حرمین شریفین سے مسلمانوں کا روحانی و قلبی تعلق ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اگر ان کو موقع ملے تو حرمین شریفین کی زیارت ضرورکریں۔ پاکستان کے مسلمان حسب توفیق اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر سال پاکستانی حاجیوں اور عمرہ اداکرنے والوں کی ایک بڑی تعداد بیت اللہ، روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور مسجد نبوی شریف میں عبادت کرنے کے شرف سے بہرہ ورہوتی ہے ۔
حج اور عمرے کے علاوہ بہت سے لوگ روزگار کی نیت سے سعودی عرب جانے کی خواہش اس لیے رکھتے ہیںکہ معیشت کے معاملات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اللہ کاگھردیکھنے کا موقع بھی مل جائے گا ۔ سعودی عرب میں کئی ہزار پاکستانی مختلف نجی اور سرکاری اداروں میں ملازمت کررہے ہیںاور اپنی مادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی تشنگی دورکر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے دن سے جاری ہے اور ہر آنے والے دور میں اس آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے ۔
جس طرح یورپی ممالک میں قیام پذیر پاکستانیوں کی اکثریت وہیں کی ہوکر رہ جاتی ہے اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ سعودی عرب میں ملازمت اورکاروبار کی غرض سے جانے والے لوگوں کی اکثریت وہیں پر سکونت اختیار کر لیتی ہے اور جب تک ان لوگوں کو ملازمت سے فارغ نہ کیا جائے وہ ملک میں واپس آنے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوتے۔سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ہر دور میں مثالی رہے ہیں اوراس نے ہر مشکل مرحلے میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ شاہ فیصل مرحوم ایک آفاقی سوچ رکھنے والے راہنما تھے ۔ وہ امت کے درد مند اور سامراجیت کے زبردست مخالف تھے۔ پاکستان میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل مرحوم لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ،انہوں نے اس کانفرنس میں پاکستان کے لیے مثالی جذبات کا اظہار کرکے سقوطِ ڈھاکہ کے زخموں کو مندمل کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
شاہ فیصل مرحوم کے بعد شاہ خالد نے بھی پاکستان کے ساتھ بہترین وقت نبھایا اور بعد ازاں شاہ فہد کے دور میں یہ رشتے مضبوط سے مضبوط تر ہوتے رہے ۔ بین الاقوامی حالات خواہ کچھ بھی رہے ہوں پاکستان اور سعودی عرب کے موقف میں عمومی اعتبار سے غیرمعمولی ہم آہنگی رہی ہے ۔
28مئی 1998ء میں پاکستان نے علاقے میں بھارتی بالادستی کا راستہ روکنے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے تو پوری دنیا میں پاکستان کے اس عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بہت سے ممالک نے امریکی دباؤ پر پاکستان پر اقتصادی پابندیاں بھی لگادیں۔ ان بحرانی ایام میں سعودی عرب نے پاکستان کی مکمل سیاسی اور اخلاقی تائیدوحمایت کی اور پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ 2005ء میں بالا کوٹ اور شمالی علاقوں میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے خطرناک زلزلہ آیا اور ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوگئے ۔ تکلیف اور مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب نے پاکستان کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا اور شاہی خاندان نے زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے ایک ریلیف فنڈ قائم کیا اور بے گھر لوگوں کے دکھوں کے مداوے کے لیے فی الفور اپنی خدمات پیش کیں ۔
پاکستان بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں سعودی عرب کا ہم قدم رہا اور جب بھی سعودی عرب کو مختلف شعبوں بالخصوص عسکری شعبے میں تعاون کی ضرورت پڑی‘ پاکستان نے برادر اسلامی ممالک کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات پیش کیں ۔ حال ہی میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے دورے سے واپس آئے ہیں۔اس دورے کے دوران سعودی عرب میں انہیں نمایاں اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے اس دورے کے فوری بعد سعودی عرب کے ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر پہنچے ۔ان کے ہمراہ ان کی کابینہ کے تین دیگر سینئر ممبران بھی تھے ۔ سعودی ولی عہد کا یہ دورہ تجارتی اور عسکری شعبوں میں دونوں ممالک میں اشتراک عمل کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا ۔ بھر پور مصروفیات کے ان ایام میں بھی سعودی ولی عہد نے صرف حکومت پاکستان سے سرکاری سطح پر مذاکرات کرنے پراکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی آمد پر پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر عبدالعزیز غدیر نے پنجاب اور اسلام آباد میں پر تکلف عشائیے کا اہتمام کیا ۔ عشائیہ ایک بھر پور قسم کی سماجی اور سیاسی تقریب کی شکل اختیارکر گیا ۔ عشائیے میں وزیر اعظم پاکستان‘ وزیر اعلیٰ پنجاب ،مسلح افواج کے سربراہان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع الحق ،سید منور حسن ،محمود خان اچکزئی سمیت ملک کے نمایاں مذہبی اور سیاسی راہنماء موجود تھے ۔
مختلف میزوں پر بیٹھے احباب اپنے اپنے ذوق کے مطابق کھانا بھی تناول کر رہے تھے اور مختلف حوالوں سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ جس میز پر میں موجود تھا وہاں طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے بحث جاری تھی ۔امن کے قیام کے حوالے سے اچھی خواہشات کے ساتھ ساتھ بدامنی پر تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا تھا ۔محمود خان اچکزئی صاحب سے بھی اس حوالے سے گفتگو ہوئی، ان کا خیال تھا کہ روس کے چلے جانے کے بعد پاکستان کو افغانستان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی ۔ میں نے ان کی بات میں یہ اضافہ کیا کہ جنرل مشرف نے بھی اس معاملے کو پیچیدہ بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جنرل مشرف کو افغانستان پر حملے کے لیے امریکہ کواپنے ملک کے اڈے فراہم نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔ ہم دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں حصہ لے کرکچھ اس طرح الجھ گئے ہیںکہ تاحال اس جنگ سے جان نہیں چھڑوا سکے۔
اس گفتگوکے دوران میرے خیالات نے مجھے 1985ء کی طرف دھکیل دیا ۔ والد گرامی علامہ احسان الہٰی ظہیر کو عرب ممالک میں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔آپ نے 1985ء میں حج کا ارادہ کیاتو مجھے بھی شریکِ سفر بنایا لیا ۔ حج کی ادائیگی کے بعد ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اسلامی ممالک سے آنے والے علماء اور حکومتی عہدیداران کے علاوہ سعودی عرب کے علماء اور اعلیٰ عہدیداران بھی شامل تھے ۔اس پروقار تقریب میں‘میں بھی والد صاحب کے ہمراہ تھا۔ آپ اپنی گفتار اور عربی زبان پر دسترس کی وجہ سے مرکز مجلس بنے ہوئے تھے ۔ تقریب سے فراغت پر دیگر مہمانان کے ہمراہ ان کو بڑے پُرتپاک طریقے سے الوداع کیا گیا تھا۔ آج 29 سال بیت جانے کے بعد بھی اس تقریب میں میں ان کی کمی محسوس کر رہا تھا ۔ تقریب کے ختم ہونے کے بعد برآمدے میں جاتے جاتے میری ملاقات مولانا سمیع الحق ‘سید منور حسن ‘ مولانا فضل الرحمن‘ اعجاز الحق اور دیگر بہت سے نمایاں افراد سے ہوئی۔ سب احباب سعودیہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے اچھی امیدیں اور تمنائیں لئے رخصت ہورہے تھے۔ ولی عہد کے اس دورے سے توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان کو اس دورے کی وجہ سے اقتصادی اور عسکری شعبوں میں مضبوطی حاصل ہو گی ۔
میرے ذہن میں یہ خیال آرہا تھا کہ دھرتی کی محبت بھی کتنی عجیب ہوتی ہے کہ انسان خواہ کسی بھی مذہبی اور سیاسی فکر کا حامل کیوں نہ ہو‘ دھرتی کی سلامتی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا اور یہی وہ جذباتی تعلق ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود جب بھی پاکستان پرکوئی کڑا وقت آتا ہے تو ملک سے محبت کرنے والے تمام لوگ اس کے دفاع اورترقی کے لیے یکجا ہو جاتے ہیں۔ اس یکجائی کی وجہ سے انشاء اللہ ہمارادشمن خواہ کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرے ہمارے ملک اور قوم کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔