پارلیمنٹ لاجز میں اس ملک کے آئین کے پاسبان رہائش پذیر ہیں، وہ آئین جو قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتا ہے۔گویا پارلیمنٹ لاجز میں قرآ ن وسنت کے امین قیام پذیر ہیں۔آئین کے رکھوالوں کا کردار مثالی ہونا چاہیے تاکہ عوام ان کے کردار وگفتار کی روشنی میں اپنے کردار کی تشکیل کرسکیں۔آئین پاکستان کی شق 62,63میں ارکان پارلیمنٹ کی جس اہلیت کا تعین کیا گیا ہے اس کے مطابق کبیرہ گناہوں کا مرتکب کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا ۔
حال ہی میں پارلیمنٹ کے آزاد رکن جمشید دستی نے جو انکشافات کیے ہیں ان کے مطابق پارلیمنٹ لاجزنامی اقامت گاہ چرس ،شراب اور بدکرداری کے مرکزکا کردار ادا کر رہی ہے،ارکان پارلیمنٹ ملک و قوم کی ترقی کے لیے آئینی بحثوں میں حصے لینے کے بعد ان لاجز میں شراب اور شباب سے دل بہلا رہے ہیں۔ جمشید دستی کے مطابق کروڑوں روپے کی شراب پینے کے ساتھ ساتھ عوام کے یہ نمائندے حسن وعشق کے رسیا بن چکے ہیں ۔ مسلم لیگ کے ایک نمایاں رکن اسمبلی نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور اس الزام کو معزز ارکان کے خلاف پراپیگنڈے سے تعبیرکیا ہے ۔ جمشید دستی کو اپنے اس الزام پر اصرار ہے اوروہ اس سلسلے میں دستاویزی ثبوت پیش کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق تمام ارکان پارلیمنٹ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں بلکہ چند ارکان یہ معاملات چلا رہے ہیں ۔ تحقیقات کے بعد حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ان الزامات میں کس حد تک صداقت ہے؛ تاہم اس رپورٹ سے ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی حد تک اخلاقی حدود کو ضرور پاما ل کیا جارہا ہے ۔ ان معاملات پر ٹھنڈے دل سے غورکرنے کے بعد اخلاقی حدود سے تجاوزکرنے والے تمام معاملات پر قابو پانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح ہونے سے بچایا جا سکے۔
ہمارے سیاسی کلچر میں مالی بدعنوانیاں اکثر زیر بحث آتی ہیں اور مالی کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کو قومی مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن اخلاقی جرائم کے مرتکبین کو نظراندازکیا جاتا ہے اورکرپشن کی اس قسم کو ذاتی زندگی کا ایک باب قرار دے دیا جاتاہے ۔اشرافیہ کے اس غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے سماج پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔افسوس کہ بداخلاقی کے یہ معاملات وسیع پیمانے پر معاشرے میں رونما ہو رہے ہیں ۔
اس وقت ملک کے تمام بڑے شہروں میں بدکرداری کے اڈے اور بازار موجودہیں ۔ان بازاروں کواسلامی جمہوریہ پاکستان میں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے اوران اڈوں پر دھندہ کرنے والی طوائفوں کو اس کام سے روکنے کا کوئی موثر ذریعہ موجود نہیں ہے ۔ یہ بازاراوراڈے پاکستان میں ثقافت کی ترویج کے نام پرکام کر رہے ہیں ۔ ملک میں قائم اعلیٰ عدالتوں نے ایک مسلمان ریاست میں قحبہ گری کو روکنے کے لیے کبھی ازخود نوٹس نہیں لیا ۔اگر پاکستان کے کسی شہرمیں کبھی کسی کم عمر لڑکی کی شادی ہو جائے تو اسے روکنے کے لیے فوراً پولیس پہنچ جاتی ہے لیکن پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی سب سے بڑی اور تاریخی بادشاہی مسجد کے سائے تلے قائم برائی کے اڈوں کی روک تھام کے لیے پولیس 67برس سے سرکاری حکم کی منتظر ہے ۔
ماضی میں لال مسجد کے خطیب اور طالب علموں پر الزام تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں قائم مساج سنٹرزبند کرانے کے لیے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ میڈم شمیم کے کاروبار میں بے جا مداخلت کر رہے تھے ۔ لال مسجد کی انتظامیہ نے تو قانون سے تجاوز کرتے ہوئے ازخود برائی کے اڈوں کو بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والے یہ مساج سنٹر اور لڑکیوں کی ترسیل کرنے والے منظم گروہ نظر کیوں نہیں آتے؟مولانا عبدالعزیز کا قدم اگر خلاف قانون تھا تو کیا مساج سنٹرز اور لڑکیوں کی ترسیل کا کام قانون کے مطابق ہو رہا تھا؟
پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ابھرے سات دہائیاں مکمل ہونے والی ہیں، ان طویل برسوں کے دوران شراب کی درآمد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ، بڑے ہوٹلوں اور مخصوص مقامات پر شراب دستیاب ہے۔ شراب کی خریدو فروخت کے لائسنس بالعموم مسیحی برادری کے نام پر جاری ہوتے ہیں حالانکہ بائبل نے شراب پینے کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ دو برس قبل 25دسمبر کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی پر مذاکرے کا انعقاد کیاگیا،اس مذاکرے میں بشپ آف لاہورڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک بھی شریک تھے۔ میں نے ان سے گلہ کیا کہ مسیحی برادری کی وجہ سے ملک میں بڑے پیمانے پر شراب درآمد ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے برملا کہا کہ ہمارا تو صرف نا م ہی استعمال ہو رہا ہے حقیقت میں تو شراب پینے والوں کی غالب اکثریت مسلمان ہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب معاشرے میں موجود اخلاقی برائیوں کی ایک ہلکی سی تصویرکشی تھی ۔
اخلاقی جرائم کے حوالے سے اس وقت عوام میں دو آرا ء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق اس قسم کے جرائم میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے جبکہ دوسری رائے کے مطابق یہ ہر شخص کا انفرادی عمل ہے اور ہمیں کسی کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔شخصی آزادی کے علمبردار عموماً راگ ا لاپتے نظر آتے ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ دین میں جبر نہ ہونے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص اپنی من مانی کرنے میں آزاد ہے اورجو اس کے جی میں آئے وہ کرتا رہے ۔ دین میں جبر نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں کسی غیر مسلم کو جبراً دائرہ اسلام میں داخل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی شخص کو اس کی مذہبی رسومات اور عبادت کی ادائیگی سے روکا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک اخلاقی جرائم کا تعلق ہے تو اسلام کی تعلیمات اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں ۔کوئی بھی شخص اگر جبراً یارضامندی کے ساتھ بغیر نکاح کے جنسی تعلق استوار کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہے اوراگر وہ غیر شادی شدہ ہو تو قرآنی حکم کے مطابق اس کو 100کوڑے لگنے چاہئیںاوراگروہ شادی شدہ ہو تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ایسے شخص کو سنگسارکردینا چاہیے۔اسی طرح اگر کوئی شخص شراب پیتا ہے تو اس کے لیے بھی 40کوڑوں کی سزا مقرر ہے ۔
اگر اسلام میں شخصی آزادی کامروجہ تصور موجود ہوتا تو زانی اورشرابی کبھی کسی سزاکے مرتکب نہ ٹھہرتے ۔اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں میں صرف مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ شامل نہیں بلکہ اخلاقی جرائم کی بیخ کنی بھی دراصل ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ جب تک مالی اور اخلاقی جرائم کی روک تھا م کے لیے حکومت ٹھوس اقدامات نہیں کرتی اس وقت تک اپنی مذہبی اورآئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی ۔