آج بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کو ہم سے جد ا ہوئے 65سال کا عرصہ بیت چکاہے ۔قائد اعظم نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لیے بڑی زبردست جدو جہد کی ۔آپ ایک ایسی ریاست کا قیام چاہتے تھے جس میں اسلام کے آفاقی اصولوں کی پیروی کرکے دنیا بھر کی توجہ قرآن وسنت کی زرّیں تعلیمات کی طرف مبذول کروائی جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عظیم مذہبی، سیاسی دانشوروں نے حضر ت قائد کی پکار پرلبیک کہا۔ محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں جیسے قائدین نے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کے لیے آپ کے شانہ بشانہ بھرپورطریقے سے جدوجہد کی ۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی ایک بڑی تعداد نے قیامِ پاکستان کے لیے آپ کی قیادت میں کام کیا اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں آپ کے مشن کو فروغ دینے کے لیے بھر پور طریقے سے جدو جہد کی۔مسلمانانِ ہند کی محنتیں اورقربانیاں رنگ لائیں اور قائد کی قیادت میں انگریزوں کے بعد ہندوئوں کی غلامی کی دلدل میں اُترنے کی بجائے ایک آزاد وطن حاصل ہوا‘ جس میں اپنے نظریات اور افکار کے مطابق باآسانی زندگی گزارنے کے امکانات پیدا ہوئے ۔حضرتِ قائد قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے اور صرف 13ماہ بعد دنیا سے رخصت ہوگئے ۔آ پ ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان چاہتے تھے ۔آزادی کی نعمت گو آپ کی زندگی میں ہمیںحاصل ہوگئی؛ تاہم استحکام کی ذمہ داری آپ آنے والی نسلوں کے کاندھوں پر ڈال کرراہی ِملک ِعدم ہوئے ۔ المیے کی بات یہ ہے کہ آپ کے رخصت ہوجانے کے بعد آپ کی امنگوں اور خواہشات کا صیحح معنوں میں احترام نہ کیا گیا اور ہم ایک قوم بننے کی بجائے مختلف رنگوں ،نسلوں ، قوموں ،علاقوں ،گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے ۔ہمارا عقیدہ ،ایمان اور مذہب جو ہماری اصل طاقت تھا‘ اس کو ہم نے اپنے ریاستی معاملات سے علیحدہ کردیا اورایک اسلامی ریاست کے قیام کی بجائے ایک قومی ریاست کی تشکیل کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ۔ہم نے اس بات کو فراموش کردیا کہ ایک قومی ریاست کے قیا م کا پس منظر ایک نظریاتی ریاست سے یکسر جدا ہوتا ہے ۔قومی ریاست عموماًرنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہے اور یہی عناصر اس کی قوت کا باعث بھی ہوتے ہیں جبکہ پاکستان رنگ ونسل اور زبان کے اعتبار سے ایک کثیرا لقومی ریاست تھی اور اس کے استحکام اور اتحاد میں مذہب کی قوت کی اہمیت و افادیت کا انکار کسی بھی طور ریاست کے مفاد میں نہیں تھا ۔مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ نے بجا طور پر کہا تھا کہ ؎ اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری ایک نظریاتی ریاست کو قومی ریاست بنانے کی کوششوں کے دوران قومی زبان کے اختلاف نے سر اٹھایا اور’’بنگالی اردو‘‘ جھگڑا رفتہ رفتہ زور پکڑنا شروع ہوگیا ۔مشرق ومغرب کے درمیان زبان کے اختلاف کے بعد جب حقوق کے حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد نے زور پکڑا تو ہمارے دشمن ہندو کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقعہ ملا ، اس نے ہمارے اختلافات کو بھرپور طریقے سے ہوا دی اور ہم اپنے اختلافات کو سمیٹنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نتیجتاً وطنِ عزیز دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔ ہم اپنے قیا م کے 24برس کے بعد اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگئے ۔سقوط ِ ڈھاکہ کا سانحہ اہلِ دل کے لیے سقوطِ بغداد سے کم نہ تھا ۔ہم ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم سے محروم ہوگئے ۔ہم نے چٹاگانگ میں ایشیا کی سب سے بڑی عید گاہ کو خیر باد کہہ دیا۔ ہم نے کھلنا‘ نارائن گنج اور سندر بن کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے زخم وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک مندمل ہوگئے‘ لیکن آج بھی ان زخموں کو چھیڑا جائے تو دوبارہ ہرے ہوجاتے ہیں ۔ اب ہمارے پاس قائد کے دیے ہوئے وطن کا مغربی حصہ تھا ۔جس کی تعمیر وترقی کیلئے جدوجہد کرنا ہر پاکستانی کی ذمہ داری تھی ۔اگر قائدکے زرّیں اصولوں پر عمل کیا جاتا اور اسلامی فلاحی ریاست کے ہدف کو پانے کیلئے اپنی توانائیوں کو صرف کیا جاتاتو حالا ت یکسر مختلف ہوتے‘ لیکن بد قسمتی سے ہم نے اپنے دیس کی حالت بہتر بنانے کی بجائے اس کو بازیچۂ اطفال بنا دیا۔ نہ ہم اپنے وطن کو صحیح معنوں میں اسلامی وطن بناسکے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست کا درجہ دے سکے ۔ اگر اپنے وطن کی موجودہ صورتحال پر غور کریں تو یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ ہم اپنی منزل سے بہت دور جاچکے ہیں ۔کرپشن ،اقربا پروری ،اقوام پرستی ،لسانی تعصبات اور دہشت گردی نے پاکستان کے وجود کو کھوکھلا کیا ہوا ہے۔ بلوچستان میں آئے دن علیحدگی پسند ایک نئے وطن کے قیام کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز نے خیبرپختونخوا کے عوام کو پاکستان سے بدگمان کیا ہوا ہے ۔دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور تشدد اور نفرت کے سودا گروں نے روشنیوں اور رونقوں کے شہر کراچی کے حسن اور کاروباری سرگرمیوں کو ماند کر کے رکھ دیا ۔ایک لمبے عرصے سے جاری مالی بے ضابطگیوںاور بد عنوانیوں نے قوم کے ایک بڑے حصے کو سیاست اور اہلِ سیاست سے بد گمان کیا ہوا ہے ۔ قائد کے بعد ہم نے جو کرنا تھا وہ نہ کیا ۔ذاتی اور گروہی مصالح اور مفادات کو اجتماعی اور قومی مفادات پر ترجیح دینے کی وجہ سے ہم نے اپنے ہاتھو ں سے اپنے گھر کو کمزور کرلیا ۔نقصان کے بعد اگر نقصان کا ازالہ ہوجائے اور زیاں کے بعد اگر احساسِ زیاں ہوجائے توبہتری کی امید اور توقع کی جاسکتی ہے ۔اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی اگر بحیثیت مجموعی ہم نے اپنی غلطیوں کا ازالہ ،جرائم کی تلافی اور گناہوں کا کفارہ ادا نہ کیا ،اپنی اصلاح کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوئے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کی تو یاد رکھیے کہ ہم قیامت کے دن جہاں اللہ کی عدالت میں سرخرو نہ ہوسکیں گے وہیں اپنے قائد کا سامناکرنے کی جسارت بھی نہ کرسکیں گے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں قائد کے خوابوں کو پورا کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم اپنے ملک کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں ۔آمین!