جب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ زیر بحث آیا ہے‘ اس وقت سے ملک کے مختلف طبقات اپنے اپنے انداز میں صورت حال کا تجزیہ کر رہے ہیں ۔ بعض دانشوروں اور سیاستدانوں کے نزدیک فوجی آپریشن سے مسائل حل ہو سکتے ہیں جبکہ بعض کی رائے میں داخلی محاذ پر فوج کو مصروف رکھنا ملکی مفاد میں نہیں ہے ۔ اپنے اپنے موقف کی حمایت میں دونوں گروہ متواتر دلائل دیتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ اس معاملے کا تعلق ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر جانی ضیاع کے ساتھ بھی ہے اس لیے دلائل دیتے وقت کئی مرتبہ فریقین میں سختی اور تندی آ جاتی ہے ۔ایک فریق کئی بار دوسرے کو خارجی اور باغیوں کا حامی جبکہ دوسرا پہلے کو امریکی اور سامراجی ایجنٹ قرار دینے سے گریز نہیں کرتا ۔ ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کیا جاتا ہے ؛ حالانکہ اس بحث میں حصہ لینے والے دونوں گروہوں میں ملک وملت سے محبت کرنے والے افراد بھی شامل ہیں جو پوری دیانت داری سے اپنی رائے پرکاربند ہیں۔
ہمارے معاشرے میں متعدد وجوہ کی بنا پر ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے جس سے قوت برداشت میں بتدریج کمی واقع ہو تی جا رہی ہے ۔ معاملات خواہ سیاسی ہوں یا مذہبی ، دوسروں کی رائے کو فراخ دلی سے سننے اور قبول کرنے کی روایت میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ رویہ ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ،اس طرز عمل سے جہاں نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں تعمیری سوچ اور مفید آراء کے اظہار میں بھی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں ۔ ان رویوں کے فروغ میں الزام تراشی نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ الزام تراشی فکری اور علمی ترقی کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ اچھے تجزیات اور تجاویز سے محروم ہو جاتا ہے ۔ حریت فکر اور آزادیِ اظہار کسی بھی معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اور یہ ہر شخص کا فطری حق ہے کہ وہ اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات رکھنے میں مکمل طور پر آزاد ہو۔اظہار رائے پر پابندی لگانے سے انتہا پسندانہ رجحانات پروان چڑھتے ہیں ، اسی وجہ سے پاکستان میں موجود سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی اکثریت آزادی رائے پر یقین رکھتی ہے اور دوسروں کی رائے سننے پر آمادہ رہتی ہے ۔ ملک کی ہر جماعت اور طبقے کا یہ بھی بنیادی حق ہے کہ اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے ۔ آزادی اظہارکا مطلب ہرگز یہ نہیں ہو نا چاہیے کہ آپ کسی طبقے کے بارے میں بلا جواز نفرت کا اظہار کریں اور اس کے نظریات کے حوالے سے اس پر الزامات لگائیں ۔ اگر معاشرے میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو اس سے طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہو گا جو بڑھتے بڑھتے تصادم پر منتج ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت کو اس وقت تحریک طالبان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ حکومت کے بعض ناعاقبت اندیش وزراء اس مزاحمت کے حوالے سے جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں وہ کسی ایک گروہ کے خلاف دیے جانے والے بیانات تک محدود نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ تمام مذہبی طبقات اور جملہ اسلامی افکار کے خلاف دیے جانے والے بیانات کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ ملفوف الفاظ میں کبھی داڑھی اور کبھی پردے پر تنقید کی جاتی ہے ، کبھی لفظ شریعت کو کسی مخصوص طبقے کے ساتھ منسوب کر کے مخالفانہ بیانات دیے جاتے ہیں ۔ شریعت تو اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور قوانین کے مجموعے کا نام ہے اور اس پرعمل پیرا ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری اور اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنا ہرکلمہ گو کا فرض ہے۔ اس معاملے کو کسی گروہ سے منسلک کرکے خود کو اس سے لا تعلق ظاہر کرنا کسی طور پر دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔
حال ہی میں وفاقی وزیر ریلوے جناب سعد رفیق نے ایک ایسا ہی غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے جسے پڑ ھ کر دل آزاری ہو ئی ہے ۔ وزیر موصوف نے اسٹیشن مینیجرز اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو ملائیت سے خطرہ ہے اور انتہا پسندی کی وجہ سے ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ۔ خواجہ صاحب کا یہ بیان ان کی ماضی کی جدوجہد کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مال روڈ لاہور پر حرمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے ایک بڑی احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں شرکاء نے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ بھی کی تھی ۔ توڑ پھوڑکرنے والے عناصر یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں تھے اور ان کا یہ اقدام اسلام کی روح کے منافی تھا ۔ بعدازاں سی سی ٹی وی کی فوٹیج کی روشنی میں جن لوگوں کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ان میں مسلم لیگ نون کے خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری صاحب بھی شامل تھے ۔ اس حوالے سے انہیں کچھ دیر جیل بھی کاٹنا پڑی تھی ۔ خواجہ صاحب جو آج کل فوجی آپریشن کے مکمل ہمنوا ہیں اور اس حوالے سے ملک میں کسی کی ڈکٹیشن قبول کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہیں،ان دنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو اسلام اور پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہے تھے ۔ میں نے خود خواجہ صاحب کو جنرل مشرف کے افغانستان پر حملے کے لیے امریکہ کو اڈے دینے پرکڑی تنقید کرتے ہوئے سناہے ۔ اس وقت ان کا یہ خیال تھا کہ جنرل صاحب کے اس قدم کی وجہ سے معاشرے میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ہے ۔ میاں صاحب ان دنوں جلا وطن تھے ، خواجہ صاحب اور مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤںکو ان دنوں میں جنرل صاحب کامقابلہ کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں اور علماء کی حمایت کی ضرورت تھی ، فوج جمہوریت اور آئین کے لیے خطرہ تھی اور علماء کی ملک کو اشد ضرورت تھی۔ آج چونکہ میاں صاحب برسراقتدار اور خواجہ صاحب وزیر ہیں اس لیے فوج پاکستان کے آئین اور دفاع کے لیے ناگزیر ہے جبکہ علماء ملائیت پھیلارہے ہیں اور ان کے وجود سے پاکستان کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ان کے راہنما جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے مکالمے اور تقاریر کچھ اور ہوتی ہیں اور جب یہ لوگ برسراقتدار آجاتے ہیں تو ان کے تیور ہی کچھ اور ہوجاتے ہیں ۔ گرگٹ کی طرح ان کے رنگ بدلتے دیکھ کر عوام بھی حیران و ششدہ رہی جاتے ہیں ۔پاکستان کو اسلام سے خطرہ ہے نہ علماء سے ، پاکستان کو حقیقت میں جھوٹ بولنے اور فساد پھیلانے والے موقع پرست سیاسی اور مذہبی راہنماؤں سے خطرہ ہے جو اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے ہر چیز فروخت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔
جس دن یہ سیاسی اور مذہبی راہنما قوم سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیں گے ،اس دن ملک کے تمام معاملات سدھر جائیں گے ۔ جو چیزیں کل غلط تھیں آج کس طرح درست ہو سکتی ہیں اور جو کل درست تھیں آج کس طرح غلط ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے سیاسی رہنما کل جس چیز کو غلط کہتے تھے آج اسے درست اورکل جس چیز کو درست کہتے تھے آج اس کو غلط کہہ رہے ہیں ۔اس طرز عمل نے قوم کو الجھن کاشکارکر دیا ہے۔
قوم بھانت بھانت کی بولیاں سن کر وحشت زدہ ہو چکی ہے۔ اقتدار پرست رہنما قوم کو راستہ دکھانے کے بجائے جھوٹ سچ بول کر اپنا وقت پورا کر رہے ہیں۔ اس رویے سے پاکستان کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں،نمائندہ قومی رہنماؤں کو شخصی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنی چاہیے ۔ ان رہنماؤں کو سورہ احزاب میں مذکور اللہ کے اس حکم کو مدنظر رکھنا چاہیے: ''اے ایمان والو اللہ سے ڈر جاؤ اور سیدھی بات کیا کرو ، اللہ تمہارے معاملات کو سنوار دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا‘‘۔ اگر ہمارے رہنما جھوٹ کا راستہ چھوڑکر سچائی کا راستہ اختیار کرلیں تو پاکستان کو درپیش سب سے بڑے خطرے سے نجات حاصل ہو سکتی ہے ۔