منڈی بہائو الدین میں ہونے والے ایک قتل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بعض لوگ اسلامی قوانین کو ڈھال کے طورپر استعمال کر رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی قوانین کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا ۔ چیف صاحب کے اس بیان کے آنے کی دیر تھی کہ مغربی تہذیب سے متاثرہ طبقے اور ان کی نمائندہ این جی اوز نے چیف جسٹس صاحب کے اس بیان کو نیا رنگ دینے کی کوششیں شروع کردیں ۔چیف جسٹس صاحب کے اس بیان کاہدف یقینا اسلامی قوانین نہیں بلکہ وہ لوگ تھے جو ان قوانین کو ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن اسلام سے بیزار طبقے کو بیان کے مفہوم اور مطلوب سے کوئی دلچسپی نہیں، انہیں تو اسلام کی مخالفت سے غرض ہے اوروہ اس سلسلے میں کسی بھی اعلیٰ شخصیت کے بیان کو توڑموڑ کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں ۔ اس حوالے سے ہونے والے بعض مذاکرات میں کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے آفاقی قوانین کو رسول اللہ ﷺ کے عہد کے عرب معاشرے سے جوڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ اسلامی قوانین کا تعلق عرب معاشرے میں پائے جانے والے بعض جرائم کے ساتھ تھا جو کہ وقت کے ساتھ ناپید ہوچکے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ ان جرائم کے خاتمے کے ساتھ یہ قوانین اپنی افادیت کھو چکے ہیں ۔اس قسم کی خلاف حقیقت باتوں کا مقصد صرف عوام کو اسلامی قوانین سے بد گمان کرنا ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ عرب معاشرے میں پائے جانے والے جملہ جرائم ابھی تک تمام انسانی معاشروں میں موجود ہیں اور یقینا اللہ نے ان جرائم کی روک تھام کے لیے جو قوانین نازل فرمائے ہیںتاحال انسانی عقل و شعور ان جیسے قوانین وضع کرنے سے قاصر رہی ہے اور روزِ قیامت تک انسان کی عقل وبصیرت خالق ومالک ِکائنات کی حکیمانہ بصیرت کا متبادل پیش کرنے سے عاجز رہے گی ۔ چیف جسٹس صاحب نے جس اہم امر کی نشاندہی کی ہے اس کے بارے میں رسول اللہا نے اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں وضاحت فرمادی تھی ۔آپ کے سامنے جب بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت کی سفارش کے لیے حضرت اسامہ بن زید صحاضر ہوئے تو آپ نے اس سفارش پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور سابقہ اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کو واضح فرما دیا تھا کہ جب مغضوب قوموں میں سے کوئی بااثرشخص جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اس کو سز ا دی جاتی ۔آپ نے اپنی امت کی راہنمائی کے لیے ارشاد فرمایا کہ ’’اگر محمدا کی لخت جگرفاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کریں تومیںان کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا ‘‘نبی کریم ا نے گویا واضح فرمادیا کہ چوری کی سزامیں کوئی سقم نہیں لیکن امراء اور اشرافیہ پر اس سزا کے اطلاق کو روکنا ہر اعتبار سے غلط ہے ۔ اسلامی قوانین میں کسی بھی اعتبار سے کوئی کمی نہیں لیکن جولوگ سفارش ،اقربا ء پروری اور رشوت ستانی کے ذریعے ان قوانین کے دائرے کو محدود کر کے اس کو غیر موثر بنانا چاہتے ہیں تو وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں ۔ بعض لوگ اسلامی قوانین کو قدیم قرار دے کر عصر حاضر میں ان کی افادیت کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ کسی بھی قانون پر تنقید کرنے سے پہلے اس کی غرض و غایت کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔تعصب اور تنگ نظر ی کی عینک اتار کر اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ قوانین پر غور کریں ۔یقینا آپ کا دل بھی گواہی دے گا کہ جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان قوانین کو نازل کیا ہے اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان سے بہتر قوانین کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ ہر ذی شعورانسان فطری طور پر قتل،زنا ،ڈکیتی،چوری اور دہشت گردی کا مخالف ہے۔ اسلامی قوانین کا بنیادی ہدف ان جرائم کو معاشرے سے ختم کرکے معاشرے میں قیامِ امن کو یقنی بنانا ہے ۔ قتل کے بدلے قتل ،غیر شادی شدہ کو 100کوڑے مارنے ، شادی شدہ کو سنگسار کرنے اورچور کے ہاتھ کاٹنے کا مقصد فقط معاشرے میں بدامنی پھیلانے والے عناصر کا خاتمہ کرنا ہے اور مجرم کو سزا دے کر مستقبل میں اس قسم کے جرائم کی رو ک تھا م کویقینی بنا نا ہے۔ اگر ہم اسلامی حدود کی حکمت پر غور کریں تو یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیںکہ اسلامی سزائوں کا بنیا دی مقصد انسانی معاشروں کو گھنائونے جرائم سے پاک کرکے معاشرے میںبسنے والے افراد کے جان، مال، عزت اورآبرو کی حفاظت کرنا ہے ۔ زنا کی حد نسب کی حفاظت کے لیے ،چور ی کی حد حفاظت مال کے لیے ،قذف کی حد حفاظتِ ناموس کے لیے ،شراب کی حد حفاظت عقل کے لیے اور قتل کے بدلے قتل کا مقصد جان کی حفاظت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اگر کسی معاشرے میں ہر شخص کی جان ،مال ،عزت اور ناموس محفوظ ہوجائے تو اس کو ایک مثالی معاشرہ قرار دیا جائے گا ۔ بعض عناصر اس وقت قانون ِدیت پر اعتراض کررہے ہیں کہ اس قانون کی وجہ سے معاشرے کا امیر طبقہ باآسانی غریب افراد سے معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔یہ وہی عناصر ہیں جو کل تک سزائے موت کی مخالفت کررہے تھے لیکن آج نہ جانے کس منہ سے قصاص کی حمایت میں دلائل دے رہے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر سزائے موت انسانوں کے لیے مفید نہیں توقانونِ دیت پران لوگوں کوکیا اعترا ض ہے ۔ایسے لوگوں کی گفتگو اور دلائل کو سن کر یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ان لوگوں کا ہدف نہ سزائے موت ہے اور نہ ہی قانون دیت بلکہ ان کو تو صرف اسلامی قوانین کی مخالفت سے غرض ہے چاہے وہ کسی بھی رنگ میں کیوں نہ ہو اور وہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہر راستہ اور طریقہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ جس معاشرے کے لوگ بد عنوان،رشوت خور، مفاد پرست اور ہوس ِزر کا شکار ہوں ،جہاں گواہوں کو خریدنے کے لیے بھاری رقوم کا استعمال کیا جاتا ہو ،جہاں مَن پسند فیصلے کروانے کے لیے سفارش،دھونس اور دھاندلی کا چلن عام ہو‘ وہاں پر آپ خواہ کوئی بھی قانون لے آئیں لوگ اس کا غلط استعمال کرنے کی کوشش ضرور کریںگے ۔یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ایک حالیہ مذاکرے کے دوران ایک مشہور سماجی کارکن نے بھی کیا تھا ۔انہوں نے تسلیم کیا کہ ہمارا معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس میں کسی بھی قانون کا غلط استعال ہونے کے تما م تر امکانات موجود ہیں ۔جس معاشرے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹریفک کی سرخ بتی کو دیکھ کر گاڑی کی بریک پر پائوں رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتی وہاںپر ہمیں اسلامی قوانین کی مخالفت کرنے کی بجائے معاشرے کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے ۔غلطیاں تو نظامِ حکومت ،قانون بنانے ، نافذ کرنے والے اداروں اور چلانے والے افراد میںہیں لیکن تنقید ان قوانین پر کی جارہی ہے‘ جن کا مقصد معاشرے کو بدنظمی اور انتشار سے نجات دلانے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔