سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:'' اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمٰن میں 30سے زائد مرتبہ انسانو ں اور جنوں سے مخاطب ہوکرفرمایا:''پس تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ‘‘۔انسان اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں سنجیدگی سے غورکرے تویہ بے شمار ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسا ن کو پکڑنے کے لیے ہاتھ، دیکھنے والی آنکھیں ،سننے والے کان، بولنے والے لب، دھڑکتے ہوئے دل اورسوچنے والے دماغ سمیت کیا کچھ عطا نہیں فرمایا ۔اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وجود کے ساتھ ساتھ جب انسان اپنے گردو پیش میں غور کرتا ہے تو نظام ہستی کا ہر ایک ذرہ کسی نہ کسی اعتبار سے انسانوں کے لیے اللہ کی ایک نعمت ہے ۔لہلہاتی ہوئی فصلیں، اُبلتے ہوئے چشمے ،فطرت کے حَسین نظارے ،چندا کی چاندنی اور سورج کی حرارت اور روشنی انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جن کی صحیح قدر وہی شخص کرسکتا ہے جو ان میں سے کسی ایک سے محروم ہو۔
اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں میں سے امن اورمعاش دو ایسی نعمتیں ہیں جو انسانی معاشروں کی بقا اور ترقی میں کلیدی کردارادا کرتی ہیں ۔جس معاشرے کویہ دونوں نعمتیں بیک وقت مل جائیں اس کو گویا دنیا کی تمام نعمتیں میسر آجاتی ہیں۔ نعمتِ ہدایت کے بعد دنیا کی کوئی نعمت ان دونعمتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃنحل کی آیت 112میں سبا کی بستی کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ اس بستی کو امن اور رزق کی نعمتیں میسر تھیں ۔سورہ بقرہ اور سورہ ابراہیم میں اس امر کا ذکرفرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑنے مکہ کے لیے امن اورپھلوں کے رزق کی دعا مانگی تھی ۔اسی موضوع پر سورۃقصص کی آیت 57میں اہل حرم پر اپنے احسانات جتلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے ان کو امن اور پھلوں سے رزق عطا فرمایا ہے ۔تمام مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے امن اوررزق کو اپنی بے پایاں نعمت قرار دیا ہے اور سورۃ نحل میں انسانوں کو سمجھایا ہے کہ انہیں اللہ کی ان نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہیے اور کفران نعمت کرکے اللہ کے عذاب کو دعوت نہیں دینی چاہیے اس لیے کہ جو پروردگار نعمتیں عطا فرمانے پر قادر ہے وہ انہیں سلب کرنے کی طاقت بھی رکھتاہے ۔اللہ کی ان دو بڑی نعمتوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کے لائق ہے کہ اگرچہ امن اوررزق دونوں ہی اللہ کی عطا ہیں لیکن ان دونوں میں سے امن کی نعمت کا مقام رزق کی نعمت سے بلند ہے ۔رزق کی تنگی کے مقابلے میں بدامنی بڑا عذاب ہے ۔اگر معاشروں میں امن وسکون ہوتو پیداوار کے ذرائع اور معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر رزق میں فراوانی ہواور امن وسکون میسر نہ ہوتو وافر رزق، بدامنی کے نتیجے میںپیدا ہونے والی تلخی اور تنگی کم نہیں کرسکتا۔ مادی اعتبار سے کئی ترقی یافتہ اور خوشحال معاشروں میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد شدید نو عیت کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہے اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلسل بدامنی اوربے سکونی میں رہنے والے انسان کی معاشی جدوجہد اورکاروباری سرگرمیو ں پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان دونوں نعمتوں کا بیک وقت حصول ناگزیر ہے تاہم کبھی حالات اس نہج پر آجائیں کہ ان دو میں سے کسی ایک کا چنائو کرنا پڑے تو معاشروں کو قیام امن کو پہلی ترجیح اور اقتصادی ترقی کو ثانوی حیثیت دینی چاہیے ۔
پاکستان کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران امن اوراقتصاد کے معاملے میںکنفیوژن کا شکارہیں اوران کی بڑی ترجیح ہرحالت میں معیشت کی بہتری ہے اوراگرانہیں امن کی قربانی دینی پڑے تو اس کے لیے شرح صدر سے آمادہ وتیارہوجاتے ہیں۔
پاکستان کی کمزورخارجہ پالیسی کا اصل سبب حکمرانوں کی یہی غلط ترجیحات ہیں ۔وہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک اورامریکہ سے ملنے والے قرضوں اورمالی معاونت کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں حالانکہ ان قرضوں اور مختلف مدوں میں ملنے والی امداد کے نتیجے میں ہمارے ملک کے طول وعرض میں دہشت گردی کے جال بُنے جارہے ہیں ۔امریکہ کے ڈرون حملوں پرہماری خاموشی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم ہر صور ت میں معاشی طورپر مستحکم ہونا چاہتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ امن قربان کرکے حاصل ہونے والی امداد حقیقی معنوں میں ہماری معیشت کی بہتری کا سبب نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرضوں اورامداد کی فراہمی کے باوجود ہماری معاشی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے ۔مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ اورروپے کی قدر میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔اگر رزق کے حصول کے لیے کی جانے والی توانائیوںکا رُخ امن بہتر بنانے کی طرف موڑدیا جائے توامن کی بدولت معاشی معاملات میں بھی بہتری آجائے گی۔ڈرون حملے رک جائیں،دہشت گردی پر قابوپالیا جائے اورملک میں بدامنی کا خاتمہ یقینی بنالیا جائے تو اقتصادی حالات خود بخود بہتر ہوجائیںگے۔
حالیہ دورہِ ٔانگلستان کے دوران میری بہت سے خوشحال پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی ۔ تارکینِ وطن کی بڑی تعداد جذبہ حب الوطنی سے سرشار اورملک کی معیشت بہتر بنانے کے لیے اپنا سرمایہ بھی پاکستان منتقل کرنے کے لیے تیا رہے لیکن پاکستان میں جاری خونریزی اور بدامنی دیکھ کروہ مُتَردِّد ہوجاتے ہیںکہ جہاں جان محفوظ نہ ہو وہاں سرمایہ کیسے منتقل کیا جائے۔اگر ہماری حکومتیں تارکین وطن اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کو امن کی ضمانت دیں تو پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے، لیکن جب بد امنی کے اندیشوں میں مبتلا ہمارے سیاست دانوں کا اپنا سرمایہ بیرونِ ملک موجود ہوگا تو عام لوگوں سے اس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔اگرامن اور معیشت کے باہمی تعلق کو عملی مثال سے سمجھنا ہوتو کراچی کے حالات ہمارے سامنے ہیں ۔کبھی کراچی میں معاشی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوا کرتی تھیں لیکن مسلسل قتل وغارت اورفعال بھتہ گروپوں نے تاجروںاورصنعتکاروںکو مضطرب کردیا اوران کی بڑی تعدادکراچی سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکی ہے ۔کراچی کی معاشی سرگرمیوں میں گزشتہ برسوں کے دوران بتدریج کمی واقع ہوئی اگرچہ بعض عناصر سیاسی تعصب کی بنا پر اس سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن آنے والے وقت میں واضح اعدادوشمارسامنے آنے پریہ عناصر بھی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
حکومت پاکستان اگرچہ استعداد رکھنے کے باوجود امریکی ڈرون گرانے کی ہمت نہیں رکھتی اور کابینہ کے کئی سینئر ارکان بھی اقتصادی مجبوریوں کے تحت ڈرون حملوں کو برداشت کرنے پرتیار ہیں لیکن ہمارے حکمرانوںکو بہرصورت یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ ایک ڈرون زدہ ریاست کبھی اقتصادی طور پر اس مقام پر نہیں پہنچ سکتی جہاں وہ اسے پہنچانا چاہتے ہیں۔حکمران اگر واقعی قوم سے مخلص ہیں اور حقیقی معنوں میں معاشی طور پر ملک کومضبوط اورمستحکم بنانا چاہتے ہیں تو انہیں ڈرون حملوں اور معاشرے میں جاری قتل وغارت کو روکنے کے لیے جرأت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگرحکمران تمام تر قوت مجتمع کرکے پاکستان کو پرامن ریاست بنانے کی سنجیدہ کوشش کریں تو معیشت کی الجھی ہوئی زلفیں خودبخود سنورجائیں گی۔ امن کا راستہ ہی درحقیقت معاشی ترقی اور عروج کا راستہ ہے۔ اے کاش ! یہ سادہ سی بات ہمارے حکمرانوںکی سمجھ میں آجائے۔