23مارچ1987ء کی شام کو والد ِگرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر راوی روڈ پر سیرۃ النبی ﷺکے جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گئے ۔آپ عموماً جلسے کے آخر ی خطیب ہوا کرتے تھے‘ اس لیے اکثر رات گئے جلسوں سے واپس آتے ۔کئی مرتبہ ان کے گھر آنے سے قبل ہم محوِ خواب ہوجاتے او رصبح سکول جانے سے قبل ان سے ملاقات ہوا کرتی تھی ۔23مارچ کی رات ساڑھے گیارہ بجے تک وہ واپس نہیں آئے ۔میرے میٹرک کے بورڈ کے امتحانات ہورہے تھے ۔میں امتحان کی تیاری کی غرض سے اور والدہ محترمہ والد صاحب کے انتظار میں جاگ رہی تھیں ۔ساڑھے گیارہ بجے رات کو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ والدہ محترمہ نے ٹیلی فون اٹھایا تو دوسری طرف سے ایک دکھ بھری اطلاع ملی کہ راوی روڈ کے جلسے میں دھماکہ ہوگیا ہے اوربہت سے علماء موقعہ پر جاں بحق ہوگئے ہیں‘ جب کہ والد صاحب شدید زخمی ہو گئے ہیں۔اس المناک حادثے کی اطلا ع ملتے ہی ہم سب بیدار ہوگئے۔ اس بات کا تو تصوربھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ گھر سے بھلے چنگے جانے والے والد صاحب اچانک شدید زخمی ہوچکے ہیں ۔میر ا اگلے دن بورڈکا امتحان تھا۔ شدید اضطراب کی وجہ سے امتحان میں شریک ہونامیرے لیے نہایت مشکل ہوچکا تھا لیکن مجبوری تھی‘ چنانچہ بُجھے دل ودماغ کے ساتھ مَیں امتحان کے لیے روانہ ہوا۔ فارغ ہوتے ہی میوہسپتال کا رخ کیا ۔بستر پر لیٹے ہوئے والد صاحب کو دیکھ کر بے اختیار میرے آنسو جاری ہوگئے ۔انہوں نے مجھ سے میرے امتحان کے بارے میں پوچھا اورمجھ سے دعا کے لیے کہا۔ وہ چھ دن تک میو ہسپتال میں رہے اوربعدازاں میڈیکل بورڈ کے ہمراہ علاج کی غرض سے سعودی عرب کے ملٹری ہسپتال منتقل ہوگئے ۔وہ زخموں سے جانبر نہ ہوسکے اور 30اور 31مارچ کی درمیانی شب طلوعِ صبح سے ذرا قبل اس دار ِفانی رخصت ہوگئے ۔ان کے جسدِ خاکی کو مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور مسجد نبویؐ میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد بقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔ان کے انتقال کے بعد ہمیں جس نفسیاتی اور روحانی کرب سے گزرنا پڑا وہ ایک لمبی روداد ہے ۔ میں میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگیا ۔ جب بھی کبھی اساتذہ یا طالب علم ایک دوسرے کے والد کے نام اور سرگرمیوںکے بارے میں پوچھتے تو میری آنکھیں آنسوئو ں سے لبریز ہو جاتیں۔ عید اور خوشی کے موقع پر شدت سے ان کی یاد آتی ۔خاندانی تقریبات اورمذہبی اجتماعات میں بھی ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ۔ان کے انتقال کو چھبیس برس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال ان کی حادثاتی رخصتی کے اثرات دل ودماغ پر ثبت ہیں ۔
میاں محمد نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے ۔ انہوںنے حادثے کے فورا ً بعد میو ہسپتال میں جا کر اعلان کیا تھا کہ علامہ احسان الہٰی ظہیر کے جلسے میں دھماکہ کے ذمہ داروں کو فی الفور گرفتا ر کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی‘ لیکن یہ اعلان اعلان کی حد تک ہی رہ گیا ۔عوام کے جان ومال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان میں حکمران اپنی اس ذمہ داری کو بجا لانے کی بجا ئے بیان بازی پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔
میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن تا حال معاشرے میں علما ء، دانشوروں،صحافیوں اور نمایاںسیاسی راہنمائوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے ۔قتل وغارت گری کے واقعات نے دھرتی کے بہت سے ذہین وفطین بیٹوں کو خاک اور خون میں نہلا دیا ۔حکام کی غفلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ قتل وغارت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر بھی وہ راست اقدام کرنے پر آمادہ نہیں۔ سکیورٹی کے حصاروں میں رہنے والے حکمران اس بات کا ادراک بھی کرنے سے قاصرہیں کہ دہشت گردی اور قتل کے واقعات کے متاثر ہ خاندان پر کیا اثرات ہوتے ہیں ۔ایک خاندان کئی عشروں تک اس گھائو کو فراموش نہیں کر سکتا اور صحت مند اور نارمل زندگی گزارنے کے لیے متاثرہ خاندان کو لمبے عرصے تک ذہنی‘ جسمانی اور روحانی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔کئی مرتبہ دہشت گردی سے متاثرہ خاندان کی معاشی اورمعاشرتی حالت اس حد تک مخدوش ہوجاتی ہے کہ لمبے عرصے کی جدو جہد کے باوجود بھی آرام دہ اور باوقار زندگی گزارنے کے امکانات معدوم رہتے ہیں ۔
مولانا شمس الرحمان معاویہ کے ناحق قتل پر وزیر اعظم پاکستان نے گہرے رنج و غم کا اظہا رکرتے ہوئے جلد قاتلوں کی گرفتاری کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن ماضی کاٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ کہنا چنداںمشکل نہیں کہ مولانا کے قاتل بھی گرفتا ر نہیں ہوں گے۔ کچھ دنوں کی تفتیشی سرگرمیوں کے بعد مولانا کا کیس بھی داخلِ دفترہوجائے گا ۔
قتل اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کے ذمہ داروں کے بے نقاب نہ ہونے سے معاشرے میں دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔اس کے برعکس دین ،سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرمِ عمل افراد تواتر سے ان واقعات کے رونما ہونے پر خدشات اوراندیشوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ خوف اور کھٹکوں کے سائے میں گزرنے والی زندگی صرف معاشرے کے نمایاں افراد کی صحت مند سرگرمیوں پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ نوجوان نسل پر بھی اس کے اثرات انتہائی منفی ہوتے ہیں ۔ احساس محرومی ،تشدد ،نفرت ،گروہی تعصبات اور انتقا م کے جذبات شخصیت میں عدم توازن پیدا کرکے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کررہے ہیں ۔دہشت گردی اور قتل وقتال کی کڑیاں بیرونی ممالک کے حساس اداروں اورسرحد پار دشمنوں کے ساتھ جوڑ کر ہمارے حکمران اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ۔حکمرانوں کو قتل کے واقعات کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور مقتول کا تعلق خواہ کسی بھی جماعت ،گروہ اورفرقے سے ہو ،اس کے وابستگان کے دکھوں کا مداوا ضرور کرنا چاہیے ۔
اللہ کریم نے سورہ مائد ہ کی آیت نمبر 32میں کسی بھی بے گناہ انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 93میں کسی مومن اور مسلمان کے قتل کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے ''اورجس نے جان بوجھ کرکسی مومن کو قتل کیا تو اس کی جز ا جہنم ہے ۔ وہ لمبا عرصہ اس میں رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیا ر کردیا ہے‘‘۔
آج ہم معاشرے میں ہرطرف پھیلتی ہوئی بد امنی ، دہشت گردی ،سراسیمگی ،خوف ،ذہنی خلفشار ،فکری انتشار ، غربت وافلاس ،بھوک اور بے روزگاری کو دیکھ رہے ہیں ۔ اس ساری بد حالی کو دیکھ کر یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ ہم اللہ کے غضب اور اس کی لعنتوں کی زد میں ہیں اور اس غضب اور لعنت کی کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں جہاں دیگر بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے‘ وہیں قتلِ نا حق کو بھی روکنا ہوگا۔ماضی میں مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی کارروائیوں نے اس حقیقت کو واضح کیا تھا کہ اگر معاشرے میںتشدد پسند عنا صر کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے تو جنون اور تشدد کی لہر بند قلعوں اور بلند ایوانوں میں رہنے والے حکمرانوں اور راہنمائوں کو بھی نگل جاتی ہے ۔قاتلوں اور دہشت گردوں کو قرار ِواقعی سزا ملنے سے جہاں معاشروں میں امن قائم ہوتا ہے وہیں پر خود حکمران بھی حفاظتی دستوں اور سکیورٹی انتظامات کی احتیا ج سے پاک ہوجاتے ہیں ۔اگر ہمارے حکمرانوں کو یقین نہیں آتا تو سعودی عرب جیسے مسلمان ملک سے لے کر برطانیہ جیسے غیر مسلم ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جہاں اندھیری رات میں سفر کرنے والے تنہا مسافر کے دل میں بھی اپنی جان و مال کے حوالے سے کوئی کھٹکا نہیں ہوتا ۔