کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود یکم نومبر کو میران شاہ میں ڈرون حملے میں مارے گئے۔اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے برادرِ اکبر امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بیان دیا کہ ’’ امریکہ کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی فوجی ہلاک جبکہ طالبان اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگ شہید ہورہے ہیں ‘‘حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کہنے پر ملک بھر میں گرما گرم بحث شروع ہوگئی۔راقم الحروف اس وقت بعض کانفرنسوں میں شرکت کی غرض سے ملک سے باہر ہے ۔اس لیے بہت سے فورمزپر اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار نہیںکرسکا ۔گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا اور ای میل کے ذریعے بہت سے احباب مجھ سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لیے اصرار کرتے رہے۔ احباب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں نے یہ ضروری سمجھا کہ اس سلگتے ہوئے موضوع پردیانت داری سے اپنی رائے قارئین کے سامنے رکھوں تاکہ اس مسئلے کو سلجھایا جاسکے ۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مسئلے کو ذاتی پسند اور نا پسند سے بالا تر ہوکر سمجھنا چاہیے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ بحث کو جذباتی اندازمیں آگے بڑھانے کی بجائے تحمل اور بردباری سے اس پر غور کرنا چاہیے ۔جذباتی ماحول میں اس طرح کے مباحث عام طور پر ماحول میں مزید کشیدگی اور تنائو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔اس گمبھیر مسئلے کو مشاہدے اور علم کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کرنے سے قبل قارئین کے سامنے میں یہ بات رکھنا چاہتاہو ںکہ زیر نظر کالم میں افواج پاکستان اور طالبان کے لیے ’’جاںبحق‘‘کی اصطلاح استعمال کی جائے گی اورتجزیہ کیا جائے گا کہ جاں بحق ہونے والے افرا د میں سے بظاہر کس کو شہید اور کس کو ہلاک سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس وقت پورے ملک میں شہید اور غیرشہید کے حوالے سے ایک جذباتی فضا ہے اور مختلف افراد اور گروہ اس مسئلے پر اپنی اپنی رائے کا بڑے جارحانہ انداز میں اظہار کررہے ہیں ۔ افواج ِ پاکستان کے جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ اور ان کے وابستگان اپنے پیاروں کا خون بہنے پر مضطرب ہیں اور قبائلی علاقوں کے لوگوں سے وابستگی اور ہمدردی رکھنے والے افراد ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کا لہو بہنے پر پریشان ہیں ۔افواج ِپاکستان کے بہی خواہ اور ہمنوا لڑنے اور جاں بحق ہونے والے فوجیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مجاہد اورشہید سمجھتے ہیں،جبکہ قبائلی علاقوں میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ہمدرد انہیں مظلوم اور شہید گردانتے ہیں ۔ان کے نزدیک امریکی جارحیت کا نشانہ بننے والے افرا دکے خون ناحق کی ذمہ داری امریکہ کے ساتھ ساتھ حکومت اور فوج پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس جنگ میں حکومت اور افواج کو امریکہ کا ساتھی اورمعاون گردانتے ہیں ۔اپنے موقف کے حق میں دونوں فریقوں کے پاس کافی دلائل ہیں۔افواج پاکستان کے حامی مسجدوں ،عبادت گاہوں اور بازاروں میں ہونے والے نقصانات گنواتے ہیں اور ان کی ذمہ داری طالبان پر ڈال کر ان کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں ۔اس کے برعکس طالبان اور قبائلی علاقوں میں بسنے والے ان کے حامی ، فوجی کارروائی یا ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کے بہتے لہوکے ردّ عمل کے طور پردیکھتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں طالبان اور قبائلی علاقوں کے لوگ ملوث نہیں بلکہ ان واقعات کے پیچھے بھارت،اسرائیل اور امریکہ کے خفیہ اداروں کی سازشیں کا رفرماہیں ۔یہ لوگ ریمنڈ ڈیوس کیس کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح کے عناصرکی ملک میں موجودگی کو دہشت گردی کا اصل سبب قرار دیتے ہیں ۔اس بحث نے جہاں عام پاکستانی کے ذہن کو منتشر کر نے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں نفرت اور کشیدگی کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے،وہاں اس بحث کے چھڑنے پر رائے عامہ کی بڑی تقسیم بھی دیکھنے میں آئی ہے۔علم وحکمت کی جگہ نفرت اور جذبات نے لے لی ہے ۔اس فضا کو دیکھ کر کسی حد تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شہادت کا نقشہ سامنے آجاتا ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی شہادت کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان غلط فہمیاں اس حد تک بڑھیں کہ جنگ جمل اور صفین جیسے المیے رونما ہوئے ۔ان دونوں جنگوں میں امت کے ہزاروں بہترین لوگ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔سینکڑوں سال گزرجانے کے باوجود آج بھی ان جنگوںکے اسباب اور نتائج پر بحثیں جاری ہیں اورکئی بار یہ بحثیں تلخی اور کشیدگی کا باعث بن جاتی ہیں ۔ معاشرے میں جاری اس خلفشار اور انتشار کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اور سب سے زیادہ فائدہ امریکہ اوربھارت کو ہورہا ہے ۔امریکہ کی بنیادی خواہش تھی کہ دینی طبقے اور افواج ِپاکستان ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوجائیں تاکہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے ذمہ داران اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے پاس داران کے باہم دست و گریبان ہونے سے ریاست ِپاکستان داخلی طور پر کمزور ہوجائے ۔اس وقت امریکہ اپنی اس کوشش میں تقریباًکامیاب ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔بھارت پاکستان کا بدترین مخالف ہے اور اس کی بھی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ قبائلی علاقے کے لوگ افغان بارڈر کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے افواج ِ پاکستان کے مقابل آجائیں اور افواج پاکستان بھارتی بارڈرسے غافل ہوکر داخلی انتشار پر قابو پانے میں مشغول رہیں ۔بھارت پاکستان کے موجودہ خلفشار کو دیکھ کر خوشی سے بے حال ہورہا ہے اورپاکستان کی دفاعی صلاحیتیں ایک منظم سازش کے تحت حقیقی دشمنوں کے خلاف صرف ہونے کی بجائے ’’باغیوں ‘‘ کی سرکوبی کے لیے استعمال ہورہی ہیں ۔ اس سارے پسِ منظر میں اس سوال کا جواب دینا کہ شہید کون ہے اتنا آسان نہیں ۔میری نظر میں سوال کی دو صورتیں ہیں ۔پہلی صورت کا تعلق ڈرون حملوں سے ہے ۔ڈرون حملہ جارحیت کی ایک قسم ہے ۔یہ حملہ چاہے سلالہ کی چیک پوسٹ پر ہواور چاہے وزیرستان میں،ہر اعتبار سے ناجائز ہے ۔اس قسم کے حملو ں کا نشانہ بننے والے تمام بے گناہ فوجی اور قبائلی افراد ان شاء اللہ شہید ہیں۔جہاں تک تعلق ہے افواج پاکستان اور طالبان کے ٹکرائو کا تواس حسّاس مسئلے کا تعلق ہر فرد کی نیت کے ساتھ ہے ۔فریقین میں سے ایک شخص جو اپنے تئیں خلوص سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے اور دوسراشحض جو اپنی دانست میں خلوص کے ساتھ سامراج کے ناپاک قدموں کواپنی دھرتی سے اکھاڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کشمکش میں یہ دونوںاشخاص مختلف مقامات پر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں تو ان شاء اللہ یہ دونوں ہی شہید ہیں ۔ اس کے برعکس فریقین میں سے وہ شخص جو اپنی انا ،شہرت اورمال کمانے کے لیے لڑرہا ہے اور اسی طرح وہ شخص جو زمین پر فتنہ وفساد کے پھیلائو کے لیے سرگرم عمل ہے اور اسی چکر میں مختلف مقامات پر یہ دونوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو اپنی نیتوں کے فتور اور عمل کے کھوٹ کی وجہ سے بلا شبہ یہ دونوں شخص شہید نہیں ۔ شہادت کا عظیم منصب اللہ کی خوشنودی کے لیے خلوص سے کوشش کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے اور ایسے شخص کو اگر دنیا شہید نہ بھی کہے تو وہ شہید ہے ۔اسی طرح جو شخص اپنے ذاتی مفاد ، انا اور شہرت کے لیے برسرپیکار ہے توساری دنیا بھی اسے شہید کہے تو وہ شہید نہیں ۔اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے افراد کو مسلمانوں کی باہم معرکہ آرائی سے خوش نہیں ہونا چاہیے ، ہمیں اس خلفشارکے خاتمے کے لیے دعا گو رہنا چاہیے اورحسن ظن سے کام لیتے ہوئے تمام مسلمانوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے قطع نظر ان کے اچھے انجام اور مقام کی توقع کرنی چاہیے ۔ حضرت علی اورامیر معاویہ رضی اللہ عنہما جمل اور صفین میں جاں بحق ہونے والے افراد کو مسلمان ہی سمجھتے تھے اورصرف اپنے حامیوں کے جنازے نہیں پڑھاتے تھے بلکہ اپنے مخالفین کے جنازے بھی اٹھاتے اور دفناتے تھے۔