پاکستان اس وقت کئی طرح کے مسائل میں گھرا ہو ا ہے اور ہر مسئلہ ایک عفریت بن چکا ہے۔ حکمرانوں کے دعووں اور عوام کی تمناؤں کے برعکس مسائل بڑھتے جارہے ہیں ۔ان کا سیاسی تجزیہ اکثرکیا جاتا ہے،لیکن ضرورت ہے کہ ان کا روحانی تجزیہ بھی کیا جائے اور قرآن و سنت سے ان کے حل کے لیے رہنمائی لی جائے۔ قرآن کریم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے پتاچلتا ہے کہ ہمارے مسائل کی چند وجوہ درج ذیل ہیں:
1۔ گناہوں کی کثرت :قرآن مجید نے گناہوں اور مشکلات کے باہمی تعلق کوواضح کیا ہے۔سورہ شوریٰ کی آیت 30میں ارشادہوا:''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تو تمہارے ان اعمال کی وجہ سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں اور وہ بہت سے قصوروں سے درگزر کرتا ہے‘‘۔سورہ روم کی آیت 41میں ارشاد ہوا: ''خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے تاکہ اللہ ان کو ان کے کیے بعض کاموں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ واپس پلٹ جائیں‘‘۔ ان آیات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانوں کے گناہوں کے نتیجے میں معاشرے فساد اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان اقوام کا بھی ذکر کیا جو اپنے گناہوں کی وجہ سے تباہ ہوگئیں ۔ قومِ نوح ، قومِ عاد اور قومِ ثمود اپنی بد اعتقادی کی وجہ سے سیلاب، طوفان اور چنگھاڑکی زد میں آگئیں ، قوم لوط پرجنسی بے راہ روی کی وجہ سے آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور قوم مدین پر کاروباری خیانت کی وجہ سے اللہ کا عذاب آیا۔
آج اگر ہم اپنے گردوپیش میں دیکھیں تو ہمارے معاشرے میں اقوامِ سابق والی ساری برائیاں موجود ہیں۔بداعتقادی کی کیفیت یہ ہے کہ قوم ستارہ پرستی سے لے کر جادوٹونے تک مختلف قسم کے توہمات میں پھنسی ہوئی ہے ۔ بے حیائی کا چلن عام ہے، جسم فروشی کا دھندا اپنے عروج پر ہے، اخلاقی گراوٹ کا عالم یہ ہے کہ معصوم بچے بھی بداخلاقی سے محفوظ نہیں ہیں۔ کاروباری معاملات میں بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کو پامال کیا جارہا ہے ۔ شراب کی خرید و فروخت سے لے کرسودی لین دین تک ناجائز ذرائع سے فائدہ حاصل کرنے کی جدو جہد کی جارہی ہے ۔ ریس کے جوئے سے لے کر کرکٹ پر شرطیں باندھنے تک بڑے پیمانے پر احکام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ ان حالات میں اگر ہمارا معاشرہ فساد کا شکار اور ہمارا ملک مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے۔
اگر ہم ان مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں توہمیں کم ازکم تین تدابیر کو اختیار کرنا ہو گا:
(الف) توبہ :توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ بڑے سے بڑے گناہ معاف فرما دیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان کے آخری رکوع میں شرک،زنا اور قتل جیسے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا ۔فرمایا:''اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا ۔ قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گااور اسی میں ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا مگر جو شخص توبہ کرے ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے ساتھ بدل دے گا‘‘۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت 53میں ارشاد فرمایا:''کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہویقیناً اللہ تعالیٰ سب گناہوں کوبخش دیتا ہے‘‘۔
(ب) مغفرت کو طلب کرنا:توبہ کے علاوہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بخشش اور مغفرت کو طلب کرتے رہنا چاہیے ۔ استغفار بڑا بابرکت عمل ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے مغفر ت طلب کرنے کی تلقین کی اور ان کو اس عمل کے فوائد سے آگاہ کیا،اس نصیحت کو سورہ نوح میں یوں بیان فرمایا:''پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔ وہ آسمان سے تم پرخوب بارشیں برسائے گا اور مال اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں (جاری) کر دے گا‘‘۔
(ج)پرہیز گاری اختیار کرنا: جو شخص اللہ تعالیٰ کا ڈراختیار کرتے ہوئے نافرمانی کے معاملات سے اجتناب کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورہ اعراف کی آیت 96میںبیان فرمایا :''اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھو ل دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کو اس کے بدلے میں پکڑ لیا جو وہ کماتے تھے‘‘۔ تقویٰ ہی کے فوائد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں بیان فرمایا:''اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اس کو رزق وہاں سے دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا‘‘۔
2۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری : بستیوں ، شہروں اور اقوام کو جن وجوہ کی بنا پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں ایک بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے ۔ کفرانِ نعمت سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے ۔ سورہ ابراہیم کی ساتویں آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :''اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سبا کی بستی کا ذکر کیا جو ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنی۔ سورہ نمل کی آیت 112 میں اللہ تعالیٰ اس بستی کی کیفیت واضح فرماتے ہیں: ''اور اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتے ہیں جو پر امن اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق بہ فراغت اس کے پاس ہر جگہ سے آرہاتھا ۔ پھر تب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی ۔ پھر تب اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور خوف کا مزا چکھایا ان کے اعمال کے سبب جو وہ کر رہے تھے‘‘۔اگر ہم پاکستان کے حالات پر غور کریں تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیںکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا ۔خوبصورت موسم ،زراعت اور معدنیات کی نعمتوں سے بھرا ہوا ملک عطا کیا لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی، نتیجتاًہم مسائل کی دلدل میں دھنس گئے ۔اگر ہم اپنے مسائل سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو ہمیں شکر گزاری کا راستہ اختیار کرناہوگا۔اللہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت 147میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکرگزاری کرو اور ایمان لاؤ؟‘‘۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے انحراف : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ امت مسلمہ کے لیے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے ۔آپ فرد کی زندگی سے سماج اورریاستی معاملات تک ہمارے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔آپ کے طریقے سے انحراف کی وجہ سے امت مسلمہ بالخصوص پاکستان بحرانوں کا شکار ہے ۔ اللہ تعالیٰ سورہ نور کی آیت 63میں ارشادفرماتے ہیں:''پھر جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش یا دردناک عذاب آجائے‘‘۔اس سارے بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں آپؐ کی غیر مشروط اتباع کرنا ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت 21میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا‘‘۔ من حیث القوم قرآن وسنت کی تعلیمات سے روشنی حاصل کر کے ہم نہ صرف اپنی مشکلات کا درست تجزیہ کر سکتے ہیں بلکہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور ہم وطنوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ (آمین)