11 اور 13 مئی 1998ء کو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے پوکھران میں کئی ایٹمی دھماکے کیے۔ ان دھماکوں کو شکتی آپریشن کا نام دینے کے بعد واجپائی نے یہ بیان بھی دیا کہ ہم اپنے شریر پڑوسی پر ایٹم بم بھی گِرا سکتے ہیں۔ ان کا یہ بیان نہ صرف خطّے میں بھارت کی بالا دستی قائم کرنے کا باعث بن رہا تھابلکہ یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی انتہائی خطرناک تھا ۔اُ س وقت پاکستا ن ایٹمی صلاحیت حاصل کرچکاتھا لیکن بین الاقوامی اقتصادی اورسیاسی پابندیوں کے خدشات کی وجہ سے اس صلاحیت کا اظہار آسان نہ تھا مگربھارت کے ایٹمی تجربات نے پاکستان کے لیے بھی اپنی جوہری صلاحیت کے اظہار کا جواز پید ا کردیا؛چنانچہ 28مئی کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کرکے علاقے پربالادستی قائم کرنے سے متعلق بھارتی خواب کو چکنا چورکردیا۔یہ واقعہ پوری قوم کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بنا تھا اور اس دن کو بعد ازاں ''یوم تکبیر‘‘کانام دے دیا گیا ۔ہر سال یوم تکبیر پر ملک بھر میں تقریبات کاانعقاد کیا جاتا ہے اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں قابل قدر اضافے کے حوالے سے اس دن کویاد کیا جاتا ہے ۔
اقوام کی بقا میں ان کی دفاعی صلاحیتیں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں اور جو قوم دفاعی اعتبار سے اپنے حریف کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں اپنے بندوں کودشمنوں کے مقابلے میں ہمہ وقت تیار رہنے کی تلقین کی ہے ۔اس تیاری کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں براارادہ رکھنے والی اقوام مسلمانوں کی جنگی تیاری کے پیش نظران کے خلاف شرانگیزی سے باز رہیں ۔دور حاضر میں امریکہ جنگی صلاحیت کے اعتبار سے غیر معمولی اور منفرد صلاحیتوں کا حامل ہے اور انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اقوام عالم کو اپنے دبائو میں رکھتاہے۔ کئی ممالک میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں بھی لا چکا ہے ۔ اپنی اسی صلاحیت کے زور پرامریکہ نے جنرل پرویز مشرف کو افغانستان پر حملے کے لیے اڈے دینے پرمجبور کیا ۔
اس فیصلے کے خلاف ملک کی تمام مذہبی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی لیکن جنرل مشرف کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان کی بقا کے لیے امریکہ سے معاونت کرنا پاکستان کی مجبوری ہے ۔پاکستان کے نمایاں مذہبی راہنماتواتر سے کہتے رہے کہ یہ جنگ افعانستان کے بارڈر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے اثرات پاکستان میں بھی آئیں گے مگرجنرل مشرف نے مذہبی رہنمائوںکااستدلال قبول نہ کیا ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے افغانیوںسے گہرے مراسم تھے؛ چنانچہ وہ امریکی حملوں کے خلاف افغانیوں کا کھل ساتھ دیتے رہے ۔نتیجتاً امریکہ نے اپنی جنگ کادائرہ کارپھیلاتے ہوئے قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون حملے کرناشروع کردیے ۔ان حملوں کے نتیجے میں صرف جنگجو ہی نہیں بلکہ بڑی تعداد میں بے گنا ہ شہری بھی جاں بحق ہوئے ۔پاکستان اس صورتحال پر خون کی گھونٹ پیتا رہا لیکن امریکہ کی طاقت اور اس کی صلاحیت کی وجہ سے عملی طور پر اس کی جارحیت کا جواب دینے سے قاصر رہا ۔اس خاموشی کی وجہ سے قبائلی جنگجو امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستا ن کے سکیورٹی اداروں کے بھی دشمن بن گئے ۔ قبائلی جنگجوئوں اور پاکستان کی ریاست کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے کئی دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے جال بُننے شروع کردیے ۔جب کبھی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا حکومت قبائلی جنگجوئوں کو مورد الزام ٹھہراکراپنی ذمہ داریوں سے عہد ہ برا ہوجاتی ۔پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک ہر واقعے کا تعلق وانا اور وزیرستان سے جوڑکربزعم خود اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے،کسی بھی سانحہ کے حقیقی ذ مہ داروں کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا نہ دی جا سکی اور ریاست اور قبائلی طالبان کے درمیان جاری کشیدگی میں اضافہ ہوتا رہا۔ حکومت اورسکیورٹی اداروں میں موجود مخلص عناصر نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے کشیدگی ختم کی جائے ،ان مذاکرات کو امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے سیاسی مذاکرات کی وجہ سے بھی تقویت مل سکتی تھی مگر یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جب بھی با اثر اداروں اور طالبان کے درمیان بات چیت کی کوششیں مثبت سمت کی طرف بڑھتیں تو امریکہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کر کے قبائلی رہنمائوں کو پاکستان سے بد گمان کر دیتا۔ اس صورتحال نے پاکستان میں آنے والی حکومتوں کو عجب مخمصے میں مبتلا کردیا۔۔۔۔۔ ایک طرف ملک میں جاری کشیدگی پر مذاکرات کے ذریعے قابو پانے کی کوششں کی جاتی تودوسری جانب امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیتا۔ جنرل مشرف کے بعد زرداری اوراب میاں محمد نواز شریف امریکی جارحیت کاکھلی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں لیکن افسو س صد افسوس ! پاکستان کا کوئی بھی حکمران امریکہ کی جارحیت کا جواب دینے کی ہمت نہ کر سکا۔ الیکشن 2013ء سے قبل مولانا سمیع الحق کی قیادت میں دفاع پاکستا ن کونسل کے ایک وفد نے رائے ونڈ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی جس میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ وفد نے میاں صاحب سے مطالبہ کیا تھا کہ نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے وہ دفاع پاکستان کونسل کا ساتھ دیں۔ انہوں نے اس وقت امریکی جارحیت کے حوالے سے گہری تشویش کا اظہار کیا اور عزم ظاہر کیا کہ اگر موقع ملا تو وہ امریکی جارحیت روکنے کے لیے ہر طرح کی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ میاں صاحب کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی پاکستان مسلسل ڈرون حملوں کا نشانہ بن رہا ہے اور یہ حملے نہ صرف جانی ضیاع کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے پاکستان کے مقتدر اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور اس حوالے سے رائے عامہ میں واضح طور پر شدید نو عیت کی متضادآراء سامنے آرہی ہیں ۔اگر صورتحال جوں کی توں رہی تو آنے والے دنوں میں عوامی سطح پر انتہائی نوعیت کا رد عمل پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔
حکمرانوں کو ہوا کا رخ دیکھنا چاہیے اورکسی بڑے المیے سے بچنے کی خاطرڈرون حملوں کو روکنے کی مؤثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ چند روز قبل فوجی مشقوں کے دوران افواج پاکستان نے ڈرون گرانے کا کامیاب مظاہرہ کیا۔ اس تجربے پروزیر اعظم پاکستان نے بڑی مسرت کا اظہار کیا لیکن عملی طور پر صورتحال جو ں کی توں ہے۔ خیبر پختون خوا میں ہونے والے حالیہ ڈرون حملے نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے زبانی احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس وقت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ڈرون حملوں کے ناقدکے طور پر ابھر رہے ہیں اور ان کا یہ مؤقف انہیں دفاع پاکستان کونسل اور مختلف مذہبی جماعتوں کے قریب کرنے کا بڑا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کا ووٹ بنک درحقیقت دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں ہی کا ووٹ بنک ہے۔ اگر میاں صاحب نے اس موقع پر تساہل سے کام لیا اورامریکی حملوں کی روک تھام کے لیے مضبوط حکمت عملی نہ اپنائی تو جہاںاس غفلت کے نتیجے میں معاشرے میں جاری بدامنی میں اضافہ ہوگا وہاں میاں صاحب اورپاکستان مسلم لیگ کی سیاسی حیثیت کو بھی نا قابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ میاں صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ پوری قوم امریکی جارحیت پر غمزدہ ہے اور حکومت سے سوال کر رہی ہے کہ امریکی ڈرون حملے پر خاموشی آخر کب تک رہے گی، آخر کب تک ؟