میرا دورئہ انگلستان اپنے آخری مراحل میں ہے اور جب قارئین یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے‘ اس وقت انگلستان سے پاکستان واپسی کے لیے میرے سفر کا آغاز ہو چکا ہو گا۔ اس سفر میں‘ میں نے بہت سے خوب صورت قدرتی مناظر کو دیکھا‘ لندن سے مانچسٹر تک آتے ہوئے ہر طرف سر سبز وشاداب اور لہلہاتی فصلوں کو دیکھا ۔ کھلے آسمان پر دبیز بادلوں کو آسمان اور زمین کے درمیان تیرتے ہوئے دیکھا ۔کئی دفعہ دن کے وقت سورج اوررات کو چاندکو بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کرتے ہوئے پایا ۔وسطی لندن کی طرف جاتے ہوئے دریا ئے ٹیمز کی لہروں کے شور کو سنا‘ ان تمام فطری مناظر کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن پر اپنے خالق کی صناعی اورکاریگری کا تاثر مزید گہرا ہوگیا ۔ ہر شخص خوب صورت قدرتی مناظرکو اپنے اپنے انداز میں دیکھتا ہے ۔ایک عام شخص ان قدرتی مناظر کو دیکھ کر اپنی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتا ہے ۔ ادب سے شغف رکھنے والاانسان ان قدرتی مناظر کو دیکھ کر ولیم ورڈز ورتھ کی شاعری کو یاد کرتا ہے ۔طبیعات اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والا ان مناظر کو دیکھ کر ماہرین طبیعات کے تجربات اور مشاہدات کو جانچتا اور انسانی عقل کی ترقی پر حیرانگی کا اظہار کرتا ہے ۔مظاہر فطرت کا پرستار فطرت کے رنگ کو دیکھ کر اتنا الجھ جاتا ہے کہ آثار فطرت ہی کا پجاری بن کر رہ جاتا ہے۔ سورج، چاند ستارے اور آسمان کی پوجا کرنے والے فطرت کے ان مظاہر کی خوب صورتی میں الجھ کر رہ گئے تھے ۔ان تمام افراد کے برعکس بندئہ مؤمن فطرت کے رنگوں کو دیکھ کر یو ںمحسوس کرتاہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق اور رنگ و نور کے اس سیلاب کے پیچھے ایک حکیم و داناخالق اور مصور کا دست ِ قدرت کار فرما ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اپنی صناعی اور کاریگری کا ذکر کیا ہے اور مختلف انداز میں اپنی قدرت کا ذکر کرنے کے بعد اپنے بندو ں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی ہے ۔سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 164 میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’بے شک زمین اورآسمان کی تخلیق میں ،دن اور رات کے آنے جانے میں ،سمندروں میں چلنے والی کشتیوں میں کہ جن سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے ، آسمان سے اترنے والے پانیوں میں کہ جن سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں ،اس میں بسنے والے ہر قسم کے چوپایوں میں ،ہوائوں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان معلق بادلوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘ ۔سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 32,33,34میں اللہ تبارک وتعالیٰ بڑے خوب صورت پیرائے میں ارشاد فرماتے ہیںکہ ’’اللہ وہ ہے جس نے زمین اور آسمان کو تخلیق کیا ، آسمان سے پانی کو اتارا اوراس سے تمہارے کھانے کے لیے پھلوں کو پیدا کیا ، تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا تاکہ تم ان کو سمندروں میں اس کے حکم کے ساتھ چلائو ،تمہارے لیے دریائوں کو مسخر کیا ،تمہارے لیے سورج اورچاند کو مسخر کیا جو اپنے راستوں پر چل رہے ہیں ، تمہارے لیے راتوں اور دنوں کو مسخر کیا اوراس نے وہ سب کچھ تم کو عطاکیا جس کا تم نے اس سے سوال کیا ۔اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے ،بے شک انسان انکارکرنے والا نا شکرا ہے ‘‘۔سورت ابراہیم کی یہ آیات مبارکہ کس انداز میں اللہ کی تخلیق کا نقشہ کھینچ رہی ہیں اور ان تخلیقات میں انسانوں کے فائدے والی جو باتیں چھپی ہوئی ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کی بھی وضاحت فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تما م نشانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد انسان کی بے وفائی اور نا شکرے پن کو بھی بیان کر رہے ہیں کہ انسان نہ تو اللہ کی نشانیوں کا صحیح ادراک کرتا ہے اور نہ ہی اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے ۔وہ آفاق کی کھلی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی اپنے خالق ومالک کا شکر گزار بندہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔اللہ تعالیٰ انسان کوصرف آفاق کی وسعتوں میں اپنی نشانیاں نہیں دکھاتا بلکہ انسان کی اپنی ذات میں بھی اس کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔اللہ نے انسان کو دیکھنے والی آنکھ ،سننے والے کان ،دھڑکتا ہوا دل اور سوچنے والا دماغ عطا فرمایا ۔اگر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور نعمتوں کی قدر پہچاننی ہو تو ان لوگوں کو دیکھنا چاہیے جو اللہ کی عطا کردہ بعض نعمتوں سے محروم ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اسی لیے سور ہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر 53میں ارشاد فرمایا کہ’’ ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کی جانوں میں دکھلائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گاکہ وہ حق ہے‘‘۔ اللہ نے اگرچہ قرآن مجید میں جابجا مختلف مقامات پر اپنی نشانیوں کا ذکر کیا ہے لیکن سورہ نحل ا س اعتبار سے قرآن مجید کی ممتاز سورت ہے کہ اس میں ’’تفکر فی الخلق ‘‘ کا موضوع خصوصیت سے زیر بحث آیا ہے ۔اللہ نے سورہ نحل میں اس حقیقت کاذکر کیا ہے کہ انسان جب اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اس کوکسی بات کا علم نہیں ہوتا لیکن اللہ اس کو سماعت ، بصارت اوردل عطا فرماتے ہیں تاکہ انسان اللہ کا شکر گزار بندہ بن جائے ۔اسی طرح اللہ نے جانوروں کے تھنوں سے نکلنے والے دودھ کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح خون اور گوبر کی نالیو ں کے درمیان سے اللہ تعالیٰ ایسے دودھ کو نکالتے ہیں کہ جس میں نہ تو گوبر کی بُو ہوتی ہے او رنہ ہی خون کا رنگ ۔اس خالص دودھ کو پینے کے بعد انسان اپنے جسم میں توانائی محسو س کرتاہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ شہد کی مکھی اللہ کے حکم سے بلند مقامات اور درختوں پر اپنے چھتو ں کو بناتی ہے ۔مختلف پھولوں او ر پھلوں کے رس چوستی ہے ۔ اس کے پیٹ سے وہ شہد نکلتا ہے جس میں انسانوں کے بہت سے امراض کی شفاء ہے ۔ اس سورت میں اللہ نے فضائے بسیط میں اڑنے والے پرندوں کی پرواز کا بھی ذکر کیا کہ کھلتے ہوئے اور بند ہوتے ہوئے پروں کے ساتھ پرواز کرنے والے پرندے کو ہوا میں سہارا دینے و الی ہستی اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔اس سورہ میں اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ نے انسانوں کے گھروں کو ان کے لیے جائے سکونت بنادیا ہے ۔ انسان دنیا کے جس مقام پر بھی ہو ، اس کو وہ سکون میسر نہیں آتا جو اسے اپنے گھر میں ملتا ہے ۔قرآن مجید میں بیا ن کردہ حقائق کا ذکر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسا ن اللہ کی تخلیق اور اس کی قدرت کی کاریگری کو دیکھ کر اس کی طر ف رجوع کرے اور صحیح معنوں میں اپنے مقصدِ تخلیق کو پہچان لے ۔سورہ اٰل عمران کی آیت نمبر 191میں ارشاد ہے کہ ’’ اہل عقل اٹھتے ،بیٹھتے اوراپنے پہلوئوں پر اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کے بعد کہتے ہیں :اے ہمارے پروردگار ! تُو نے یہ سب کچھ باطل نہیں بنایا ،تیری ذات پاک ہے پس تُو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ‘‘۔جو شخص فطرت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق و مالک کو پہچان لے گا یقینا وہ کامیاب و کامرا ن ہوگااورجو شخص اس پکار کو نظر انداز کرکے فطرت کی رنگینیوں میں گم ہوکر اپنے خالق ومالک کو ماننے سے انکاری ہوجائے گا وہ دائمی فلاح اور اخروی نجات سے محروم ہوجائے گا ۔