سیاسی راہنماؤں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے خلوص نیت سے کوشش کرنی چاہیے۔ نیت کی درستگی کے لیے لالچ اور خوف سے نجات حاصل کرنا بھی ازحد ضروری ہے
اعمال کی قبولیت میں نیت کا کلیدی کردار ہے ۔اگر نیت خالص ہو تو چھوٹا سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب بن جاتا ہے اور اگر نیت میں کھوٹ ہو تو بڑے سے بڑا عمل بھی فائدہ مند نہیں ہو سکتا ۔حدیث پاک میں مذکور ہے کہ کل قیامت کے دن جہنم میں جانے والوں میں ایک شہید ،قرآن کا قاری اور بہت بڑا سخی بھی ہوگا ۔اس کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ انہوں نے یہ اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی بجائے خودنمائی کے لئے کیے ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کو مسترد کر دیں گے ۔اسی طرح جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ کے لیے ہو گی اس کی ہجرت اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو گی جبکہ عورت اور مال کے لیے ہجرت کرنے والوں کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے انہوں نے ہجرت کی ۔انسان دوسرے انسانوں کو دھوکہ دے سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ دلوں کی حالت سے پوری طرح باخبر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ ہر عمل کرتے ہوئے اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے ۔
پاکستان کے بہت سے مسائل کا حل ریاست کے ذمہ داران کی نیت کے ساتھ وابستہ ہے ۔اگر حکومتیں اپنی نیت درست کرلیں تو پاکستان کے جملہ مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دنیا میں بہت سی اقوام جو معاشی طور پر پاکستا ن سے پیچھے تھیں اس لیے پاکستان سے آگے نکل گئی ہیں کہ انہوں نے اپنے معاملات کے حل کے لیے مخلصانہ اقدامات کیے۔
پاکستان کے سیاسی راہنماؤں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور پاکستان کی بقا اور ترقی کے لیے خلوص نیت سے کوشش کرنی چاہیے۔نیت کی درستگی کے لیے لالچ اور خوف سے نجات حاصل کرنا بھی ازحد ضروری ہے ۔کئی مرتبہ حکومتیں بیرونی دباؤ کا شکار ہو کر درست فیصلے کرنے سے قاصر ہو جاتی ہیں اور کئی مرتبہ بیرونی امداد بھی صحیح فیصلوں پر اثر انداز ہو تی ہے۔ ہماری حکومت کو قومی مفاد میں جرأت مندانہ اقدامات کرنے ہوں گے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے دباؤ اور لالچ کو قبول نہیں کرنا چاہیے ۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت امن کا قیام ہے ۔اگر پاکستا ن میں امن قائم ہو جاتا ہے تو خود بخودمعاشی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہو گی ۔اگر امن قائم نہ ہوا تو معاشی ترقی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔اس قیام امن کے لیے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں موجود احساس محرومی اور باغیانہ جذبات کا تدارک کرنا ہو گا ۔ داخلی مسائل کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوئی بھی کوشش احساس محرومی اور باغیانہ جذبات میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں کئی مرتبہ ملک ٹوٹ جاتے اور قوم تقسیم ہو جاتی ہے ۔پاکستان خود طاقت کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے ماضی میں اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو چکا ہے، اب ملک اس قسم کے حادثات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ملک میں موجود بگاڑاور انتشار کے خاتمے کے لیے حکومت کو مثبت اور موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
بعض ناعاقبت اندیش افراد پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر وقت آپریشن اور طاقت کے استعمال کی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر پاکستان کی فوج داخلی محاذوں پرسرگرم ہو گئی تو اس کا براہ راست فائدہ امریکہ او ر بھارت کو ہو گا جو ایک عرصے سے پاکستان کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے مختلف طرح کی سازشیں کرنے میں مصروف ہیں ۔
حکومت اور طالبان نے اس نازک صورتحال میں مثبت طرزِ عمل کا مظاہر ہ کیا ہے ۔حکومت نے چار رکنی با اختیار کمیٹی بنا کر طالبان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ معاملات کو طاقت کی بجائے مذاکرات سے حل کرنا چاہتی ہے ۔ طالبان نے بھی اس کمیٹی کے قیام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اپنی طرف سے مولانا سمیع الحق، عمران خان ، مفتی کفایت اللہ ،پروفیسر ابراہیم اور مولانا عبدالعزیز کو اختیار دیا ہے کہ وہ معاملات کے حل کے لیے اپنا کردار اداکریں۔ طالبان نے بھی اپنی سیاسی کمیٹی کا اعلان کیا ہے جو مذاکرات کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے ۔لیکن عین ان لمحات میں جبکہ مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں‘ خیبر پختو نخوا میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر ابھرتی ہوئی دکھا ئی دے رہی ہے ۔طالبان نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے اسے مذاکرات دشمن قوتوں کی سازش کا شاخسانہ قرار دیا ہے ۔
حکومت اور طالبان کو چاہیے کہ ان مذاکرات کو منطقی انجام تک پہچانے کے لیے قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھیں اور گروہی تعصبات اور مفادات کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہ بننے دیں ۔اس موقع پر اگر پوائنٹ سکورنگ ، انانیت ،خود پسندی یا بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا تو بنے بنائے مذاکرات ماضی کی طرح دوبارہ تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
قرآن مجیدنے ہمیشہ تنازعات کو پروان چڑھانے کی بجائے صلح جوئی کی حمایت کی ہے ۔سورۃ نساء کی آیت نمبر 128میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور صلح ہر حال میں بہتر ہے اور تنگ دلی تو نفوس میں رہتی ہی ہے اور اگر تم احسان کرو اور اللہ سے ڈر جاؤ تو یقینا اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو ‘‘آیت مذکورہ اس حقیقت کو واضح کررہی ہے کہ نفوس کی تنگ دلی اور بخل اگرچہ صلح کے راستے میں رکاوٹ ہیں لیکن صلح ہر صورت میں ایک بہتر عمل ہے اور جو شخص احسان والا رویہ اپنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے ۔اس وقت گروہی ، جماعتی اور ذاتی انا سے ایک قدم آگے بڑھ کر ملک و ملت کے مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل میں ملک کو افتراق ،انتشار ،نفرت اور خون ریزی سے بچایا جا سکے ۔
اربابِ اختیار کو سورۃ حجرات کی آیت نمبر 9کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ ''اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرادو ۔پھر ان میں اگر ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف کرو ‘‘۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صلح اور عادلانہ طرز عمل کی طرف رغبت دلائی ہے۔اگر طرفین اپنی انانیت کو پس پشت ڈال کر صلح اور عدل کی طرف مثبت طریقے سے پیش قدمی کریں تو برسوں سے جاری قتل و قتال اور خونریزی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔صلح کی طرف پیش قدمی کرنا اگرچہ ہر اعتبار سے مستحسن ہے لیکن بعض عناصر صلح کے عمل کو سبوتاژکرنے کے لیے بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان عناصر میں پاکستان میں قیامِ امن کی مخالف بہت سی داخلی اور خارجی طاقتیں ہو سکتی ہیں ۔ان سازشوں سے بچنافریقین کی ذمہ داری ہے ۔میں اس موقع پر مذاکراتی عمل کو بدگمانیوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے کے لیے اربابِ اختیار اور طالبا ن راہنماؤں کے سامنے سورۃ حجرات کی آیت نمبر6 رکھنا چاہوں گا ''اے لوگو !جو ایمان لائے ہو‘ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کو ئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو لاعلمی سے کوئی نقصان پہنچا دو ۔پھر جو کچھ تم نے کیا ہو‘ اس پر نادم ہو‘‘۔