"AIZ" (space) message & send to 7575

فکرِ اقبالؒ

9 نومبر اپنے جلو میں جہاں بہت سی یادیں لیے ہوئے آیا، وہیں یہ دن خصوصیت سے مصور پاکستان علامہ محمداقبال کی یاد دلاتا ہے۔ علامہ محمداقبال عظیم مفکر، دانشوراور شاعر تھے۔ اگرچہ اردو ادب نے اپنے دامن میں مرزاغالب، میر تقی میر، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور ظفر علی خاں جیسے قادر الکلام شعراء کو سمویا ہوا ہے لیکن علامہ اقبال منفرد مقام کے حامل ہیں۔ ان جیسا شاعر پہلے کوئی گزرا نہ ان کے بعد آ سکا ہے ۔ علامہ اقبال کی بہت بڑی خوبی ان کے وہ نظریات ہیں جنہوںنے ان کو پہلے آنے والے شعراء سے ممتاز کردیا ۔ نظریاتی اعتبار سے علامہ اقبال کی شاعری کی کئی جہتیں ہیں اور ان تمام کا تعلق دین وملت سے ان کی والہانہ وابستگی سے ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعر ی آفاقی ہے اوریہ وقت،علاقے اورقومیت کے بندھن سے آزاد ہے۔ہر عہد اور علاقے کا انسان علامہ اقبال کی شاعری سے استفادہ کرسکتا ہے ۔علامہ اقبال کی شاعری کے تراجم پڑھنے کے بعد دیگر اقوام کے لوگ بھی علامہ اقبال کی ذہانت ،فکری بلند ی او ر مشاہدے کی وسعت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ زیر نظر تحریر میں راقم الحروف کی کوشش ہوگی کہ علامہ اقبال کی شاعری کی چند جہتوں پر بات کی جائے اورسمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ عظیم مفکر اور دانشورمسلمانوں سے کیا چاہتے تھے ۔علامہ اقبال کے نزدیک انسان کی غیرت اور خودی میں اس کی کامیابی کا راز پنہاں ہے ۔آپ یہ سمجھتے تھے کہ جب انسان کی خودی بلند ہوجاتی ہے تو جلد یا بدیر وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے ۔انہوں نے اپنے اس نظریے کو ایک مقا م پریوں بیان کیا ہے: غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سرِ دارا ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں: اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد علامہ اقبال کے یہ دو اشعار ان خصوصیات کی نشاندہی کررہے ہیںجنہیںاپنا کر آج کامسلما ن سامراج کے دبائو سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ دور حاضر کے مسلمان حکمرانوں او ر عوام کا بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ خود انحصاری ، غیرت اور خودد اری کی دولت سے محروم ہیں ۔آج کے مسلمان غیرت اور خودداری کی شاہرا ہ پر چلنے سے اس لیے کتراتے ہیں کہ ان کے ذہن میں یہ خیال سمایا ہوا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ وہ سفر کی تھکاوٹ ،اکتاہٹ اور مشکلات کو دیکھ کراتنا گھبراجاتے ہیں کہ سفر کا آغاز ہی نہیں کرتے ۔وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ اگر ارادے پختہ اور عزم جوان ہوں تو راستے کی مشکلات انسان کو منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتیں ۔حضر ت علامہ نے غیرت اور خودی کے سفر کو اپنے پسندیدہ پرندے شاہین کی پرواز سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرہِ اُفتاد ایک اور مقام پر مسلسل جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کر نے کے لیے فرماتے ہیں : سمجھتا ہے تُو، راز ہے زندگی فقط ذَوقِ پرواز ہے زندگی بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند سفر زندگی کے لیے برگ وساز سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز علامہ اقبال اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ انسان کی فکری بے راہ روی اور صحیح راستے سے انحراف کا بڑا سبب مادہ پرستی اور لالچ ہے۔ علامہ اقبال نے انسان کی بڑھتی ہوئی مادی خواہشات کو حق پرستی کا بنیادی دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی متعدد مقامات پر بھرپورر مذمت کی ہے۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں : تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا اہل نواکے حق میں بجلی ہے آشیانہ وہ اس بات کو بھانپ چکے تھے کہ مسلمان سامراج کے سامنے تبھی جھکے گا جب اس کی سوچ کا مرکز ومحور اقتصادیات بن جائے ۔ آج ہماری حکومتیں جس انداز میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجوں میں پھنسی ہوئی ہیں ان سے آزاد فیصلوں کی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کہ مانگنے والا اور ہاتھ پھیلانے والا کبھی اپنے فیصلوں میں خود مختار نہیں ہوسکتا۔ علامہ نے اس حقیقت کو انتہائی خوب صورت پیرائے میں بیان کیا ہے،فرماتے ہیں: یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی یا بندہِ خدا بن یا بندہِ زمانہ بعض افراد کے نزدیک ریاست اور فردکی اقتصادی ترقی اس کی کامیابی کی علامت ہے ۔ایسے لوگ غیرت کو بیچ کر حاصل ہونے والے رزق کو بھی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ۔علامہ اقبال نے اس غلط تصور کی بھر پورنفی کرتے ہوئے فرمایا: اے طائر لاہوتی،اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اَولیٰ ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسداللّہی آئینِ جواں مرداں، حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی علامہ اقبال نے قوموں کے دفاع اور بقا کے لیے ان کی ایمانی قوت کو اساسی حیثیت دی ہے۔آپ کے نزدیک مادی کمزوری پر روحانی طاقت کے ذریعے غلبہ پایا جاسکتا ہے ۔آپ ایمان کی طاقت کو اسلحے کی طاقت سے زیادہ اہم گردانتے ہیں۔اس حقیقت کواجاگر کرتے ہوئے فرمایا : کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ایمان اور یقین ہی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک اورمقام پر فرماتے ہیں: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں آپ کے نزدیک تہذیبوں کی کشمکش میں مسلمانوں کی اصل قوت ان کا ایمان ہے۔ چنانچہ فرمایا : اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا آپ اپنی اس فکرکو ثابت کرنے کے لیے میدان بدر کا نقشہ کھینچتے ہیں۔آپ کا استدلال تھا کہ اگر بدر کے معرکے میں مسلمان اسلحے ،وسائل اور افراد کی کمی کے باوجود کافروں پر غالب آسکتے تھے تو آج کامسلمان اپنے ایمان کی طاقت سے کافروں پر غلبہ حاصل کیوں نہیں کرسکتا ۔فرماتے ہیں : فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گَردوں سے قطار اندر قطار اب بھی علامہ اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کے زوال کی بڑی وجہ قوم پرستی اور مذہب سے دوری تھی ۔آپ دنیائے اسلام کے تمام مسلمانوں کو جسد واحد کی مانند دیکھنا چاہتے ہیں ۔فرماتے ہیں: بتان رنگ بو کو توڑ کو ملت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افعانی آپ رنگ، نسل ،علاقے اور شکل و شباہت کی بنیاد پر قومیت کی تشکیل کے مخالف تھے اور آپ کے نزدیک مسلمانوںکے اتحاد اور یکجہتی کے لیے مذہب کی اکائی بنیادی اہمیت کی حامل تھی ۔اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک ونسب پہ انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری آج عالم اسلام جس انتشار کا شکار ہے اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی شناخت اس کے مذہب کی بجائے اس کا رنگ ، نسل ،وطن ونسب بن چکا ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جن حقائق کی نشاندہی کی ہے ان سے رہنمائی حاصل کرکے امت مسلمہ اپنے اسلاف کی روایات کو واپس پلٹا سکتی ہے ۔ہمیں بحیثیت قوم کلام اقبال سننے اورسنانے سے ایک قدم آگے بڑھاکرپیغام اقبال پر عمل کرنے اور اس کو آگے پہنچانے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں