یوم عرفہ اور یوم النحر یعنی 9 اور 10 ذی الحجہ کو حج کے کافی ارکان مکمل ہو جاتے ہیں اور 10 ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کے بعد حاجی پر احرام کی تمام پابندیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں لیکن ایام تشریق جو کہ 10 ذی الحجہ کے بعد کے تین دن ہیں ان ایام میں سے کم از کم دو دن منیٰ میں گزارنے ضروری ہیں اوربہتر یہ ہے کہ تین دن ہی منیٰ میں گزارے جائیں۔ قرآن مجید کے مطابق دو دن گزارنے والے پر کوئی گناہ نہیں لیکن تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ مزید ایک دن بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے مختص کیا جائے ۔ اگر کوئی شخص کسی مجبوری یا اژدہام کے باعث 10ذی الحجہ کو طواف زیارت نہیں کر سکا تو وہ ایام تشریق میں بھی طواف زیارت کر سکتا ہے۔ طواف زیارت کے بعد حاجی کے لیے حج کی سعی کرنا بھی ضروری ہے اور اس کوصفا اور مروہ کی سعی اسی طرح مکمل کرنی چاہیے جس طرح اس نے عمرے کی سعی کی تھی۔ طواف زیارت اور حج کی سعی کرنے کے بعد حاجی کے لیے منیٰ میں واپس آنا ضروری ہے۔ سنن ابو داؤد میں حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے 10ذی الحجہ کودن کے دوسرے حصے میں طواف افاضہ کیا اور ظہر کی نماز بھی ادا فرمائی پھر واپسی پر منیٰ میں تشریف لائے اور ایام تشریق کی راتیں منیٰ ہی میں گزاریں (اس دوران) رسول اللہﷺنے زوال آفتاب کے بعدتینوںجمرات کو کنکریاں ماریں۔ آپ ہر جمرہ کو سات کنکریاںمارتے اور ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ پہلے جمرے(جمرہ اولیٰ) اور دوسرے جمرے(جمرہ وسطیٰ) کے پاس دیر تک قیام کیا اور آہ وزاری سے دعا کرتے رہے،تاہم تیسرے جمرے کو مارنے کے بعد آپ نے وقوف نہیں کیا۔ عام حالات میں تو حاجیوں کو ایام تشریق کے دوران منیٰ میں قیام کرنا چاہیے تاہم اگر کوئی خاص مجبوری ہو تو ایام تشریق کے دوران مکہ مکرمہ میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب نے حاجیوں کو پانی پلانے کے لیے ایام تشریق کی راتیں مکہ مکرمہ میں گزارنے کی اجازت چاہی تو رسول اللہﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ ایام تشریق چونکہ عید سے متصل ایام ہیں اس لیے جہاں ان ایام میں کھانا پینا مرغوب ہے وہیں پر ان ایام میں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا بھی انتہائی خیر وثواب کا باعث ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ایام تشریق کو کھانے پینے کے دن اور ایک روایت میں اللہ کا ذکر کرنے کے دن قرار دیا گیا ہے۔ بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺجب تک منیٰ میں رہے روزانہ بیت اللہ شریف کا طواف فرماتے رہے یعنی ایام تشریق کے دوران بیت اللہ شریف کا جس حد تک ممکن ہو طواف کرنا چاہیے اور راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد میں مشغول رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اور ان ایام میں حاجیوں اور عام مسلمانوں کے لیے روزہ رکھنا درست نہیں تاہم جو شخض حج تمتع کر چکا ہو اور اضافی عمرہ کرنے کے بعد وسائل کی تنگی کی وجہ سے قربانی کرنے سے قاصر ہو تو ایسے شخص کو ایام تشریق کے دوران تین روزے رکھنے چاہئیں اور اپنے وطن واپس آکر اس کو سات روزے مزید رکھنے چاہییں ۔یہ دس روزے اس کی قربانی کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں یہ حدیث موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ ایام تشریق میں کسی آدمی کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی سوائے اس حاجی کے جو قربانی نہ دے سکے۔ عرفات، مزدلفہ اور منیٰ کھلے میدان ہیں۔ ان میں خیمہ زن حاجی مہاجروں اور مسافروں کی طرح کھلے آسمان کے نیچے قدرتی ماحول میں جب اپنے اللہ سے راز ونیاز کی باتیںکرتا ہے تو اس پر اپنی اور کائنات کی بے وقعتی اور بے ثباتی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اس فطری ماحول میں انسان کے دل میں اپنے خالق اور مالک کی کبریائی کا احساس بھی پوری طرح راسخ ہو جاتا ہے اور بندہ اپنے اللہ کو اپنے بہت زیادہ قریب محسوس کرتا ہے ۔اسی فطری ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کا تجزیہ کیا تھا اور ستارے، چاند اورسورج کو ڈوبتا ہوا دیکھ کر کہا تھا کہ میں اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف موڑتا ہوں جو زمین اور آسمان کا بنانے والا ہے اور آپ نے ہرچیزسے اپنے تعلق کو منقطع کر کے صرف خالق کل اور مالک کل سے اپنے تعلق کو استوار کر لیا تھا۔ انسان کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں کائنات کی تخلیق پر کم ہی غور و فکر کرنے کا موقع میسر آتا ہے لیکن ان مقدس میدانوں میں انسان اللہ کی تخلیق پر غور و فکر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور نتیجتاً اس کے ثواب کا طلبگار اور اس کے عذاب سے بچاؤ کا امیدوار بن جاتا ہے۔ ایام تشریق کے گزرنے پر حج کے جملہ ارکان مکمل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے وطن واپسی سے قبل اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف کا الوداعی طواف کرے۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ حج ادا کرنے کے بعدلوگ واپس چلے جاتے ہیں تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کوئی شخص اس وقت تک واپس نہ جائے جب تک آخری بار طواف نہ کر لے ، اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ مکہ سے جاتے و قت ان کا آخری عمل بیت اللہ شریف کا طواف ہو۔ البتہ حائضہ کو اس کی رخصت دی گئی ہے۔ طواف وداع حاجی کے لیے جہاں باعث اطمینان و سکون ہوتا ہے کہ وہ ارکانِ حج کو مکمل کر چکا ہوتا ہے وہیں پر طواف و داع اس کے لیے باعث تکلیف بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے گھر سے جدائی کا وقت آچکا ہوتا ہے۔ طواف وداع کے دوران کبھی تو حج کی بجا آوری کے دلفریب احساس کی وجہ سے دل خوشیوں سے معمور ہو جاتا ہے تو کبھی کعبہ کی جدائی کی وجہ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ طوافِ وداع کو مکمل کرنے کے بعد جب انسان حرم پاک سے باہر نکلتا ہے تو اس کے قدم ملے جلے جذبات کے ساتھ اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے وطن اور گھر بار کی طرف جانے کی خوشی بھی ہوتی ہے اور رب کے گھر سے جدائی کا غم بھی ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ جہاں حرم پاک کی زیارت سے محروم رہنے والوں کے دل اس کے دیدار کے لیے بے تاب رہتے ہیں وہیں پر کعبہ اور حرم کی زیارت کرنے والوں کے دل بھی دوبارہ زیارت کرنے کے لیے بے چین اور مضطرب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جنہوں نے تیرے گھر کی زیارت نہیں کی ان کو اپنے گھر کی زیارت کے شرف سے بہرہ ور فرما اور جن لوگوں نے زیارت کی ہے ان کو دوبارہ زیارت کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہم تمام مسلمانوں کو ارکان اسلام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرما! آمین۔ (جاری) *** طوافِ وداع کے دوران کبھی تو حج کی بجا آوری کے دلفریب احساس کی وجہ سے دل خوشیوں سے معمور ہو جاتا ہے تو کبھی کعبہ کی جدائی کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ طوافِ وداع کو مکمل کرنے کے بعد جب انسان حرم پاک سے باہر نکلتا ہے تو اس کے قدم ملے جلے جذبات کے ساتھ اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے وطن اور گھر بار کی طرف جانے کی خوشی بھی ہوتی ہے اور رب کے گھر سے جدائی کا غم بھی ہوتا ہے