"AIZ" (space) message & send to 7575

ظلم اور بربریت کی انتہا

عدل کا مطلب ہے، ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھناجس کی وہ مستحق ہے(وضع الشیٔ علیٰ محلّہ) عدل کی ضد ظلم ہے اوراس سے مراد ہے چیزکواس کے مقام پر نہ رکھنا یعنی کسی کی حق تلفی کرنا(وضع الشیٔ علیٰ غیرمحلّہ)اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی دسویں آیت میں یتیموں کے مال اور وراثت کو ہڑپ کرنے والوں کو ظالم قرار دے کر ارشاد فرمایا: ''بے شک یہ لوگ اپنے پیٹ میں آگ جمع کرتے ہیں اور البتہ دوزخ میں جائیں گے‘‘۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے اس لیے کہ شرک کامرتکب اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا کراوراس کے اوصاف کوغیر اللہ کے لیے ثابت کرکے اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی کاارتکاب کرتاہے ۔ اسلام میں ظلم کی ہر صورت کی مذمت کی گئی ہے اور سورۃ مائدہ کی آٹھویں آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''تمہیں کسی قوم کی عداوت خلاف عدل پر آمادہ نہ کرے، عدل کرو جو پرہیز گاری کے ذیادہ قریب ہے اوراللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانوکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘۔
قرون اُولیٰ کے مسلمانوں نے اس آیت پراحسن طریقے سے عمل کیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ دشمنوں کے ساتھ بھی زیادتی نہ کی جائے ۔امام ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ نے اپنی تفسیر(ابن کثیر) میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہاں کے پھلوں اورفصلوں کا تخمینہ لگاکرآئیں۔یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ نرمی سے کا م لیں۔انہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیاد ہ ناپسندیدہ ہو لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس پرآمادہ نہیں کر سکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں ۔یہ سن کرانہوں نے کہا:''اسی عدل کی وجہ سے زمین اورآسمان کا نظام قائم ہے۔فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے غیر اقوام سے ایسامعاملہ کیاکہ دیگر مذاہب کے پیرو کاربھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اس طرح کا عدل وانصاف تو انہیں ان کے ہم مذہب لوگوں کے دوراقتدار میں بھی حاصل نہیں ہوا ۔
ظلم کی مذمت میں حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب مشہور قول کہ کفرکے ساتھ توحکومت باقی رہ جاتی ہے لیکن ظلم کی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی، سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔گو ظلم کی ہر قسم ہی قابل مذمت ہے لیکن بعض مظالم اتنے انسانیت سوز ہوتے ہیں کہ ان کہ اثرات صرف مظلوم پر ہی مرتب نہیں ہوتے بلکہ گردوپیش کے ماحول پر بھی ان ظالمانہ اقدامات کے تلخ اثرات سے افسردگی طاری ہو جاتی ہے۔اسی قسم کاانتہائی درجے کا ظلم گھریلو ملازمین کے ساتھ روا رکھاجانے والا پرتشدد سلوک ہے۔ہمارا معاشرہ روز بروزاخلاقی انحطاط کا شکار ہوتا جا رہا ہے اورنئے سال کے پہلے مہینے میں ہی اب تک گھریلو ملازمین کے ساتھ بہیمانہ تشدد کے چارالمناک واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں ۔
پہلا واقعہ:4جنوری کوتمام قومی اخبارات کے صفحہ اول پر خبر شائع ہوئی کہ لاہورکی شمالی چھاؤنی میں دس سالہ یتیم گھریلو ملازمہ کو صرف اس وجہ سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ معصوم بچی چولھے پر ابلتے ہوئے دودھ کو گرنے سے بچانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔دو تین سوروپے کے نقصان پرگھر کی مالکن نے معصوم ارم کو پانی والے پائپ کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایااور پھر اسی پائپ کے ساتھ اس کے نازک گلے کو دبا دیا۔مالکن نے اعتراف کیا کہ مار پیٹ کے دوران اسے پتہ نہ چلا اور بچی دم توڑ گئی ۔
دوسرا واقعہ:6جنوری کو فیصل ٹاؤن لاہورمیں پیش آیا۔موچی پورہ سے تعلق رکھنے والی ایک غریب عورت نے غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنی 13سالہ بیٹی عذرا کو 4ہزار روپے ماہوار پرایک گھر میں کام پر لگوادیا۔چند دن کے بعد مالکان نے مفلوک الحال عورت کو پیغام بھیجا کہ ان کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ وہ عورت جب اپنے غریب شوہرکے ساتھ مالکان کے پاس پہنچی توانہوں نے کہا ہم نے چھت پر جاکے دیکھا، وہاں آپ کی بیٹی بیہوش پڑی ہے۔والدین نے چھت پر جاکر دیکھا تو ان کی بیٹی کی لاش پڑی تھی اورگلے پر رسی کے نشانات تھے۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے گلے میں پھندا ڈال کر اسے قتل کیا گیا ہے۔کئی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ 
تیسرا اورچوتھا واقعہ 16 جنوری کو کراچی اورملتان میں رپورٹ ہوا۔ کراچی کے علاقے کلفٹن میں دس سال کے بچے ہریش چندکو مبینہ طور پرتشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ روزنامہ دنیامیں شائع ہونے والی خبر کے مطابق بچے کو دو ماہ قبل ملازمت پر رکھا گیا تھا،مالکان نے بچے پر چوری کا الزام لگا کر اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔بچہ اس تشدد پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر چھٹی منزل سے کو د گیا ۔سندھ اسمبلی کے ایک رکن نے زخموں میں لت پت بچے کو سڑک سے اُٹھاکر ہسپتال پہنچایا۔ہریش چند کے ساتھی اور واقعہ کے عینی شاہدین کے مطابق لڑکے نے جان بچانے کے لیے چھلانگ نہیں لگائی بلکہ مالک نے جان چھڑانے کے لیے یہ کہانی گھڑی ہے۔اصل واقعہ یہ ہے کہ بچے پر تشدد ہی اتنا کیا گیا تھا کہ اس کے بچنے کے امکانات معدوم ہو گئے تھے۔مالک نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اس کو زخمی حالت میں گھر کے سامنے والی سڑک پر پھینک دیا۔المیہ یہ ہے کہ اس واقعے کا ذمہ دار مالک مکان کوئی جاہل انسان نہیںبلکہ ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہے۔
ملتان میں خاتون ٹریفک وارڈن نے بیٹے کی مدد سے دس سالہ ملازم کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ماں اور بیٹا بچے کو الٹا لٹکا کراُس پر ڈنڈے برساتے رہے۔ شجاع آباد کے وحید کا غریب ہونا ہی اس کا سب سے بڑا جرم بن گیا ۔گھریلو حالات کی بہتری کے لیے دوہزارروپے پر کام کرنے والے ملازم کے گھریلو حالات تو بہتر نہ ہوئے لیکن جان ضرور خطرے میں پڑ گئی ۔انتہائی کم تنخواہ پر کام کرنے والے غریب بچے پر ملازمت کے تیسرے مہینے ہی موبائل چوری کا الزام لگ گیا جس کی برآمدگی کے لیے سفاک ٹریفک وارڈن اوراس کا بیٹا باری باری بچے پراپنا غصہ اتارتے رہے ۔شدید زخمی وحید کو ہمسایوںنے انسانی ہمدردی کے تحت اس کے والدین تک پہنچایا۔ٹریفک وارڈن نے نہ صرف یہ کہ الزامات کی تردید کی ہے بلکہ واقعہ کی ذمہ داری بھی ہمسایوں پر عائد کر دی ہے ۔تشدد کا نشانہ بننے والے بچے وحیدکو تشویشناک حالت میں ہسپتال کی انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے ۔
ان چاروں واقعات کی تفصیل پڑھ کریہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ ہمارا معاشرہ بالخصوص خوشحال طبقہ گھریلو ملازمین کو انسان سمجھنے پرآمادہ تیارنہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں۔آپؐ نے مسلمانوں کوتلقین کی تھی کہ جس طرح کا کھانا خود کھاتے ہیں اسی طرح کا غلاموںکو کھلائیں اور جس طرح کا لباس خود پہنتے ہیں اسی طرح کا انہیں پہنائیں۔اگر زر خرید غلاموں سے اتنے اچھے سلوک کی تلقین کی جارہی ہے تو وہ آزاد بچے جو اپنے والدین کی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے گھروںمیں کام کرنے پر مجبور ہیں کس قدر حسن سلوک کے مستحق ہوںگے۔
گو، ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ سطح غربت سے نیچے رہنے والے گھرانوں کی معاشی کفالت کرے اور ان معصوم پھولوں کی تعلیم و تربیت کا بنیادی حق انہیں واپس دلوائے،لیکن اگر ریاست اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی تو خوشحال گھرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان نازک اور معصوم بچوں کو صرف ملازم نہ بنائیں بلکہ ان کو معاشی محرومیوں سے نجات دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے دنیا آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے کی کوشش کریں ۔ غریب بچوں اوربچیوں کا استحصال کرنے والے قابل قابل نفرت عناصر کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔سطح انسانیت سے گرے ہوئے ان وحشی درندوں کو عبرت ناک سزاملنی چاہیے ۔اگر ان سفاک جانوروں کو آزاد چھوڑدیا گیا تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ہمارے غافل حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ دنیامیںاحتساب سے بچ بھی گئے توکل قیامت کے دن مالک ِیو مِ جزا کی ناراضگی سے نہیں بچ سکیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں