انسان معاشرتی حیوان ہے اوراپنے گردوپیش کے ماحول سے متاثرہوتا ہے۔معاشرے کے عمومی رجحانات اور رویے انسان کے اہداف اور سرگرمیوں کے تعین میں کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔اگرمعاشرے کا رویہ علم پرور اور پرہیزگاری پر مبنی ہوتومعاشرے میں علم اور دین پسندی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ سماج کا عمومی رویہ مادہ پرستانہ ہو تو لوگوں کی اکثریت مادی عروج اورمعاشی ترقی کے لیے کوشاں ہو جاتی ہے۔ فی زمانہ مادی اعتبار سے مستحکم شخص کوکامیاب انسان سمجھتا جاتا ہے۔ معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے کسی شخص نے کوئی بھی ذریعہ اختیار کیا ہو‘ لوگوں کی اکثریت کواس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اوراسے کامیاب گردانتے ہیں۔اس منفی رویے نے ہمارے معاشرے کی اخلاقی اقداراورفکری جہت کو بری طرح متاثرکیاہے۔ لوگوں کی اکثریت راتوں رات امیرہونے کی کو شش مصروف رہتی ہے،اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے حلال وحرام اورجائز و ناجائز کی تفریق بھی نہیں کی جاتی اورستم بالائے ستم کہ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ اور مادی شان و شوکت کے تانے بانے رضائے الہٰی کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں۔مادی طور پر ترقی یافتہ شخص نے کتنے ہی لوگوں کی حق تلفی کیوں نہ کی ہو،اس کے مال واسباب کو اللہ کے فضل اوراس کی عطا سے تعبیرکیا جاتاہے اورایسے لوگ خود بھی فکری گمراہی کا شکار ہوکر اپنے پاس جمع ہو نے والے جائزوناجائزمال کواللہ کی عطااور رضامندی کی علامت سمجھنے لگتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ کہف میں ایک ملحد جاگیردارکا واقعہ نقل کیاہے جو اپنے باغات کے حسن و خوبی پرفخرکیا کرتا تھا۔اس کا دین دار ہمسایہ اسے اللہ تعالیٰ کی تابعداری اور بندگی کا سبق دیتااوراُخروی فلاح کو اصل کامیابی قرار دیتا۔جواب میں کئی مرتبہ اللہ کے خوف سے بے نیازیہ متکبر جاگیردار یومِ جزا کو جھٹلاتا اور کئی مرتبہ یہ بھی کہتاکہ اگر قیامت قائم ہو بھی گئی تو مجھے وہاں پر بھی دنیا کی طرح عروج حاصل ہو جائے گا ۔دین دار ہمسایہ اس کو دنیا کی بے بضاعتی اورناپائیداری کے بارے میں نصیحت کرتا رہا لیکن اُس نے اس کی دعوت کو حقارت سے ٹھکرا دیا۔ایک دن اس کے تکبرکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے باغات کوتباہ و برباد کر دیااوروہ کفِ افسوس ملتا رہ گیا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون اورنمرودکی وسیع سلطنت کو بھی تباہ و بربادکر دیا۔فرعون کو اللہ تعالیٰ نے لمبے عرصے تک مہلت دی لیکن مہلت کے ان ایام میں اس کی سرکشی اورگھمنڈ میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ مطلق العنانیت کے نشے میں دھت فرعون اپنے آپ کو پروردگارعالم سمجھنے لگا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے مختلف عذابوں کی شکل میں اس کو اپنی نشانیاں دکھلائیں۔ ہردفعہ آنے والے عذاب کو دیکھ کر وہ وقتی طور پر اللہ کی طرف رجوع کر تا اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرتا کہ اللہ کے عذاب کو ٹالنے کے لیے دعاکریں، عذاب کے ٹلنے کی صورت میں تابعداری کا عہدکرتا مگر جب عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ نافرمانی اور سرکشی پرکمربستہ ہو جاتا، یہاں تک کہ ایک دن اللہ تعالیٰ نے اس کواس کے لاؤلشکر سمیت سمندر کی لہروں کی نذرکردیا۔فرعون کا مادی عروج قوم فرعون کی گمراہی کا بہت بڑا سبب تھا۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ زخرف کی آیت نمبر 51تا 56میں فرعون کے موسیٰ علیہ السلام کے خلاف استدلال کو نقل کیاہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''فرعون نے پکارکے کہا‘ اے میری قوم !کیامصرکی بادشاہی میری نہیں اور یہ نہریں جو میرے قدموں تلے بہتی ہیں۔ کیا پھر بھی تمہیں نظر نہیں آتا بلکہ میں بہتر ہوں اس کمتر اور حقیر شخص سے جو صاف بول بھی نہیں سکتا۔اچھا!اس پر سونے کے کنگن کیوں نہ اُتارے گئے یا فرشتے اس پر پرے باندھ کر ہی آ جاتے۔ اس نے اپنی قوم کی عقل کھو دی اورانہوں نے اس کی بات مان لی۔یقیناً یہ سارے لوگ ہی فاسق تھے‘‘۔یہ آیات اکثر انسانوں کی مادیت پرستانہ ذہنیت کا بڑے خوبصورت انداز میں نقشہ کھینچ رہی ہیں کہ کس طرح ایک نبی کی سچی دعوت کو فرعون کے اقتدار، ہیبت وحشمت کی وجہ سے ٹھکرا دیا گیا لیکن فرعون کا عبرت ناک انجام دیکھ کر قومِ موسیٰ کی بند آنکھیں کھل گئیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص میں قارون کے مال کا ذکرکیا کہ اس کے مال ومتاع کو دیکھ کر لوگوں کی اکثریت کی آنکھیں پتھرا گئیں۔اہلِ علم کی ایک چھوٹی جماعت اس حقیت سے باخبر تھی کہ قارون کے مال کی چمک دمک عارضی ہے اوروہ کسی بھی وقت اللہ کی پکڑکی زد میں آسکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قارون کواس کے مال واسباب سمیت زمین میں دھنسا دیا تو وہی لوگ جوکل تک قارون کی طرح کامال داربننے کی تمنا کر رہے تھے، اللہ کی پناہ طلب کرنا شروع ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ مدثر میں ولید بن مغیرہ کا ذکرکیاجواپنے مال اورکنبے کی وسعت کی وجہ سے متکبرہوکرحق کی دشمنی پر آمادہ ہو چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرنے والے اس مغرور سرمایہ دارکواللہ نے جہنم کی وعید سنائی۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تیسویں پارے میں ایک مستقل سورت ابولہب کے بارے میں نازل کی۔ ابو لہب کو اپنے حسب ونسب، مال اور جمال پرگھمنڈ تھا اور قریبی رشتہ داری کے باوجودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی پرتُلا رہا۔ابو لہب کی بیوی نے اس بلا جوازعداوت پراسے سمجھانے کے بجائے اس کا پورا پورا ساتھ دیا؛چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اوراس کی بیوی کو ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ تمام واقعات بیان کرکے بندگانِ مومن کواس بات کا سبق دیا کہ اعدائے دین کے دنیا میں چند روزہ مادی عروج کی وجہ سے اہل ایمان کواللہ تعالیٰ سے بدگمان نہیں ہوناچاہیے۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 196 میں کافروں کی معاشرتی اور دنیاوی سرگرمیوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا: ''آپ کوکافروں کے شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے ‘‘۔
آج کے اس مادی دور میں کئی لوگ مسلمانوں کے مادی زوال کی وجہ سے ان کی حوصلہ شکنی کر کے انہیںاسلام سے بدگمان کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔اہلِ اسلام کوچاہیے کہ اپنی مادی کمزوریوں کواللہ کی طرف سے آزمائش سمجھیں اور اخروی فلاح اور نجات کو حقیقی کامیابی سمجھیں۔
اس پوری بحث کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کو دنیا میں ترقی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیںاخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ترقی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اورسورۃ بقرہ کی آیت نمبر 201 میں مذکور دعا پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے کہ''اے ہمارے پروردگار!ہمیں دنیا میں بھی اچھا عطا کر اور آخرت میں بھی اچھاعطاکراورہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘۔ مسلمانوں کے پیش نظر یہ حقیقت بھی رہنی چاہیے کہ موجودہ آزمائش اور زوال کی ایک بڑی وجہ دین سے دوری بھی ہے۔ اگر مسلمان ایمان اور عمل صالح کی شاہراہ پر چل پڑیںتو سورۃ نور کی آیت نمبر 55کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ اور تمکن ضرور عطا فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا حقیقی مالک ہے اور جسے چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے غلبہ عطا فرمادیتا ہے۔اگرچہ وہ اپنے بندوںکی آزمائش کرتا ہے لیکن آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو زمین پرغٖالب بھی کر دیتا ہے۔ زمین کے اقتدار پر صرف فرعون اورنمرود صفت حاکموں کی اجارہ داری نہیں بلکہ زمین پر حضرت یوسف ،حضرت داؤد،حضرت سلیمان علیہم السلام جیسے انبیاء اورجناب طالوت ، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان ،حضرت علی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضوان اللہ اجمعین جیسے صلحا کی حکومت بھی رہی ۔
گردش ایام اوردوران شام و سحر، جہاں اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا پیغام لے کر آتے ہیں وہیں پر ایمان وعمل کے راستے پر استقامت اختیار کرنے والوں کے لیے فتح ونصرت کی بشارت بھی لے کر آتے ہیں۔ مسلمانوں کا کام سیدھے راستے پر چلنا ہے، اہل ایمان کو سچائی، امانت اور دیانت کے راستے پرکاربند رہنا چاہیے اورحالات کے مدوجزر، سماج کے غلط رجحانات اور بدعمل شخص کے مادی عروج سے متاثر ہو کر اپنے صحیح اہداف اور مثبت راستے سے دور نہیں ہونا چاہیے۔