21اکتوبر کو دنیا اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی ایک المناک خبر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے ،سر چکراکر رہ گیا اور دل زخموں سے چُور ہو گیا ۔خبر کی تفصیل کچھ یوں تھی کہ شیخوپورہ میں جنڈیالہ روڈکے رہائشی نوازش علی نے ایک سال قبل فرح نامی خاتون سے شادی کی اور شادی کے فوراً بعد شوہر نے بیوی سے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ اس کے خاندان کو بیٹے کی ضرورت ہے اس لیے وہ بیٹا ہی پیدا کرے ۔ اس نامعقو ل مطالبے پر اصرار ہر اعتبار سے بلا جواز اور اللہ کی تقدیر اور مشیت کو چیلنج کرنے والی احمقانہ جسارت تھی ۔لیکن پاکستان کی دیہی آبادی اور ناخواندہ طبقے کی ایک بڑی تعدادکی طرح نوازش اپنے اس مطالبے پر بضد تھا۔جب الٹراساؤنڈ کے ذریعے اُسے معلوم ہواکہ اس کی بیوی بیٹی کو جنم دینے جارہی ہے تو اس ظالم اور نادان نے بیوی پر تشدد کرنا شروع کردیااور جب بیوی نے بیٹی کو جنم دیا تو شوہر مشتعل ہو گیا۔ بیوی نے زچگی کی تکلیف کو نظرانداز کر تے ہوئے شوہر کی دلجوئی کے لیے بیٹی کو اللہ کی رحمت کہتے ہوئے شوہر کی گود میں ڈال دیا۔بیوی کا خیال تھا کہ وہ معصوم کلی کو دیکھ کر پسیج جائے گا لیکن نوازش کے دماغ پر جہالت کا بھوت سوار تھا۔ اس نے آئو دیکھا نہ تاؤ بیوی کو زدوکوب کرنا شروع کردیا۔ ظالم نے یہ بھی نہ سوچا کہ بے گناہ عورت تھوڑی دیر قبل زچگی کے انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزری ہے اور وہ کسی طرح کے تشدد کی تاب بھی نہیں لا سکے گی۔ لیکن غصے اور نفرت نے شوہر کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ نوازش کے اہل خانہ نے اُسے سمجھانے کی بجائے اس کاساتھ دینا شروع کردیا۔ مشتعل شوہر کے جذبات مار پیٹ سے بھی ٹھنڈے نہ ہوئے تو اس نے زبردستی بیوی کے منہ میں تیزاب کی بوتل انڈیل دی۔ بے گناہ عورت کی حالت غیر ہونے پر اُسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اُس کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ واقعہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے واقعات آئے دن اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل ایک شقی القلب انسان نے اپنی بیٹی کو دریا کی لہروں کی نذر کر دیا تھا ۔ کہنے کو تو انسان نے بہت ترقی کی ہے ۔ چاند کو مسخر کرچکا ہے، سورج کی شعاعوں سے بجلی پید ا کرنا سیکھ چکا ہے ،ایک براعظم سے دوسرے بر اعظم تک چند گھنٹوں میں پہنچ جاتاہے اور انفار میشن ٹیکنا لوجی کے ذریعے سے چند سیکنڈوں میں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پیغام رسانی کے قابل ہوچکا ہے ۔مگر ابھی تک اسے اپنے اندر کے جانور کو سدھارنے کا سلیقہ نہیں آیا ۔انسان ابھی تک انا، جھوٹی عزت ، پگڑی اورنام و نمود کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے اوراس کو ابھی تک اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکا کہ برقی آلات باہر کی دنیا تو روشن کرسکتے ہیں مگر انسان کے دل کی اندھیر نگری کو ایمان اور یقین کا دِیا ہی منور کرسکتا ہے ۔ جب بھی کبھی کوئی انسانیت سوز واقعہ رونما ہوتا ہے تو پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اخلاقیات اور انسانی حقوق کا درس دینا شروع کردیتی ہے ۔ایسے لوگوں کی نظروں میں انسانیت کی اصلاح کے لیے اخلاقیات کے عالم گیر اصول اور ضابطے ہی کافی ہیں ۔ان کی نظرو ں میں عقیدے اور ایمان کی کوئی حقیقت نہیں۔ کوئی بھی ذی شعور اور صاحب بصیرت شخص اس استدلال سے متفق نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اخلاقیات کی فصل کی کاشت مذہب کے بیج کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔اخلاقیات کے وہ اعلیٰ اور ارفع اصول جو پیغمبرانِ برحق نے مختلف ادوار میں انسانوں کو سکھائے تھے ،ان اصولوں کے مقابلے میں انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ اصول وضوابط ہراعتبار سے غیر مؤثر اور ناہموار ثابت ہوئے ہیں ۔انسانوں کے بنائے ہوئے اخلاقی اصولوں نے معاشروں کی جہالت ،پسماندگی اور اخلاقی انحطاط کو دور کرنے میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کی ۔دور حاضر کا انسان اعلیٰ اخلاقیا ت کو خدا خوفی اور تصور آخرت سے علیحدہ رکھنا چاہتا ہے ۔حالانکہ خدا خوفی اور تصور آخرت کے بغیر انسان کو سیدھی راہ پر چلانا ممکن نہیں ہے ۔انسان اگر خدا پرست نہ ہوتو وہ دوسروں کو دھوکہ دے سکتا ہے ،کمزوروں پر ظلم کرسکتا ہے اور حقداروں کی حق تلفی کرسکتا ہے لیکن معبود ِ برحق کی کامل نگرانی کا احساس انسان کو اپنی اور اپنے پروردگار کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے سے ہمیشہ روکتا رہتا ہے ۔ عرب کے بدوبھی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے۔ ان کی نگاہوںمیں بھی بیٹیاں کم حیثیت مخلوق تھیں ۔جن کی پیدائش ان کے لیے باعث ننگ وشرم تھی لیکن رحمت اللعالمینؐ نے ان نا خواندہ لوگوں کو بیٹیوں کی اہمیت کا احساس دلایا ،دو بیٹیوں کی اچھی کفالت کرنے والوں کو اپنی قربت کی عظیم خوشخبری سنائی اور خود اپنی بیٹیوں کی بہترین اندازسے تربیت کرکے ان کی عظمت کو دنیا والوں کے سامنے اجاگر کردیا۔ زندہ درگور کے بارے میں سورت تکویر میں بیان کردہ وعید سے لوگوں کو آگاہ کیا کہ کل قیامت کے دن زندہ درگور کی جانے والی بیٹی کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔رحمت اللعالمینؐ نے عورت کے مقام کے ہر رنگ کو بلند کردیا ۔ماں کی شکل میں اس کو وہ مقام دیا کہ جنت کی بلندیوں کو اس کے قدموں تلے قرار دیا ،بیوی کو وہ رتبہ دیا کہ بہترین انسان اس شخص کو قرار دیا جو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہو ، آپﷺ نے اپنی رضاعی بہن شیماکے ساتھ شفقت اور محبت والا برتائو کرکے بہن کے رشتہ کو نیا وقار اور نیا رنگ عطا کردیا،اپنی تمام بیٹیوں سے پیار والا برتائو کیا اور سیدہ فاطمہؓ کی آمد پر ان کا استقبال فرماکر لوگوں کو سمجھا دیا کہ بیٹی زندہ درگورکی جانے والی چیز نہیں بلکہ پلکوں پر بٹھائی جانے والی متاعِ عزیز ہے ۔نبی کریم ﷺ کی تربیت کا اثر تھا کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے بیٹیوں کی عزت کے رکھوالے بن گئے ،بیٹیوں کی حق تلفی کرنے والے ان کے حقوق کے پاسبان بن گئے اوربیٹیوں کو زحمت سمجھنے والے ان کو اللہ کی رحمت اور عطا سمجھنے لگے ۔ عرب کے وہی لوگ جو کل تک اپنی بیٹیوں کو اپنے لیے باعث زحمت سمجھتے تھے ان کا دل بدلاتو ایسا بدلا کہ دیبل کے ساحل پر لٹنے والی ایک مسلمان بیٹی نے جب اپنے چہرے کا رخ حجاز کی طرف کر کے دُہائی دی تو ایک لشکر جرار اس بیٹی کو راجہ داہر کے پنجۂ ستم سے چھڑوانے کے لیے ہندوستان پہنچ گیا ۔ ایک بیٹی کیا لٹی کہ پورا ہندوستان اسلام اور ایمان کے نور سے منور ہوگیا۔ کاش! کہ بیٹی کے مقام کو آج کا مسلمان بھی اسی طرح سمجھ لے جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین اور تبع تابعین نے سمجھا تھا ۔اگر ہم بیٹی کے مقام کو بھانپ لیتے تو نہ شیخوپورہ میں کوئی خاتون کسی بیٹی کی پیدائش پر اپنے ظالم شوہر کے جذبہ انتقام کا نشانہ بن سکتی اورنہ ہی کوئی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کے قید خانوں میں ظلم اور بربریت کا نشانہ بنتی۔ ظلم کی چکی میں پسنے والی بیٹی صرف اس لیے بے توقیر اور بے بس ہے کہ ہم نے اپنے رب او راس کے رسول ﷺ کی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ۔ اس ضمن میں علمائے کرام اور مصلحین پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ عام آدمی کو پندو نصیحت کے ذریعے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے رہا کریں ، کہ بیٹی اور بیٹے کی پیدائش کلیتہً اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہتے ہیں بیٹے دیتے ہیں ، اور جسے چاہتے ہیں دونوں اور جسے چاہتے ہیں بانجھ رکھتے ہیں،اور پھر جیسا کہ علامہ اقبال نے ایک حدیث شریف کا مفہوم نظم کرتے کہا تھا ع وجود بنات باعث برکات لامحدود ہے