ڈاکٹر روون ولیم آرچ بشپ آف کینٹر بری اور انگلیکن چرچ کے سربراہ ہیں ۔ تقریباً چھ برس قبل انہوں نے رائل کورٹ آف جسٹس میں اپنے خطاب کے دوران کہا تھا کہ انگلستان کے مسائل حل کرنے کے لیے اسلامی شریعت نافذ کرنا ہوگی۔ان کے اس بیان سے انگلستان میں زلزلہ بپا ہو گیا کہ ایک تجربہ کار مسیحی رہنما نے اپنے خطاب میں کس قسم کا بیان دے دیاہے ۔ ڈاکٹر روون ولیم سے کئی باراس بیان پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا لیکن وہ اپنے بیان پرقائم رہے اورمعذرت بھی نہ کی ۔10ستمبر 2013ء کو بھارتی جنتا پارٹی کی مرکزی لیڈر ڈاکٹر سشما سوراج نے زنا بالجبر کی وارداتوں کی روک تھا م کے لیے بیان دیا تھاکہ اس قسم کے جرائم میں ملوث افراد کوسزائے موت دی جائے۔انہوں نے براہ راست نہیں لیکن بالواسطہ طور پر زنا بالجبر کی روک تھا م کے لیے اسلامی قوانین کی افادیت کو تسلیم کیا تھا ۔اسلامی قوانین کے بارے میں اگرچہ دنیا میں مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں لیکن گاہے اس طرح کے بیانات سے یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ انسانیت کے بگاڑ کا اصل علاج آج بھی کتاب و سنت ہی کے قوانین میںموجود ہے۔
عمومی اعتبار سے مسلم دنیا اسلامی قوانین کی برکات سے محروم ہے لیکن جہاں کہیں بھی یہ قوانین نافذکیے گئے وہاں جرائم میں واضح کمی واقع ہوئی ۔افغانستان میں عرصہ دراز تک منشیات کی سمگلنگ پرکوئی پابندی نہیں تھی، لیکن جب ملامحمد عمرافغان حکومت کے سربراہ بنے تو اسلامی قوانین کا نفاذہوا جس کی بدولت منشیات کی تجارت یکسر ختم ہو گئی ۔ ناقدین عموماًطالبان کوحد درجہ قدامت پسند سمجھتے ہوئے انہیں زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان پر انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پامالی کا الزام دھرتے ہیں لیکن سنڈے ایکسپریس میں کام کرنے والی معروف صحافی ایوان ریڈلی جب ستمبر 2001ء میں کچھ عرصے کے لیے طالبان کی قید میں رہیں تو انہوں نے طالبان کے طرزِ عمل سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا تھا۔ایوان ریڈلی کا قبول اسلام اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ اسلامی قوانین اور طرزِ زندگی میں آج بھی وہ کشش موجود ہے کہ ہردیانتدار اور ہوشمند انسان ان کی افادیت اور اثر انگیزی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اسلامی قوانین کے بارے میں ناقدین کے اعتراضات کی بہت بڑی وجہ سطحی قسم کی معلومات ہوتی ہیں ۔کئی مسلمان رہنما بھی مستشرقین کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسلامی قوانین کو شدت پسندی کا مظہر سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کی ایک نمایاں سیاسی شخصیت نے بھی ایک مرتبہ اسلامی قوانین کو قرون وسطیٰ کی وحشیانہ سزاؤں سے تعبیر کیا تھا؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی قوانین کا بنیادی مقصد مجبور انسانوں کو ظالموںکے جبر سے نجات دلانا ہے۔ ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہوگا کہ قتل کی سزا حرمتِ جان، زنا کی سزا حرمتِ نسب،قذف کی سزا حرمتِ ناموس ،چوری کی سزا حرمتِ مال اور شراب کی سزا حرمتِ عقل کے لیے ہے۔
اسلامی قوانین کا خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ ان کا معاشرے کے تمام طبقات پر یکساں اطلاق ہوتا ہے اور اس ہمہ گیر اطلاق کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی ہے ۔ جب لوگ کھلی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہد ہ کرتے ہیںکہ جرائم کا ارتکاب خواہ کسی بھی سطح پر ہو، مجرم کو قرار واقعی سزا ملے گی توان میں جرائم کا ارتکاب کرنے کی ہمت ہی باقی نہیں رہتی ۔
بخاری شریف میں مذکورہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کی تو اس قبیلے کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب صحابی اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفارش کے لیے آپؐ کے پاس بھیجا ۔ جناب اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺکی بارگاہ میں بنو مخزوم کی عورت کی سفارش لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سابق اُمتوں کی تباہی کی وجہ کو واضح فرمایاکہ جب ان میں کوئی عام آدمی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور جب کوئی با اثر آدمی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا ۔آپ نے اس موقع پر قسم اُٹھا کر کہا کہ اللہ کی قسم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (یعنی میری) فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوںگا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عدالت کی وجہ سے جزیرۃ العرب کے جرائم سے بھرے ہوئے معاشرے سے جرائم کا خاتمہ ہو گیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مجرم کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ مجرم خود ہی اپنے آپ کو احتساب کے لیے قانون کے حوالے کر دیتا تھا۔
اگرچہ مادیت پرستی نے اہل اسلام کو اسلامی قوانین سے دورکردیا ہے لیکن آج بھی جب کبھی اسلامی قوانین کے نفاذ کی عملی مثال سامنے آتی ہے تو انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ حال ہی میں ان قوانین کے اطلاق کی ایک عملی مثال سعودی عرب میں سامنے آئی ہے ۔ایک سعودی شہزادے نے کسی تنازع کے دوران اشتعال میں آکر ایک سعودی باشندے کو قتل کر ڈالا۔اس کے لواحقین نے انصاف کے لیے عدالت سے رجوع کیا توتحقیقات سے واضح ہواکہ واقعتاً شہزادے نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے؛ چنانچہ اس پر فرد جرم لگا دی گئی۔ شہزادے کے اہلخانہ نے سفارش کے لیے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز سے رجوع کیا تو انہوںنے مقتول کے ورثا سے رابطہ کیا اور انہیں دیت لے کر قاتل کومعاف کرنے کی اپیل کی۔مقتول کے ورثادیت لینے پر رضا مند نہیںہوئے اور انہوں نے خون کا بدلہ خون پر اصرار کیا ۔ شہزاد ہ سلما ن بن عبدالعزیز دکھی خاندان کے اصرار کی وجہ سے دیت کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے۔ شہزادے کے اہل خانہ کا مشاہدہ تو یہی تھا کہ اس قسم کے تنازعات میں جب عام سعودی شہری قاتل ہوتا ہے توشاہی خاندان کئی بار مقتول کے ورثا کودیت دے کر راضی کر لیتا ہے ۔ان کی سوچ تھی کہ اس مرتبہ بھی مقتول کے ورثا کو دیت دے کر راضی کر لیا جائے گا ۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مقتول کا خاندان قصاص لینے پر بضد ہوگا۔ شہزاد ے اوراس کے اہل خانہ نے شاہی خاندان کے ایک اور سرکردہ شہزادے محمد بن نائف سے رجوع کیا توانہوں نے سفارش کرنے سے معذرت کرلی اور کہا کہ قوانین شریعت کا اطلاق یکساں ہوگا، کوئی شاہ ہو یا شہزادہ اسے جرم پر معافی نہیں مل سکتی ۔ مقتول کے اہل خانہ کے راضی نہ ہونے کی وجہ سے عنقریب شہزادے کوقتل کر دیا جائے گا۔فی الحال شہزادے کا نام مخفی رکھا گیا ہے تاکہ کیس پر کوئی اثرانداز نہ ہوسکے۔ سعودی عرب سے کوئی اتفاق کرے یا اختلاف لیکن یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ سعودی عرب میں قانون کی حاکمیت کی وجہ سے جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابرہے ۔
پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اس سلسلے میں سعودی عرب کے طرزِ عمل سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف صاحب اپنی جلاوطنی کے ایام کا بڑا حصہ سعودی عرب اور برطانیہ میں بسر کرکے آئے ہیں،ان دونوں ممالک میں قانون کی حاکمیت مثالی ہے لیکن افسوس ہے کہ تاحال ہمارے ملک میں قانون کی بالا دستی نہیں ہے، ریمنڈڈیوس اور شاہ زیب قتل کیس جیسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن میں مجرم کو قرار واقعی سزا نہیں مل سکی اور لواحقین کو ڈرا دھمکا کر دیت لینے پر مجبورکردیا گیا ۔وزیر اعظم پاکستان کو اپنے مشاہدات کی روشنی میں قوانین شریعت کے نفاذ کے لیے قدم اُٹھانا چاہیے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے ۔