ساتھ ہی خبر آئی کہ ایان علی کے تفتیشی افسر قتل کر دیے گئے ہیں۔حملہ آوروں کو گمان تھا کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر قانون کی گرفت میں آ گئے تو جلد چھوٹ جائیں گے۔دہشت گردی بھی جاری رہی۔پشین‘ بلوچستان سے کراچی جانے والی دو بسوں کو اغوا کیا گیا اور ان کے انیس مسافر قتل کر دیے گئے۔ان تازہ واقعات سے ظاہر ہو تا ہے کہ معاشرے میں تحمل اور رواداری بہت کم ہو گئے ہیں۔ ایک مثال خیبر پختونخوا میں حالیہ انتخابات تھے جو خلاف توقع مار کٹائی اور قتل و غارت سے پْر تھے اورجن میں چھبیس افراد ہلاک ہوئے۔ شائد اس لئے کہ سیاست ‘ تجارت بن گئی ہے اور لوگ اس کاروبار میں ہاتھ ڈالتے وقت مرنے مارنے کو تیار رہتے ہیں۔ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں ہوا میں گولیاں چلانے کا رواج بھی نیا ہے جس کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ ایسے واقعات پر مقدمات قائم ہونے چاہئیں۔ ایسے واقعات میں چوبیس گھنٹے کے اندرنو لوگ مارے گئے۔ پولیس افسروں سے ہاتھا پائی اور عدالتوں میں ان کی وردی پھاڑنے کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اور بعض نو جوان وکلا کوقانون کا احترام نہیں رہا اور اس میں کچھ قصور'' تھانہ کلچر‘‘ کا بھی ہے۔
امریکہ میں انتخابات تو بڑی حد تک پْر امن ہوتے ہیں مگر معاشرے میں دنگا فساد عام ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پولیس نے 385 افراد کو مار ڈالا جب کہ پچھلے سال لوگوں نے 51 بر سر کار پولیس افسروں کو ہلاک کیا۔ بیشتر کو شکایت تھی کہ زیادتی کرنے والے پولیس افسر کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ امن و امان ایک ریاستی معاملہ ہے۔ جن ریاستوں یا علاقوں میں سزائے موت قانونی ہے اور ان میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (قومی دارالحکومت) شامل نہیں‘ وہاں آئین کی یہ شق زیر بحث ہے:حد سے زیادہ زر ضمانت طلب نہیں کیا جائے گا‘ نہ حد سے زیادہ جرمانے عائد کئے جائیں گے‘ نہ ہی ظالمانہ اور غیر معمولی سزائیں دی جائیں گی۔
ضمانت اور جرمانے کی حد زیر بحث نہیں۔ اقوام متحدہ‘ مغربی یورپ اور جزوی طور پر امریکہ سزائے موت کو ظالمانہ اور غیر معمولی قرار دیتے ہیں اور جن ریاستوں میں انتہائی سزا کا رواج ہے ان میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا مجرم کو زہر کا ٹیکہ لگا کر موت کی نیند سلانا غیر معمولی سزا نہیں؟ اکثر ریاستیں مجرم کو اختیار دیتی ہیں کہ وہ کس طرح مرنا پسند کرے گا؟ زہر کے ٹیکے سے‘ بجلی کے جھٹکے سے ‘ یا فا ئرنگ سکواڈ سے؟ سر قلم کرنے یا پھانسی دینے کا رواج نہیں رہا۔اکثر مجرم زہر کے ٹیکے کو ترجیح دیتے ہیں مگر بعض ریاستیں اس ٹیکے میں استعمال ہونے والی دو دواؤں (کیمیکلز) کی قلت محسوس کر رہی ہیں۔ یہ دوائیں مغربی یورپ سے درآمد کی جاتی تھیں۔دوا ساز یہ کیمیکلز بنانا بند کر رہے ہیں کیونکہ ان کے ملکوں کو اب ان کی ضرورت نہیں رہی اورانہیں امریکہ کی ضرورت کی پروا نہیں۔
قانون کی درسگاہوں کے بیشتر طلبا اور اساتذہ نے ایسی انجمنیں بنا لی ہیں جو مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے اور انہیں ریاست کے جبر سے آزاد کرانے کا دعویٰ رکھتی ہیں۔ان میں کچھ پاکستانی نژاد امریکی لڑکے اور لڑکیاں بھی شامل ہیں۔زیا دہ تر وہ ڈی این اے ٹیسٹ استعمال کرتے ہیں اور انہوں نے اب تک ایک درجن سے زیادہ افراد کو رہائی دلائی ہے۔ چند معاملات میں بعد از سزایابی ایسے شواہد بھی پیش کئے گئے ہیں جنہیں استغاثہ نے قانون ( عدالت) سے مخفی رکھا۔چھ شہروں میں یہ مقابلہ جاری ہے کہ ''قتل کا صدر مقام‘‘ کون کہلائے ؟ ان میں قومی دارالحکومت واشنگٹن بھی شامل ہے؛ تاہم ملک میں جرائم بالخصوص قتل عمد کی شرح کم ہوئی ہے۔ 2011ء میں یہ شرح پانچ اعشاریہ ایک فی ایک لاکھ افراد تھی اب یہ شرح گھٹ کر چار سے بھی کم ہو گئی ہے۔
قتل کی سزا موت ہونی چاہیے یا نہیں؟ عبرت کے مغربی علمبردار تو اپنی شکست کا اعتراف کر چکے ہیں اور مشرقی ماہر اعداد و شمار سامنے پا کر خوف زدہ ہیں ۔مغرب نے سمجھا کہ اس کا معاشرہ ترقی یافتہ ہے‘ ملزم اور گواہ سچ بولیں گے اور منصف رشوت نہیں لے گا۔اس نے انسانی زندگی کے تقدس اور حرمت پر بھی غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ قدرت ایسی بیش بہا نعمت دوسری بار عطا نہیں کرتی۔وہ جنرل اسمبلی میں گیا اور اس نے نوآبادیاتی نظام کی زد میں رہنے والی دنیا کو ساتھ ملا کر انتہائی سزا کے خلاف ایک قرار داد منظور کرا لی۔ سلامتی کونسل کے فیصلوں کی طرح اس قرار داد کی تعمیل لازم نہیں تھی‘ اس لئے امریکہ‘ پاکستان اور کئی دوسرے ملکوں نے اسے رد کر دیا۔ امریکہ نے یہ معاملہ ریا ستوں پر ڈال دیا۔پاکستان مغرب کا''اخلاقی‘‘ دباؤ اور بعض ملزموں کا خوف دونوں محسوس کر رہا تھا اس لئے اس نے ایک عرصے تک کسی کو پھانسی نہیں دی۔یہ ڈر سکول کے بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دور کیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں