مذاکراتی ٹیم کو چاہیے کہ قیام امن کی کوششوںکو یقینی بنائیں اور ماضی میں پیدا ہونے والی بدگمانیوںکا ازالہ کریں۔ طاقت کے بے محابا استعمال کا مشورہ دینے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جب بھی کبھی داخلی مسائل مذاکرات کی بجائے طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی گئی‘ معاملات سلجھنے کے بجائے الجھ گئے
تیس جنوری کو اسلام آباد میں رحمۃ للعالمینﷺ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے نمایاں رہنما شامل تھے ۔ان میں مولانا ابوالخیر زبیر ،حافظ حسین احمد ،لیاقت بلوچ،سلطان احمد علی اور ثاقب اکبر نمایاں تھے ۔کانفرنس سے علماء کے علاوہ جنرل حمید گل نے بھی خطاب کیا ۔مختلف مقررین نے اپنے اپنے انداز میں نبی کریمﷺ کی صفتِ رحمۃ للعالمینی پر روشنی ڈالی ۔ راقم الحروف نے بھی اپنے جذبات اور خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا ۔ کانفرنس سے خطاب کرنے بعد لاہور آگیا۔واپسی کے سفرمیں سوچتا رہا کہ دنیا میں کسی بھی ہستی کی یاد نبی کریمﷺ کی یاد کی طرح تازہ نہیں ہے۔ آپﷺ کی یاد کے زندہ ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ نے خود سورۃ انشراح میں ارشاد فرما دیا کہ ''ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے‘‘۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو مجموعہ صفات وکمالات بنا دیا۔ آپﷺ کے جملہ کمالات میں سے آپﷺ کی رحمت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
نبی کریمﷺ انتہائی فیاض اورنرم خو تھے ، اپنے تو اپنے ، آپﷺ نے کبھی بیگانوں کے ساتھ بھی معاندانہ سلوک نہیں کیا۔ طائف کی وادی میں جب ظالموں نے آپﷺ کے وجود اطہر پر سنگ باری کی تو نبی کریمﷺ کا وجود مبارک لہو رنگ ہو گیا ، چہرہ مبارک سے لے کر قدم ہائے مبارک تک آپﷺ کا وجود خون میں ڈوبا ہوا تھا،ا س عالم میںجناب جبرائیل امینؑ اور پہاڑوں کا فرشتہ نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر آپﷺ چاہیں تو اللہ کے حکم سے طائف کی وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے، یہ مجھے پہچانتے ہی نہیں۔
نبی کریمﷺ کی رحمت ِبے پایاںکا عالم یہ تھا کہ جب عبداللہ بن ابی جیسے منافق کی موت واقع ہوئی اورنبی کریمﷺ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپﷺ نے خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے اپنا کرتہ مبارک اس کے وجود پر ڈال دیا اور اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے آمادہ ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ آپﷺ کس کا جنازہ پڑھارہے ہیں ؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے دعا ئے مغفرت کرنے کی وجہ سے اس کو معاف کر دے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپﷺ جنازہ پڑھانے کے قریب تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی اس آیت کا نزول فرما دیا: ''اگر آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں یا نہ کریں اور اگر آپ 70مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کریں ، پس اللہ تعالیٰ ہرگز ان کو معاف نہیںکرے گا‘‘۔اس موقع پر نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ میرے 71مرتبہ دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی خطاؤں کو معاف کردے گا تو میں 71مرتبہ بھی اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے لیے تیار ہوں ۔آج نبی ﷺ کے امتیوں کو اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تو چھوٹی چھوٹی زیادتیوں اور معمولی معمولی باتوں کو نظر انداز کرنے پرآمادہ نہیں ہوتے جبکہ نبی کریمﷺ نے اس کو بھی معاف کر دیا جو ہمہ وقت آپﷺ کی دل آزاری میں مصروف رہا۔
فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے جو اندازِ کریمانہ اختیار کیا اس نے آپﷺ کی رحمدلی کو جملہ کائنات کے سامنے واضح کر دیا۔ آپﷺ اس دن صاحب اقتداربھی تھے اور صاحب اختیار بھی ۔آپﷺ کے دشمن آپﷺ کے رحم وکرم پر تھے۔ برس ہا برس تک تکلیف دینے والے ظالم و جابر آپﷺ کے مقابلے میں بے بس ہو چکے تھے۔ نبی کریمﷺ نے اس موقع پر انتقامی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا بلکہ ان تمام دشمنوں کو معاف کردیا ۔نبی ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے زمین پرغلبہ عطا فرمایا تو آپﷺ نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو بزورِ شمشیر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ احسن انداز میں دعوت و تبلیغ کے عمل کو آگے بڑھایا ۔جبر کے بجائے دلیل و برہا ن کا راستہ اختیار کیا۔ حجۃ الوداع کے خطبے میں آپﷺ نے انسانی جان کی حرمت کو یوم عرفہ اور حرمین پاک کی حرمت کے مساوی قرار دیا۔ آپﷺ نے یہ پیغام الٰہی پوری عالم انسانیت کو منتقل کر دیا کہ ایک انسان کاناحق قتل پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی بقا میں پوری انسانیت کی بقاہے۔ آج ہمارا معاشرہ جس خلفشار اور انتشار کا شکار ہے اس کی بڑی وجہ رحمۃللعالمینﷺ کے پیغام رحمت سے دوری ہے ۔ آج مسلکی اختلافات کو علم اور دلائل کے پیرائے میں حل کرنے کے بجائے انتقام اور اشتعال کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔اس انتشار پر قابوپانے کے لیے جس تحمل اور بردباری کی ضرورت ہے وہ آج ہم میں نا پید ہو چکی ہے ۔
نبی کریمﷺ تو اغیار کو بھی معاف کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے لیکن آپﷺ کے نام لیوا ایک دوسرے کو بھی معاف کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہیں ۔رسول اللہﷺ کے تلامذہ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم ایک دوسرے کے لیے نرم اور کفار کے لیے شمشیر بے نیام تھے جبکہ آج کا ''مسلمان ‘‘ ایک دوسرے کے لیے شمشیر برہنہ اور اغیار کے لیے انتہائی نرم ہو چکا ہے۔ ہمارا ملک اس وقت جس قتل و غارت گری کا شکار ہے‘ اس کی اصل وجہ نبی رحمتﷺ کے فرمودات سے دوری اور بیگانگی ہے۔ غیر ملکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بات ہو تو قوم مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہے لیکن جب قبائلی علاقوں میں آپریشن کی بات ہو تو اس کے لیے سبھی تیارہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں جو اصول سمجھا دیا وہ ہر لحاظ سے واضح اور مسلّم ہے کہ مسلمانوں کے دو متحارب گروہوں کے درمیان صلح کروانی چاہیے اور اگر ایک گروہ صلح پر آمادہ نہ ہو تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرنا چاہیے ۔ اگر وہ اس کے بعد صلح پر آمادہ ہو جائے تو پھر اس باغی گروہ کے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس وقت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے قیام امن کے لیے جو راستہ اختیا رکیا وہ درست ہے اور ان کو اور ان کی مذاکراتی ٹیم کو چاہیے کہ قیام امن کی کوششوںکو یقینی بنائیں اور ماضی میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والی بدگمانیوںکا ازالہ کریں۔ طاقت کے بے محابا استعمال کا مشورہ دینے والے اس حقیقت سے غافل ہیں کہ جب بھی کبھی داخلی مسائل مذاکرات کی بجائے طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی گئی‘ معاملات سلجھنے کے بجائے الجھ گئے۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحے کا بڑا سبب بھی طاقت کا بے وقت اور غلط استعمال تھا ۔اگراس وقت صبر و تحمل سے بنگالیوں کے احساس محرومی کو دورکرنے کی کوشش کی جاتی تو قوم پرست بنگالی رہنما بنگالیوں کو اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب نہ ہو پاتے ۔ اگر ہمیں مذاکرات کے ذریعے کامیابی مل سکتی ہے تو طاقت کے استعمال کی ضرورت کیا ہے اور اس اہم نقطے کو سمجھنے کے لیے ہمیں رحمۃ للعالمینﷺ کی سیرت سے رہنمائی لینی چاہیے ۔