گزشتہ سال جنوری میں،میں انگلستان کے دورے پر تھا،رات گئے لندن میں ایک پروگرام سے فارغ ہو کر آرام کی غرض سے اپنی قیام گا ہ میں داخل ہوا ۔کچھ دیربعد موبائل کی رنگ ٹون سے اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔ میں نے کال وصول کی، دوسری طرف پاکستان سے میرے قریبی دوست اور معاون حافظ محمد علی یزدانی لائن پر تھے۔اگرچہ ہم فارغ اوقات میں اکثروبیشتر رابطے میں رہتے ہیں، لیکن رات گئے ان کی کال میرے لیے غیر متوقع تھی، میں نے تعجب کا اظہار کیا تو حافظ صاحب نے بجھے ہو ئے لہجے میں افسوسناک خبر سنائی کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد قضائے الہٰی سے انتقال فرماگئے ہیں۔
دیار غیر میں یہ افسوسناک خبر میرے دل و دماغ کے لیے انتہائی بوجھل ثابت ہوئی ۔دنیا کی بے بضاعتی اور انسانیت کی فنا کا احساس میرے دل پر انتہائی گہرا ہوگیا ۔قاضی حسین احمد کے ساتھ گزرے ہوئے بہت سے لمحات کی یادیں اور تصورات میرے دماغ کی سکرین پر چلنا شروع ہو گئے۔1987ء سے 2012ء تک کے مختلف واقعات میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ۔مارچ 1987ء میں میر ی عمرفقط 15سال تھی ۔والد گرامی علامہ احسان الہٰی ظہیر جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل اور قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی کے سیکرٹر ی جنرل تھے ۔علامہ احسان الہٰی ظہیر ضیاء الحق کی پالیسیوں کے بہت بڑے ناقدتھے جبکہ جماعت اسلامی ان دنوں جنرل صاحب کے بارے میں بہت نرم گوشہ رکھتی تھی جس کی وجہ سے والد صاحب اور جماعت اسلامی کے سیاسی معاملات ایک دوسرے سے یکسر جدا تھے ۔اُن دنوں میں مولانا سمیع الحق ،قاضی عبداللطیف اور قاضی حسین احمد نے سینٹ میں شریعت بل منظوری کے لیے پیش کیا تھا اور اس کی حمایت کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں ۔والد صاحب کایہ خیال تھا کہ اس دفعہ بھی جنر ل صاحب اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے شریعت بل اور علما ء کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔شریعت بل کی کئی شقوں سے ان کو علمی اختلافات تھے اس لیے وہ اس کے ناقدین میں سے تھے ۔بل پر ہونے والی کش مکش نے دینی طبقوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اور علامہ احسان الہٰی ظہیر نے شریعت بل کے حوالے سے مختلف عوامی اجتماعات میں ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھاجس سے ماحول میں گرمی پیداہوگئی تھی ۔اس تناؤ والے ماحول میں ایک روزنامے نے ایک فورم کا انعقاد کیا جس میں والد صاحب اور قاضی حسین احمد بھی شریک ہوئے ۔ قاضی حسین احمد نے شریعت بل کی حمایت جبکہ والد صاحب نے اس کی کمزوریوں کو واضح کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز میں خوب دلائل دیے ۔والد صاحب نے اس موقع پر قاضی حسین احمد صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ علماء کے 22نکات کی موجودگی میں نفاذ شریعت کے لیے کسی نئی دستاویز کی ضرورت نہیں ۔اگر دینی طبقات نفاذ شریعت میں مخلص ہیں تو ان کو جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے 22نکات کو نفاذ شریعت کے لیے قانونی دستاویز کے طور پر منظور کروانا چاہیے ۔ قاضی حسین احمد نے بھی اس موقف کی تائید میں گرمجوشی سے دلائل دیے ۔ اس مذاکرے کے چند روز بعد والد صاحب کے جلسے میں بم دھماکہ ہو گیا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔والد صاحب کے انتقال کے وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا ۔میں نے اپنے تعلیمی سفر کوآگے بڑھانے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیااوربعد ازاں حفظ قرآن کے مراحل مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہورمیں داخل ہو گیا ۔والد صاحب کا انتقال والدہ کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا ۔آپ ان کے انتقال کے صرف پانچ برس بعد جنوری 1992ء میں دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔آپ کی وفات کے موقع پر محترم قاضی حسین احمد صاحب نے میرے نام ایک تعزیتی خط لکھا جس میں آپ نے انتہائی شفقت بھرے انداز میں میرے لیے صبراور سلامتی کی دعا کی ۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میرا طبعی میلان منبر و محراب کی طرف ہوگیا اور بعد ازاں مجھے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف فورمز پر شرکت کرنے کا موقع میسر آنے لگا۔اس دوران میری گاہے گاہے قاضی حسین احمد سے بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ان ملاقاتوں میں قاضی صاحب کا رویہ انتہائی مشفقانہ ہوا کرتا ۔والد صاحب کی زندگی کے آخری ایام میں اگرچہ قاضی صاحب سے زبر دست سیاسی اور تنظیمی اختلافات رہے لیکن قاضی صاحب ان کے علم اور خطابت کے زبر دست معترف تھے اور جب بھی ان کا ذکر کرتے نور اللہ مرقدہ کے الفاظ ضرور بولتے ۔قاضی صاحب کی فراخدلی سے ہمیشہ میں بہت متاثر ہوتا۔
پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالنے کے خلاف علمائے دین کا ایک اجتماع اسلام آباد میں منعقد ہوا۔اس اجتماع میں قاضی حسین احمد ،مولانا فضل الرحمن اور دیگر نمایاں مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مجھے بھی شرکت کا موقع ملا ۔میں نے اس اجتماع میں بڑے پر جوش اندازمیں اپنا موقف واضح کیا کہ اگر پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو نکال دیا جائے گا تو وہ لوگ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے اس کمی کی وجہ سے حج اور عمر ے کے اجتماعات میں شرکت کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ میںخطاب سے فارغ ہوا تو قاضی صاحب نے بڑے پر شفقت انداز میں میری حوصلہ افزائی کی۔ اسی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے اسلام آباد میں وکلاء نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں میاں نواز شریف ،عمران خان، مولانا فضل الرحمن ،قاضی حسین احمد ، چودھری اعتزاز احسن سمیت ملک کے نمایاں سیاسی رہنما شریک تھے ۔ اس موقع پر بھی جب میں نے تقریر کی تو قاضی صاحب نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔
قاضی صاحب کے پرشفقت رویے کی وجہ سے کئی مرتبہ میں ان کو ملنے منصورہ بھی چلا جاتا۔ان ملاقاتوں میں علمی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال ہوتا۔ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں میری اور قاضی صاحب کی مسلک اہلحدیث کے بعض امتیازی مسائل پر بات چیت ہوئی۔قاضی صاحب بزرگ تھے اور میں نوجوان،ہم دونوں قدرے جذباتی ہوگئے ۔تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ انہیں مجھ سے شفقت والااور مجھے ان سے احترام والا رویہ اپنانا چاہیے؛چنانچہ ہم موضوع بدل کر اُمت کے اجتماعی مسائل پر گفتگو کرنا شروع ہو گئے اورکچھ دیر بعد نشست ختم ہو گئی ۔ میرا خیال تھا کہ شاید آج کے جذباتی ماحول کے بعد ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہوسکے لیکن ٹھیک دو دن بعد صبح نو بجے مجھے قاضی صاحب کے دفتر سے کال موصول ہوئی کہ کل سعودی عرب کے وزیرتعلیم منصورہ آرہے ہیں ، قاضی صاحب نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا ہے اور مجھے شرکت کی دعوت دی ہے ۔ قاضی صاحب کی یہ دعوت میرے لیے حیران کن تھی ۔اگلے دن میں منصورہ پہنچا،متبسم ہونٹوں اور فراخ پیشانی کے ساتھ قاضی صاحب نے جب مجھ سے معانقہ کیا تو میں آپ کے بڑے ظرف اور کشادہ دلی کا مزید معترف ہوگیا ۔ قاضی حسین احمد اسلامی انقلاب کے بہت بڑے حامی تھے اور اس مقصد کے لیے اُمت مسلمہ کو تفرقہ بازی سے نکل کر اجتماعی جدوجہدکی دعوت دیا کرتے تھے ۔اس مقصد کے لیے آپ نے ملی یکجہتی کونسل قائم کی اوراس میں شمولیت کی باضابطہ دعوت دینے کے لیے واپڈا ٹاؤن میرے گھر تشریف لائے ۔ میں نے اس سلسلے میں قاضی صاحب کو اپنے تعاون اور خدمات کی مکمل یقین دہانی کروائی ۔قاضی صاحب سے زندگی کی آخری یادگار نشست اس وقت ہوئی جب شاد باغ میں ایک سکول کی سالانہ تقریبِ انعامات میں مجھے ان کے ساتھ مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔
قاضی صاحب اس دن مجھ سے میرے خاندان اور معمولات کے متعلق استفسار کرتے رہے۔ آپ نے اس ملاقات میں والد گرامی کے متعلق اپنے احساسات کا بھی بڑی گہرائی کے ساتھ ذکر کیا ۔ اس تقریب کے وہ آخری مقرر تھے ۔آپ کے خطاب سے قبل میری تقریر تھی، جب میں نے تقریر ختم کی تو میں نے ان کے چہرے پر ایسا تبسم دیکھا جو کسی خونی رشتہ دار کے چہرے پر اپنے خاندان کے نوجوان کو دیکھ کر آجاتا ہے ۔قاضی صاحب کی وہ بے اختیار مسکراہٹ مجھے ان کی قربت اور محبت کا احساس دلا رہی تھی ۔اگرچہ قاضی صاحب آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن میں تصورمیں ان کے پیار اور محبت بھرے وجود کی گرمجوشی کو بآسانی محسوس کر سکتا ہوں ۔