جب سے سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ ہواہے‘ اس وقت سے دنیا حقیقی معنوں میں عالمی گاؤں کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے ۔اس ابلاغی عمل کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ مغربی ثقافت اور طرزِ زندگی کے اثرات ہمارے معاشروں میں بڑھ گئے ہیں ۔اہل مغرب اس حد تک معاشی الجھنوں کا شکار ہیں کہ روزمرہ زندگی میں اپنی اہم ذمہ داریوں کو مسلسل نبھانے کے بجائے مخصوص ایام منا کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔
والدین کی خدمت ہرذی شعور انسان کی ذمہ داری ہے لیکن اہل مغرب ، فادر ڈے اور مدر ڈے منا کر صرف ایک دن کے لیے ماں باپ کو مرکز نگاہ بنا کر سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو اداکر دیا ہے ۔ اسی طرح کے ایام میں سے ایک ویلنٹائن ڈے ہے۔اس دن اہل مغرب اپنے محبوب لوگوں سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ یورپی سماج میں صنفی محبت کا کلچر عام ہے اور اس کے لیے شادی بیاہ کی قیدنہیں لگائی جاتی ۔اگر نوجوان لڑکا یا لڑکی رضا مند ہوں تو بغیرنکا ح کے بھی ایک دوسرے کے ساتھ لمبے عرصے تک وقت گزار سکتے ہیں ۔ ویلنٹائن ڈے کے بارے میں معروف انگریزی شاعرچاسراورجان ڈن کے اشعار اور ہیملٹ میںشیکسپیئر کا کلام پڑھ کر اس حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ ویلنٹائن ڈے کی عمومی نسبت صنفی محبت کے ساتھ ہے اور اس دن کو والدین ، بہن ،بھائیوں اور بچوں کے ساتھ منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ مغربی معاشرے اور مسلمان معاشرے کی اخلاقی اقدار میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن جب اس طرح کے تیوہاروں کو عالمی سطح پرمنایا جاتا ہے تو اخلاقی اقدار کے درمیان فرق کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ بعض عیسائی چرچ بھی سینٹ ویلنٹائن کی یاد میں اس تیوہارکو مذہبی جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امتیوں کو غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے ، اس لیے ہمیں دونوں وجوہ کی بنیاد پر اس قسم کے تیوہاروں کو منانے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
ہمارے ملک میں معیاری مذہبی تعلیم کا زبردست فقدان ہے، اس کے علاوہ آزاد میڈیاکے ذریعے فحاشی و عریانی کو پھیلایا جاتاہے ۔ فیشن شوزاور میوزیکل نائٹس کے ذریعے بھی فحاشی وعریانی کے جال بنے جارہے ہیں ۔اس ساری صورت حال پر سنجیدہ اور ذمہ دار والدین پریشان ہیں کہ اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کا کیسا بندوبست کیا جائے کہ وہ برائی کی دلدل میں اترنے سے بچ جائیں۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ برائی کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائے شرعی اور اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اس میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے ۔ برائی کی روک تھام کے لیے قرآن وسنت میں مذکور بعض اہم تدابیر درج ذیل ہیں :
1۔ذکر الہٰی اور نماز کا اہتما م : اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے اور نماز کا پابندی سے اہتمام کرنے سے انسان کی سوچ میں مثبت تبدیلیاں آتی ہیں ۔سورہ عنکبوت کی آیت 45 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''بے شک نماز فحاشی اور بے حیائی سے روکتی ہے‘‘۔ بعض لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں پھربھی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو دیکھ کر عام آدمی کو بدگمان نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ ایسے لوگ عبادتاً نہیں بلکہ عادتاً نمازادا کرتے ہیں ، جب یہ لوگ عبادتاً نمازادا کرنا شروع کر دیتے ہیں تو خود بخود برائی سے دور ہو جاتے ہیں ۔
2۔اللہ تعالیٰ سے نیکی کی توفیق طلب کرنا: نفس انسانی میں بدی کا مادہ موجود ہے اور نفس امارہ انسان کو بدکرداری پراکسا تا رہتا ہے۔انسانی نفوس کو برائی سے بچاؤ کے لیے ہر وقت اللہ کے فضل اور رحمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سورہ نورکی آیت 21میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:''اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہو تو تم میں سے کبھی کوئی پاکباز نہیں رہ سکتا‘‘۔یہ آیت بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ انسان کو برائی سے بچاؤ کے لیے اللہ کے فضل اور رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے ۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے برائی سے بچاؤ کی دعا مانگا کرتے تھے ، لہٰذا اہل ایمان کو بھی ہمیشہ نفس کی اکساہٹ اور شیطانی سرگوشیوں سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے ۔اگر انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے توکوئی بھی شیطان صفت شخص اس کو صراط مستقیم سے نہیں بھٹکا سکتا ۔
3۔پردے کا اہتمام : اگر مسلمان عورتیں پردے کا اہتمام کریں تو اس سے برائی میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ پردہ کسی عالم کا اجتہاد یا فقیہ کی رائے نہیں بلکہ پردہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس کو تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب اور سورہ نور میں نازل فرمایا ہے۔ بعض لوگ آنکھ کی شرم اور دل کے پردے کی بات کرتے ہیں اور ان کی موجودگی میں حجاب اور نقاب کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں ، ان لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ قرون اُولیٰ کے مقدس مسلمان اور امہات المومنینؓ سے زیادہ کسی کی آنکھ میں شرم اور نیت میں تقدس نہیں ہو سکتا ۔ اگر قرون اُولیٰ کے معاشرے میں بسنے والے یہ لوگ پردے کا اہتمام کرتے رہے تو دور حاضر کے مسلمانوں کوبھی اس مسئلے میں کسی قسم کی رعایت نہیں مل سکتی۔
4۔نکاح میں غیر ضروری تاخیر سے اجتناب : اچھے ساتھی کی خواہش ہر انسان میں فطری طورپر موجود ہوتی ہے ، اس لیے اسلام نے تجرد کی زندگی کے بجائے شادی شدہ زندگی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہر صاحب حیثیت اور بالغ مسلمان کو نکاح کرنے کی رغبت دلائی گئی ہے۔ سورہ نور کی آیت 32 میں معاشی کمزوری کے باوجود نکاح کی ترغیب دے کراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر فقراء کا نکاح کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی فرمادے گا ۔ بعض لوگ اپنے پیشے کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اپنی اخلاقی حالت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی پاکدامنی کے تحفظ پر توجہ دینی چاہیے ۔رشتے طے پانے میں تاخیرکا ایک بڑا سبب ترجیحات کا غلط تعین بھی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ متمول رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیںاور نیک اور خوش اخلاق رشتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین داراور صاحب اخلاق لوگوں سے نکاح کی رغبت دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر ایسے لوگوں سے نکاح نہ کیا گیا تو زمین پر فتنہ اوربہت بڑا فساد ظاہر ہوگا ۔ عصری معاشروں میں شادی میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ جہیزاور دیگر ہندوانہ رسومات ہیں جن کی موجودگی میں نکاح انتہائی پیچدہ ہو چکا ہے اور اس کے مقابلے میں برائی کے راستے انتہائی آسان اور ارزاں ہو چکے ہیں۔
ان چار تدابیر کا تعلق تو عوام کے ساتھ ہے لیکن حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ برائی کی روک تھا م کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔حکومت کے ذمہ کم ازکم یہ تین اہم ترین کام ہیں۔۔۔ میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنائے، فحش ویب سائٹس پر پابندی لگائے اور قحبہ گری کے غیر قانونی اور غیر شرعی کاروبار کو فوری طور پر ختم کرے ۔ اس وقت پاکستان کے ہر بڑے شہر میں جسم فروشی کا کاروبار ہو رہاہے اور بہت سی طوائفیں معاشی طور پر مستحکم ہونے کے بعد جدیدرہائشی علاقوں میں اپنے اڈے قائم کر چکی ہیں ۔اس سارے کاروبار سے انتظامیہ اور پولیس غافل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جسم فروشی کا یہ ناجائز کاروبار پورے ملک میں شد ومد سے جاری ہے ۔ قرارداد مقاصد اور 73ء کے آئین میں اگرچہ قرآن وسنت کو سپریم لاء قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس سپریم لاء کی عملی تنفیذ کے لیے بہت سے کرنے والے کام باقی ہیں جن میںسر فہرست فحاشی اور عریانی کا خاتمہ ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو تباہی کی دلدل میں اترنے سے بچایا جا سکے۔