8ذی الحجہ کونمازِ ظہرکے وقت منیٰ میںداخل ہونے سے لے کر 9ذی الحجہ کی صبح نمازِفجرتک 5نمازیںمنیٰ میںاداکرنامسنون ہے۔ جب 9ذی الحجہ کوسورج طلوع ہوجائے، تواس کے بعدتمام حاجیوںکومیدانِ عرفات کاقصد کرناچاہیے۔ میدانِ عرفات کی طرف جاتے ہوئے بلندآوازسے تلبیہ یاتکبیرکاورد کرنا چاہیے۔ مسلم شریف میںروایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرصفرماتے ہیںکہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے نکلے، ہم میںسے کوئی تلبیہ پکار رہاتھااورکوئی تکبیر۔ منیٰ سے میدانِ عرفات کاقصد کرتے ہوئے اس بات کوذہن میںرکھناچاہیے کہ نبی کریم ﷺ زوالِ آفتاب تک وادی نمرہ میںرکے تھے اورخطبہ دینے کے بعدآپ ظہراورعصرکی نماز ادا کرکے میدان عرفات میںداخل ہوئے تھے ۔ صحیح مسلم میںحضرت جابرصحَجتہ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں ’’پھررسول اللہ ﷺ منیٰ سے عرفات کی سمت چلے تو قریش کاگمان تھاکہ نبی کریم ﷺ مزدلفہ ہی قیام فرمائیںگے جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میںکیاکرتے تھے لیکن آپﷺ آگے تشریف لے گئے‘ یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے جہاںوادی نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگایاگیاتھا۔آپﷺ نے وہاں قیام فرمایا۔جب سورج ڈھل گیاتوآپ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کوتیارکرنے کاحکم دیا۔ آپﷺ اس پرسوارہوکروادی نمرہ کے بیچ میںتشریف لائے ۔ وہاں آپﷺ نے لوگوں کوخطبہ دیا۔ پھراذان اور اقامت ہوئی۔ آپﷺ نے ظہرکی نمازپڑھائی۔ دوبارہ اقامت ہوئی آپ ﷺ نے عصرکی نمازپڑھائی ۔ ان دونوںنمازوںکے درمیان آپ ﷺ نے کوئی نمازادانہیںکی، پھرآپﷺ اپنی اونٹنی پرسوارہوئے اورعرفات میںکھڑے ہونے کی جگہ تشریف لائے اورتاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جسے خطبہ حَجتہ الوداع کے نام سے یاد کیا جا تا ہے‘‘۔ حج کے خطبہ کونہایت توجہ کے ساتھ سنناچاہیے لیکن اگرہجوم کی وجہ سے خطبہ حج کونہ سناجاسکے توخاموشی کے ساتھ خطبہ کی طرف متوجہ رہنابھی کفایت کرے گا۔ اگرچہ میدانِ عرفات میں ظہر اور عصرکی نمازکی ادائیگی کے بعدداخل ہونامسنون اورافضل عمل ہے لیکن اگر ہجوم اورمجبوری کے سبب کوئی شخص تاخیرسے میدانِ عرفات میںداخل ہوتواس کاحج ہوجائے گا۔ سنن نسائی میںحضرت عبدالرحمان بن یعمرصسے روایت نقل کی گئی ہے ۔آپ کہتے ہیں کہ میںنبی کریم ﷺ کے پاس تھاکہ کچھ لوگ آئے اورحج کے بارے میںپوچھاتوآپﷺ نے فرمایا ’’حج عرفات میںٹھہرنے کانام ہے‘ جوشخص مزدلفہ کی رات یعنی 9اور10ذی الحج کی درمیانی رات طلوعِ فجرسے پہلے عرفات میںپہنچ جائے اس کاحج اداہوجائے گا‘‘۔ نماز ظہراورعصرکی ادائیگی کے بعد جبلِ رحمت کے قریب آناچاہیے۔ اگر جگہ نہ ملے تومیدان عرفات میںکسی بھی جگہ وقوف کرناجائز ہے ۔ صحیح مسلم میںحضرت جابرصسے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ’میں نے یہاںقربانی کی ہے اور منیٰ کامیدان سارے کاساراقربانی کی جگہ ہے لہٰذا تم لوگ اپنی قیام گاہوں پرقربانی کرلواورمیںنے یہاں پروقوف کیااورمیدانِ عرفات سارے کاساراوقوف کی جگہ ہے‘ میدانِ عرفات میں قبلہ روہوکرکھڑے ہوناسنت ہے ‘‘۔ مسلم شریف میںحضرت جابربن عبداللہ ث حَجتہ الوداع والی حدیث میںروایت فرماتے ہیں ’’نبی کریمﷺ قبلہ روہوئے اورآپﷺ نے غروب آفتاب تک وقوف فرمایا۔ میدان عرفات میںحاجی کوکثرت سے دعا مانگنی چاہیے ۔ دعاکے لیے اپنے ہاتھوںکواٹھانابھی سنت ہے ‘‘۔ سنن نسائی میںحدیث ہے۔ حضرت اسامہ بن زیدص فرماتے ہیںکہ ’’میںعرفات میںنبی کریم ﷺ کے پیچھے تھا۔ آپﷺ نے دعامانگنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھارکھے تھے ۔ اسی دوران آپ کی اونٹنی کی نکیل آپ کے دست مبارک سے گرگئی توآپﷺ نے ایک ہاتھ سے اس کی نکیل تھام رکھی تھی اوردوسراہاتھ دعاکے لیے اٹھائے رکھا‘‘۔ وقوف عرفات کے دوران حاجیوں کواس بات کی تحقیق کرلینی چاہیے کہ وہ میدان عرفات میںقیام پذیرہیںیا نہیں۔ اگروہ عرفات کے میدان کی بجائے وادی نمرہ میں ہی ٹکے رہتے ہیں تواس سے وقوف عرفات کامقصدپورانہیںہوسکتا۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ ’’حضرت عبداللہ بن عباسصبیان فرماتے ہیںکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایامیدان عرفات سارے کاساراموقف ہے لیکن وادی عرنہ یعنی نمرہ سے بچو اورمزدلفہ سارے کاساراموقف ہے لیکن وادی محسرسے بچواورمنیٰ سارے کاساراقربان گاہ ہے ‘‘۔ میدان عرفات میں اگرچہ بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن میدان عرفات کی بہترین دعا ’’لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیئٍ قدیر ‘‘ہے۔حدیث پاک میںہے کہ یہ دعا یوم عرفہ کی بہترین دعا ہے اور یہ وہ بہترین کلمات ہیں جو نبی کریم ﷺ اور آپﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام نے کہے تھے ۔اس دعا کا ترجمہ کچھ یوں ہے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ یوم عرفہ آگ سے برأت کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ اس دن کثیر تعداد میںاپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں ۔مسلم شریف میں روایت ہے ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو آگ سے آزاد کرے ۔اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے (ذرا بتائو تو )یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں‘‘ ۔ وقوف عرفات کا دن حاجیوں کے لیے تو روزے کا دن نہیں ہوتا تاہم عام مسلمانوں کواس دن روزہ رکھنے کا بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس روزے کی برکت سے اہل ایمان کے گزشتہ ایک برس اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں ۔ عرفات میں وقوف کے دوران جب سورج ڈوب جاتاہے تو مغرب کی نماز کی ادائیگی کی بجائے عرفات سے کوچ کیا جاتا ہے اس لیے کہ عام دنوںکے برعکس نبی کریمﷺ نے میدانِ عرفات میں سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا نہیں کی تھی۔ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنی چاہیے ۔نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازادا فرمائی اور طلوع فجر تک آرام فرمایا ۔جب صبح نمودار ہوئی تو آپ ﷺ نے اذان اور اقامت کے بعد فجرکی نماز ادا فرمائی پھر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر الحرام تک تشریف لائے اور قبلہ رُخ ہوکر دعائیں مانگیں ، تکبیر وتہلیل کی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی حتیٰ کہ صبح روشن ہوگئی‘ پھر آپ ﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ خواتین ،بچوں اور بوڑھے افراد کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ وقت سے پہلے بھی مزدلفہ سے کوچ کرسکتے ہیں ۔صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت سوداء رضی اللہ عنھا بھاری بھرکم خاتون تھیں ۔انہوں نے رسول اللہﷺ سے رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو نبی کریم ﷺ نے ان کو اجازت دے دی ۔رسو ل اللہ ﷺ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آ تے ہوئے بڑے سکون اور وقار سے چلے اور لوگوں کو بھی سکون سے چلنے کا حکم دیا ،تاہم آپﷺ وادی محسر سے تیزی کے ساتھ گزرے ،وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان میں وہ وادی ہے جہاں اصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا ۔اس لیے آپﷺ نے وہاں سے لوگوں کو جلد گزرنے کا حکم دیا ۔مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آتے ہوئے تلبیہ کو جاری رکھنا چاہیے اس لیے کہ نبی کریم ﷺ رمی کرنے تک بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے رہے ۔حج کے باقی ارکان کے حوالے سے آئندہ تحریروں میں وضاحت کی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ارکان اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور ان پر عمل پیراہونے کی توفیق غطا فرمائے ۔(آمین)