ہفتہ رواں کے دوران راقم الحروف کو مختلف ٹیلی وژن چینلز پر زنا بالجبر کے خلاف ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے متعدد ٹاک شوز میں شرکت کا موقعہ ملا ۔ان پروگرامز میں وکلاء ،این جی اوز کے نمائند گان اور ممبران اسمبلی نے اپنے اپنے انداز میں اس شرمناک سماجی برائی کے خلاف بھر پور طریقے سے آواز اٹھائی۔ معاشرے کے تمام طبقات یقینا یہ چاہتے ہیں کہ ماں ، بہن ،بیٹی اور بہو کی عزت محفوظ رہے لیکن بحیثیت مجموعی ہم بہت سی ایسی اہم احتیا طی تدابیر کو نظر انداز کردیتے ہیں جو معاشرے میں برائی کو ختم کرنے میں یا کم کرنے میں معاون ہوسکتی ہیں۔ قرآن وسنت نے بہت سی ایسی تدابیر بتلائی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر معاشرے کے اخلاقی انحطاط پربڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے لیکن مشا ہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بوجوہ ان تدابیر کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ برائی کی روک تھا م کے لیے قرآن وسنت میں مذکور اہم تدابیر اور ان کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا چنداں مشکل نہیں کہ یہ تحفظات خود ساختہ وبلا جواز ہیں اور معاشرے کی صحت کے لیے قرآن وسنت کے راہنما اصولوں سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام نے برائی کی روک تھام کے لیے حجاب کا جو دلکش تصور پیش کیا ہے‘ اس حوالے سے خواتین کی ایک بڑی تعداد شدید تحفظات کا شکار ہے ۔ان کو یہ گمان ہے کہ شاید حجاب ان کی علمی اور معاشرتی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گا ۔ان خواتین کو یہ بات اپنے دل و دماغ میں اتارنے کی ضرورت ہے کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا مخالف نہیں۔ عورت طب ،اسلامیات ،نفسیات ،ہوم اکنامکس سمیت متعدد علوم وفنون میں مہارت حاصل کرسکتی ہے اور اچھی طبیبہ، معلمہ اور عالمہ بن کر معاشرے کی احسن انداز میں خدمت کرسکتی ہے ۔معاشرے کو یقینا بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں مہارت رکھنے والی خواتین کی ضرورت ہے۔ ایسی خواتین آنے والی نسلوں کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے ادا کرسکتی ہیں۔ ایک خاتون مریضہ جس طریقے سے اپنے طبی مسائل کو خاتون معالج کے سامنے رکھ سکتی ہے‘ اس طرح کئی مرتبہ مرد معالج کے سامنے نہیں رکھ سکتی۔ اس لیے خواتین کوان تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنی چاہیے کہ جن کی معاشرے کی دیگر خواتین کوضرورت ہے۔ بعض پڑھی لکھی خواتین نہ جانے کیوں سمجھتی ہیں کہ اختلاط کے بغیر ترقی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا ۔ تعلیم یا فتہ خواتین اگرصرف معاشرے میں موجود نا خواندہ خواتین کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دے دیں تو اس سے معاشرے کی تعلیمی اور اخلاقی سطح بلند کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ مردوں سے سبقت لے جانے کے لیے مردوزن کا اختلاط ضروری نہیں۔ عورت اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھی علمی او ر فنی اعتبار سے مردوں کا مقابلہ کرسکتی ہے اور کئی مرتبہ ان کے مقابلے میں علمی اور عملی طور پر زیادہ بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔ حجاب کے علاوہ ہمیںاجتماعی طور پر نکاح کوبھی آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔اس ضمن میں جہیز یقینا ایک لعنت ہے۔ غریب اور اوسط درجے کی آمدنی رکھنے والے گھرانے بہت زیادہ محنت اور مشقت کے باوجود لڑکے والوں کے مطالبات کو پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘ جس کی وجہ سے خواتین کی ایک بڑی تعداد طویل عرصے تک رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی رہتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے ۔ایک ساتھی اور گھر کی خواہش قدرتی طور پر ہر خاتون کے دل میں موجود ہوتی ہے ۔اس فطری خواہش کے تشنہ رہ جانے کی وجہ سے بہت سی خواتین ذہنی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں جبکہ بعض خواتین برائی کے راستے پر بھی چل پڑتی ہیں ۔ اس جمعۃ المبارک کے روز ملک کے تمام اخبارات نے نمایاں طور پرایک انتہائی المناک خبر شائع کی کہ پانچ حقیقی بہنوں نے مناسب رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے میلسی کی نہر میں چھلانگ لگادی اور کوشش کے باوجود چار بہنیں جانبر نہ ہوسکیں۔ یہ سانحہ معاشرے میں مناسب رشتوں کے شدید بحران کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔نکاح کو آسان بنانا اور شادی کی تقریب کو سادہ بنانا یقینا معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کی روک تھام کے لیے مثبت قدم ہوگا ۔ برائی کی روک تھام کے لیے معاشرے میں فحش مواد کی ترسیل کو روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مغربی معاشرے آزادیٔ اظہار کے علمبردار ہونے کے باوجود کم عمر بچوں تک فحش مواد کی ترسیل کو غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اور حکومتی سطح پر ہمیشہ ایسی کوششیں جاری رہتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر نا بالغ افراد تک ان کی رسائی کو نا ممکن یا بے حد مشکل بنایا جاسکے ۔ہمارا معاشرہ مذہبی معاشرہ ہے اور اس معاشرے میں فحش لٹریچر اور میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے ممکنہ حد تک حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ کم ازکم کچے اورمعصوم اذہان کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے والدین کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور انہیں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے ۔بہت سے افراد اپنی پیشہ وارانہ اور کاروباری مصروفیات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت کم وقت صرف کرتے ہیں۔ والدین کی لاپروائی کے اولاد پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بہت سے بچے والدین کی غفلت کی وجہ سے بے راہ روی اور بد اخلاقی کے راستے پر چل نکلتے ہیں ۔والدین کواس بات کو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ہمارے بچے ہمارا مستقبل اور حقیقی سرمایہ ہیں اور اگر ہم نے ان کو ضائع کردیا تو گویا ہم نے سب کچھ کھودیا۔ معاشرے میں برائی کی بیخ کنی کے لیے سب سے اہم چیز جرائم کے ارتکاب پر ملنی والی کڑی سزاہے ،اگر مجرم کو جرائم کے ارتکاب پر فوری سزا دے دی جائے تو بہت سے منفی سوچ رکھنے والے عناصر برائی سے باز آسکتے ہیں۔ بدکرداری کا ارتکاب کرنے والا مجرم کسی رعایت کا مستحق نہیں ہوتا ۔قرآن وسنت کی رو سے اگر ایسا مجرم غیر شادی شدہ ہوتو 100کوڑوں کا مستحق ہوتا ہے اور اگر شادی شدہ ہوتو ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق اس کو سنگ سا ر کر دینا چاہیے ۔اگر بد کردار عناصر کو سزا دینے میں سستی برتی جائے تو بہت سے جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک میں طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہ توحجاب کی حامی ہے ، نہ فحش مواد کے خلاف کریک ڈائون چاہتی ہے اور نہ ہی کڑی سزائوں کی حامی ہے۔ ایسے عالم میں برائی کے واقعات کے خلاف اظہار افسوس کرنا کچھ بامقصد معلوم نہیں ہوتا۔ برائی اور جرائم سے بھرے ہوئے اس سماج میں ہماری کیفیت کچھ یوں ہے کہ ہم سفر تو بہ حفاظت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری حد سے زیادہ تیز رفتار گاڑی بغیر بریکوں کے اس پُر پیچ راستے پر چل رہی ہے کہ جس کے آخر میں ایک کھائی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟