بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں،ان معصوم کلیوں کو بڑے پیار سے سنوارنا چاہیے۔ بعض لوگ بچوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ نازک سے وجود مرجھا جاتے ہیں ۔ جب ان بچوں کو پیار اور شفقت سے پالا جائے تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں ۔ نبی کریمﷺ نے بڑوں کی تکریم اور چھوٹوں پر رحم نہ کرنے والے لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا ہے ۔نبی کریمﷺ اپنے نواسے نواسیوں کے ساتھ پیار بھرا سلوک فرماتے تھے۔ آپ حالت سجدہ میں ہوتے توکئی مرتبہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما آپ کی کمر مبارک پر سوار ہوجاتے ، آپ سجدے کو صرف اس لیے لمبا کر دیا کرتے کہ انہیںتکلیف نہ پہنچے ۔ایک مرتبہ نبی کریمﷺ اپنے منبر مبارک پر موجود تھے کہ سیدناحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹھوکر لگی ، نبی کریمﷺ نے اپنا خطبہ روکا اورمنبر سے نیچے اترکر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُٹھا لیا۔ اسی طرح آپ اپنی نواسی حضرت امامہ بنت ابن العاص سے بھی انتہائی محبت بھرا سلوک کیا کرتے تھے ،کئی مرتبہ ان کواپنے دست ہائے مبارک میں اُٹھا لیا کرتے تھے ۔
نبی کریمﷺ کا یہ پیار بھرا سلوک صرف اپنے بچوں کے خاندان تک محدود نہ تھا بلکہ آپ اپنے خدام کے ساتھ بھی اسی شفقت بھرے رویے کا اظہار فرمایا کرتے تھے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ماجدہ نے انہیں نبی کریمﷺ کی خدمت کے لیے وقف فرما دیا تھا ۔ زندگی کے طویل برسوں کے دوران نبی کریمﷺ کبھی بھی ان سے ناراض نہیں ہوئے ۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گو آپ کے خدمت گار تھے لیکن آپ نے ان سے اتنی محبت والا معاملہ کیا کہ لوگ ان کو زید بن محمدﷺ کہنا شروع ہو گئے۔ رسول کریم ﷺ ذہین صحابہ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کمسنی کے باوجود اُمت کے نمایاں راوی حدیث اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کم عمری کے باوجود اُمت کے نمایاں ترین مفسر ہیں۔ان دونوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کو یہ مقام رسول ﷺ کی خصوصی شفقت کی وجہ سے حاصل ہو ا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے انتقال سے قبل ایک اہم لشکر کو نوجوان صحابی حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں روانہ فرمایا تھا۔ اس لشکر کی روانگی سے قبل ہی حضرت رسول اللہﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعدازاں خصوصی توجہ سے اس لشکر کو روانہ فرمایا تاکہ نبی کریمﷺ کی ہدایت پر عمل ہو سکے۔ نبی کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل ہو سکتی ہیں ؛ چنانچہ ہمیں بھی بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ یہ نونہال ملک و ملت کی پہچان بن سکیں ۔
حال ہی میں ایک انتہائی ذہین و فطین بچے رائے حارث منظور کے والدنے مجھ سے رابطہ کیا اورای میل کے ذریعے اپنے کمسن بچے کی کامیابی کے بارے میں بتایا۔ رائے حارث منظور کے کوائف پڑھنے کے بعد میں انتہائی مسرور ہوا کہ الحمدللہ ملک میں ایسے بچے موجود ہیں جو آنے والے برسوں میں ملک و ملت کا نام روشن کریں گے ۔رائے حارث منظورکی عمر صرف نو برس ہے اور اس نے اولیول کے امتحانات پاس کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ رائے حارث منظور نے ثابت کیا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو انسان کم عمری میں بھی تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے کر سکتا ہے ۔یہ ننھا بچہ مستقبل میںدین کی تعلیم سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ والد کی خصوصی شفقت نے بچے کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اس انداز میں بیدارکر دیا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کا سب سے کم عمر بیرسٹر بننے کے خواب دل میں بسائے ہوئے ہے۔ رائے حارث منظورکی کامیابی نے میرے ذہن میں ارفع کریم کی یاد تازہ کر دی ۔ فیصل آباد کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی کم عمر ارفع کریم مائیکروسوفٹ کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کر چکی تھی ، مزیدآگے بڑھنے اور اپنے ملک کا نام روشن کرنے کی لگن اور تمنا اس کے دل میں موجود تھی۔ افسوس کہ اس کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ کم عمری میں ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔اس بچی کی یاد پاکستانی قوم کے دل میں تازہ ہے ۔اس کی وفات کے بعد اس کے آبائی علاقے تاندلیانوالہ میں ایک پروگرام کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں اس علاقے کی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ میں نے بھی شرکت کی اوراس موقع پر بچوں اور نوجوانوں سے خصوصی اپیل کی تھی کہ انہیں مستقبل میں اپنے ملک کانام روشن کرنے کے لیے اپنے آپ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے ۔
جس قوم کے والدین بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وقف کرنا شروع کر دیتے ہیں اس قوم کے مستقبل کو لاکھ سازشوں کے باوجود تاریک نہیں کیا جا سکتا ۔ جس طرح عصری علوم میں بعض بچوں نے نمایا ں کامیابی حاصل کی اسی طرح دینی مدارس کے بعض طالب علموں نے بھی ماضی قریب میں غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ انہی طلبہ میں سے ایک ذہین طالب علم جس کی میرے سامنے نشوونما ہوئی قاری عبدالودود عاصم ہیں۔ قاری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تجوید اور قرأت کا ایسا غیر معمولی ملکہ عطا کیا ہے کہ جو شخص بھی ان کی تلاوت سنتا ہے مسحورہو جاتا ہے۔ ان کی آواز سن کر دلوں پررقت طاری ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہے ۔انسان اپنے آپ سے بیگانہ ہو جاتا ہے اور اس وقت ہوش میں آتا ہے جب قاری صاحب تلاوت موقوف کر دیتے ہیں ۔ جس وقت امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس پاکستان تشریف لائے تو قاری صاحب کی تلاوت سن کر بہت متاثر ہوئے ۔
حال ہی میں میرے برادر اصغرمعتصم الہٰی ظہیر نے اپنے دس سالہ بیٹے سہل الہٰی کی ذہنی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کو حفظ کرانے کا فیصلہ کیا ۔ ننھے سہل کی سکول کی کارکردگی غیر معمولی تھی‘ اساتذہ کی رپورٹ کے مطابق سہل الہٰی غیر معمولی حافظے کا مالک ہے؛چنانچہ پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے فوراً بعد بچے کو مدرسے میں داخل کروایا گیا ۔ بچے نے چند ماہ میں پورا قرآن پاک یاد کر لیا۔ قلیل مدت میں قرآن مجید یاد کرنے کی وجہ سے بچہ پورے خاندان کا منظور نظر بن چکا ہے اور خاندان کے دیگرگھرانوں میں بھی بچوں کا حفظ کرانے کا ذوق بیدار ہوا ہے ۔
کئی مرتبہ جب اپنے ملک میں بدامنی ،دہشت گردی ، لاقانونیت اور بے روزگاری کو بڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ذہن میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں جب ان ذہین وفطین بچوں کو دیکھتا ہوں تو قوم کے مستقبل کے حوالے سے پیدا ہونے والے اضطراب میں کمی واقع ہوتی ہے ۔اگر چہ ہمارے سیاسی ، سماجی اور معاشی افق پرمایوسی اور خوف کے سائے منڈ لا رہے ہیں لیکن یہ بچے اس خوف اور مایوسی کے ماحول میں روشنی اورامید کی کرن بن چکے ہیں اور اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری قوم کا مستقبل تاریک نہیں ہوگا بلکہ اللہ کے فضل سے علم ،حکمت، آگہی اور شعور کی برکت سے اندھیرے دورہوں گے اور آج کے یہ بچے جب قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دیں گے توعصر حاضرکی تکلیفوں کا مداوا ہوجائے گا ۔
اس وقت پوری قوم جس ذہنی اذیت اوراعصابی دباؤ کا شکار ہے اس سے نکلنے کی موثر صورت یہی ہے کہ ہم آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیارکریں۔اگر معاشرہ اپنے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کو احسن طریقے سے نبھانے کا عزم کرے تو آنے والا کل خود بخود بہت بہتر ہو جائے گا ۔یہ ننھے منے پودے جب ہماری توجہ سے شجر سایہ دار بن جائیں گے تو خود بخود جھلسا دینے والی معاشی اور معاشرتی تلخیوں سے نجات حاصل کرنے کے اسباب پیدا ہو جائیں گے ۔ہمیں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے آج ہی سے اپنی اولادپر توجہ دینی چاہیے تا کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کرادر ادا کرنے والے سماجی ، سیاسی اور مذہبی رہنما اورکارکن تیارکیے جا سکیں ۔