چند باتیں کھانے پینے کی

یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پاکستان میں رمضان المبارک کے استقبال میں چینی پر سب سڈی میں اضافے کا فیصلہ کیا گیاہے بصورت دیگر لوگ گلی کوچوں میں نکلتے‘ حکومت کے خلاف ریلیاں نکالی جاتیں ‘سڑکوں پر ٹائر جلائے جاتے اور یوں انہیں بند کر دیا جاتا حالانکہ سب سڈی وہ رقم ہے جو آپ کی جیب سے نکال کر آپ کی تلی پر رکھ دی جاتی ہے اور سب لوگ اسے سرکاری امداد سمجھ کر بصد شکریہ قبول کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ ‘ چین اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں سب سڈی نہیں دی جاتی۔امریکہ میں تو ڈاکٹر اور صحت کے دوسرے کارکن لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ چینی اور نمک کا استعمال‘ جو مسلمہ طور پر مضر صحت ہے‘ کم سے کم کر دیں اور لوگ اسے منظور کر رہے ہیں شاید اس لئے کہ ننا نوے فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے اور عقل کی بات معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے۔
سن ستر کے عشرے کی بات ہے۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین چارلس پر سی نے پاکستان کے دورے سے واپس آکر اپنے تاثرات قلم بند کئے۔آنجہانی نے لکھا کہ پا کستان کے شمال میں ایک علاقہ ہے جہاں بیشتر لوگ سو سال طویل عمر پاتے ہیں۔تحقیق سے پتہ چلا کہ اس دشوار گزار علاقے میں چینی اور نمک کمیاب ہیں اور عام لوگ دونوں چٹخاروں کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں۔ان کا اشارہ گلگت بلتستان کی طرف تھا جہاں شاہراہ ریشم ابھی پکی نہیں ہوئی تھی۔ وہ باقی ملک سے کٹا ہوا تھااور اسے ایک انتظامی یونٹ بنانا دْور کی بات تھی۔
کھانے پینے کے معا ملے میں انسان اپنی اصل کو لوٹ رہا ہے۔سکولوں اور کالجوں سے وہ مشینیں ہٹا دی گئی ہیں جو ٹھنڈے میٹھے مشروبات اور نمکین ما کولات فروخت کرتی تھیں اور جن کے بکثرت استعمال سے بیشتر بچے حد سے زیادہ موٹے ہو رہے تھے۔ سکولوں میں جس ٹرے میں دوپہر کا کھانا دیا جاتا تھا‘ اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ سٹیرا فوم تھی جو کبھی فنا نہیں ہو تی‘ امریکی فرم ڈاؤ کیمیکلز کی ایجاد۔ اس مواد سے بنے خوراک کے کپ اور کنٹینر بھی ہٹا لئے گئے ہیں۔گروسری سٹور اپنی روشوں میں آرگینک اور نان جی ایم او کا اضافہ کر رہے ہیں۔ایک روش '' گلوٹن فری ‘‘کے لئے وقف کر دی گئی ہے۔ روایتی سٹوروں کے مقابلے میں ایسی دکانیں معرض وجود میں آ رہی ہیں جو خالص سودا فروخت کرنے کی دعویدار ہیں۔ آرگینک سے مراد ایسی سبزیاں اور پھل ہیں جو جدید کھاد کے بغیر پیدا کئے گئے ہیں۔جی ایم او‘ جینیاتی طریقے سے بدلے ہوئے گوشت اور دوسری اشیائے خوردنی کو کہتے ہیں اورخوراک کے ڈبوں پر آرگینک اور نان جی ایم او لیبل عام دکھائی دیتے ہیں۔وہی مرغ اور دوسرے جانوروں کا گوشت زیادہ فروخت ہو تا ہے جنہیں ہارمونز کے ٹیکے نہ لگائے گئے ہوں اور جنہیں چراگاہوں میں کھلا چھوڑ دیا گیا ہو۔ گلوٹن اناج میں پائی جاتی ہے جس سے texture بنتا ہے۔عوام کے علم میں یہ بات پہلی دفعہ پانچ سال پہلے لائی گئی جب کسی ڈاکٹر نے اس عنصر کے خلاف فتویٰ دیا۔ لوگ گندم اور چاول سے پر ہیز کرنے لگے۔بھلا گلوٹن کے بغیر‘ جو خوراک کو چبانے کے قابل بناتی ہے‘ روٹی اور چاول کیسے پکیں گے مگر بیکریوں نے گلوٹن فری بریڈ ‘ چاول اور دوسرے انا جوں کی روٹیاں اور بسکٹ بنانا شروع کر دیے ہیں خواہ کسی کو ایسی روٹی کھانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔پاکستانی اور ہندوستانی فوڈ پراسیسر بھی حکومت کے بنائے ہوئے ضابطوں کی تعمیل پرمجبور ہے۔
انسان کو آخری دم تک وہی غذا مرغوب ہوتی ہے جسے کھاکر وہ جوان ہوتا ہے۔پاکستان میں گندم اور بنگلہ دیش میں چاول‘ عام لوگوں کی خوراک کا لازمی جز ہیں۔امریکہ میں‘ جو تارکین وطن کا ملک ہے‘ ایسا نہیں ہے۔پاکستان میں گندم کے مقابلے میں مکئی اور جو دستیاب ہیں مگر دونوں اجناس کو کوئی نہیں پوچھتا۔ حالانکہ اقبال ''نان جویں‘‘ کو ایک اہم مذہبی شخصیت سے منسوب کر چکے ہیں۔امریکہ میں وہ دونوں گندم کے بالمقابل کھڑے ہیں اس لئے کہ ان میں حرارے کم ہیں‘ جو اچھی صحت کی ضمانت ہے۔امریکہ میں عربوں کا مقبول انا ج کسکس بھی ملتا ہے جو اسی وجہ سے گندم سے زیادہ مقبول ہے۔ اہل پاکستان کو اپنی خوراک میں توازن پیدا کرنے کے لئے اپنی عادات کو بدلنا ہو گا۔
کافی اور چائے تو امریکہ کا سیاسی نزاع ہے‘ جس میں کافی کو شکست نہیں دی جا سکتی مگر انڈہ‘ ناریل کا تیل اور مکھن کا معا ملہ دوسرا ہے۔جوں جوں غذائی سائنس آگے بڑھ رہی ہے یہ تین اشیا ئے خوردنی جو چند سال پہلے تک ممنوع تھیں کھانے کی میز پر واپس آ گئی ہیں۔آپ نے تو یہ تین اشیا کھانا چھوڑاہی نہیں ۔اچھا کیا۔امریکہ میں ان کے استعمال کی دوبارہ اجازت دی جا رہی ہے۔اب ہم انڈہ زردی سمیت کھا سکتے ہیں خواہ انڈے کی زردی کولیسٹرول سے بھری ہے مگر یہ نعمت یادداشت بھی بڑھا سکتی ہے۔ کولیسٹرول کی ایک قسم دل کے عارضے اور فالج کا سبب بن سکتی ہے اور یہ فیصلہ صارف پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ مرنے کیلئے‘ نسیان اور ہارٹ اٹیک میں سے کیا چیز پسند کرتا ہے۔کئی سال پہلے ملائشیا جانے کا اتفاق ہوا تو ایک مکھی ایک درخت سے چمٹی دیکھی۔درخت ناریل کا تھا جو کوالالمپور کے نواح میں بکثرت پایا جا تا ہے۔ان دنوں ایک فاسٹ فوڈ چین نے دنیا بھرمیں اپنے ریستورانوں میں آلو کے قتلے‘ ناریل کے تیل میں تلنے کی ممانعت کر دی تھی اس لئے یہ تبصرہ قدرتی تھا کہ ملائشیا کو ان درختوں کی کثرت کا کیا فائدہ ہو گا؟ مکھی تو کاٹ کر چلتی بنی مگر درختوں کی افادیت اب سمجھ میں آئی۔ اس کے تیل میں ایک ایسا عنصر پایا جاتا ہے جو انسانی جسم کو بیماریوں کے بیرونی حملوں سے اپنے بچاؤ کی استعداد مہیا کرتا ہے اور عمر پاتے ہوئے بالغوں کی ذہنی صلاحیت کی حفاظت کرتا ہے۔'' جو کرے گھیو‘ نہ کرے ماں نہ پیو۔‘‘ امریکہ میں یہ محاورہ درست ثابت ہو رہا ہے۔اس ملک میں گھیو کی جگہ مکھن استعمال ہوتا ہے۔بٹر ‘ سبزیوں سے معدنیات اور وٹامن جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔امریکیوں کو ایسا بٹر خریدنے کی تلقین کی جارہی ہے جو گھاس چرنے والی گائے بھینس سے آیا ہو۔امید ہے آپ تو ایسا کرتے ہی ہو ں گے۔کھانا پکانے کے لئے تیل (گھیو) کے استعمال میں احتیاط لازم ہے۔زیتون کا تیل زیادہ موزوں ہے اگر مہنگا یا کمیاب ہو تو کنولا خریدا جا سکتا ہے۔
اگر آپ صحت اور مزے دونوں کی تلاش میں ہیں تو گہرے سبز پتوں والی سبزیاں کھائیے۔آپ پالک تو کھا ہی رہے ہیں اس میں کیل اور کالرڈ کا اضافہ کر لیں۔ وہ آئرن‘ کیلشئم اور وٹامن سی سے بھرپور ہیں۔چقندر میں یہ سب اور مگنیشیم موجود ہے۔ ایواکیڈو میں درد سے محفوظ رکھنے والے عناصر وافر ہیں۔سرخ رنگ کے گوشت کی ممانعت کی جا رہی ہے۔مراد بکرے اور گائے کے گوشت سے ہے۔چکن کی شامت آئی ہے بالخصوص اس کے سفید گوشت کی۔ہفتے میں دو بار مچھلی بھی مفید ہے۔ہر چند کہ سمندروں میں پائی جانے والی مچھلی‘ پارے سے لدی ہے اور سخت کھا ل والی سمندری مخلوق مثلاً جھینگا اور لابسٹر‘ جومہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں‘ مضر پائے گئے ہیں۔
بعض دوسری اشیائے خوردنی بھی آپ کے باورچی خانے سے دور رہنی چاہئیں‘ مثلاً ٹرانس فیٹ بالخصوص خشک شدہ ویجیٹیبل آئل‘ کھانے کے رنگ‘ مصنوعی مٹھاس‘ کارن سیرپ اور دھواں کھائے ہوئے گوشت‘ یہ اشیا کولیسٹرول‘ بلڈ پریشر اوربلڈ شوگر کا توازن بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہیں۔'' ایک قیمت دیجیے جتنا چاہیے کھایئے‘‘ امریکہ میں یہ سائن بکثرت نظر آ تا ہے۔اپنے ہاں لگنے نہ دینا۔ون ڈش پارٹی زیا دہ مفید ہے بشرطیکہ قا نون پر بلا استثنا عمل ہو۔کھانے کے لئے ڈبے سے باہر آنا سیکھیے۔ پراسیسڈ فوڈ‘ جو رنگا رنگ ڈبوں میں آتی ہے اور خریداروں کی کشش کا باعث بنتی ہے‘ نقصان دہ ہے۔آپ تو بچپن سے دہی کھا رہے ہیں‘ مغرب میں اسے مقبول ہوئے تین چار عشرے ہی گزرے ہیں۔دہی کھاتے رہیے۔ قدرت نے انسان کو صحت مند رکھنے کے لئے اسے دہی بنانا سکھایا ہے۔ یہ مکمل غذا ہے اور اس میں لاکھوں کی تعداد میں وہ جرثومے پائے جاتے ہیں جو نظام ہضم کو درست رکھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں