حق پرستی ایک ایسا عظیم وصف ہے‘ جو اپنے حامل کو اندھیر نگری سے نکال کر روشنی کی شاہراہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ حق پرست انسان صرف اپنی زندگی کو ہی بہتر نہیں بناتا بلکہ وہ اپنے حلقہ اثر میں رہنے والے بہت سے لوگوں کو بھی سیدھے راستے پر چلانے کا سبب بن جاتا ہے۔ حق پرست انسان نہ تو مصلحتوں کا اسیر ہوتا ہے اور نہ ہی مفادات کا پجاری بنتا ہے۔ اس کو سچائی سے والہانہ محبت ہوتی ہے اور اس کو حق کی پاسداری کی چاہے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے وہ اس کے لیے بسروچشم آمادہ و تیار رہتا ہے۔
حق پرستی کا اہم ترین تقاضہ یہ ہے کہ انسان ہر حال میں حق بات کہے اور حق بات کرنے والے ہر شخص کا ساتھ دے۔ اسی طرح اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ حق کے مخالف کی مخالفت پر آمادوتیار رہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 70 میں اہل ایمان کو تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سیدھی سیدھی بات کرنی چاہیے اور اگلی آیت میں بتلایا ہے کہ سیدھی اور سچی بات کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے کام سنوار دے گا اور ان کے گنا ہ معاف فرما دے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں اہل ایمان کو نصیحت کی ہے کہ انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سچوں کا ساتھ دینا چاہیے۔
اگرچہ حق پرستی کا راستہ فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے مگر اس شاہراہ پر چلنا آسان نہیں۔ حق کے راستے پر چلتے ہوئے کئی مرتبہ اپنوں کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے اور مخالفوں کی جائز اور درست بات کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ محبت کی قربانی دینا اور مخالف کی صحیح بات کو قبول کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس کے لیے بہت بڑا ظرف چاہیے۔ ہر انسان اس کشمکش کا مقابلہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔ اکثر لوگ حق بات اور درست رائے کو بھی اپنی پسند اور ناپسند کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگر حق بات کہنے والا انسان کا ممدوح ہو تو وہ فوراً اس کی تائید کرتا ہے اور اگر حق بات کہنے والا مخالف ہو تو ذاتی عناد اور تعصب کی وجہ سے اس کی صحیح بات کو بھی ردّ کر دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال کی آیت نمبر 32 میں ابو جہل اور اس کے رفقاء کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے تعصب کی بنا پر قرآن مجید کے بارے میں کہا تھا کہ ''اے اللہ! اگر یہ قرآن حقیقت میں آپ کی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب واقع کر دے‘‘ یہ آیت بھٹکے ہوئے انسانو ں کی متعصبانہ سرشت کا بڑے واضح انداز میں نقشہ کھینچ رہی ہے کہ کس طرح محض تعصب کی وجہ سے کافر سردار حق قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو عدل و انصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کی ہے کہ انہیں نہ تو کسی کی محبت کی وجہ سے حق کا دامن چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی کسی کی نفرت میں اس حد تک آگے بڑھ جانا چاہیے کہ اس کی حق بات کو بھی مسترد کر دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 135 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جائو۔ گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین یا قرابت داروں کے۔ اگر وہ امیر ہوں یا فقیر اللہ ان دونوں سے زیادہ تعلق والا ہے۔ اس لیے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم نے بات بدلی یا پہلوتہی کی تو جان لو کہ تم جو کچھ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جائو۔ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو۔ کسی قوم کی عداوت تمہیں عدل سے نہ روکے۔ عدل کیا کرو کہ یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات پر عمل پیرا ہونے سے ایک ایسا معاشرہ معرض وجود میں آ سکتا ہے جس میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور اس سماج میں کسی کی محبت اور کسی کی نفرت قبولیت حق کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشرتی مسائل کی بہت بڑی وجہ تعصب اور ہٹ دھرمی ہے۔ معاشرے کی اکثریت پارٹی بازی، سیاسی اور مذہبی وابستگیوں کی وجہ سے حق کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد چاہتے‘ نہ چاہتے اپنے لیڈر اور پارٹی کے غلط مؤقف کا دفاع کرنے میں مصروف اور مخالف پارٹی اور لیڈرکے جائز اور درست مؤقف کی مخالفت کرنے میں مشغول ہے اور اگر پارٹی لیڈر کا مؤقف بدل جائے تو ہمنوائوں کا مؤقف بھی بلا دلیل فوراً سے پہلے تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس تعصب اور عناد کی وجہ سے معاشرے میں منفی سرگرمیوں کی حوصلہ افرائی اور مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس ناانصافی کی وجہ سے معاشرہ تعمیری افکار، تجاویز اور سرگرمیوںسے محروم رہ جاتا ہے اور لیڈروں، جماعتوں اور گروہوں کے منفی کردار پر ان کے احتساب کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔
اسی تعصب اور حق پرستی کی کشمکش کی تازہ ترین مثال ڈرون حملوں پر کیے جانے والے احتجاج پر مختلف جماعتوں کا ردعمل ہے۔ ہر پاکستانی ڈرون حملوں کا دل کی گہرائیوں سے مخالف ہے اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں معصوم اور نہتے شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے اور یہ حملے دہشت گردی میں اضافہ کا باعث بنے ہیں۔ اس کے باوجود نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف ہونے والے احتجاج پر صرف تعصب کی وجہ سے تنقیدکی جاتی ہے۔
دفاعِ پاکستان کونسل ایک عرصے سے نیٹو سپلائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور تاحال یہ احتجاج جاری ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے بھی حال ہی میں نیٹو سپلائی کے خلاف بھرپور اور مؤثر احتجاج کیا‘ جس کی وجہ سے نیٹو سپلائی تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی ڈرون حملوں کے مخالف رہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی مخالفت میں مسلم لیگ کے راہنما اور مولانا فضل الرحمٰن اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے جائز احتجاج کو بھی مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نیٹو سپلائی کے خلاف مولانا سمیع الحق اور عمران خان کے احتجاج کی حمایت کرنے سے کوئی مسلم لیگی تحریک انصاف میں شامل نہیں ہو جائے گا اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کا کوئی رکن مولانا سمیع الحق کا پیروکار بن جائے گا۔ اس احتجاج کی حمایت کرنے سے ڈرون حملوں کی مخالفت میں ایک قومی ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو جائے گی لیکن تحریک انصاف اور دفاع پاکستان کونسل کے سیاسی مخالفین اس خوف سے حق کی حمایت نہیں کرتے کہ کہیں ان کا سیاسی اثاثہ دفاع پاکستان کونسل اور تحریک انصاف کو منتقل نہ ہو جائے۔ تعصب کی یہ فضا اہم قومی امور پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے اور ہر جماعت اور گروہ اپنی سیاست کی بساط کو حق کی بجائے تعصب کی بنیاد پر بچھا رہا ہے۔ اسی تعصب نے ہمیں قومیتوں، پارٹیوں، فرقوں اور لسانی گروہ بندیوں میں تقسیم کر کے ہماری قوت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم تعصب سے پاک ہو کر حق پرست ہو جائیں اور کسی بھی مسئلے میں حق کہنے والا‘ خواہ کوئی بھی ہو اس کا ساتھ دینے والے بن جائیں۔ حق مسلمان کی شناخت اور بلاجواز تعصب نفاق اور کفر کی علامت ہے۔ کامیابی کا راستہ حق کا راستہ اور ناکامی کا راستہ تعصب کا راستہ ہے۔ اے کاش! یہ بات ہماری قوم اور راہنمائوںکی سمجھ میں آ جائے۔