"AIZ" (space) message & send to 7575

قحط سالی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی حکمت عملی

پاکستان ایک عرصے سے مختلف قسم کی مشکلات اور مصائب کی زد میں ہے ۔ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری گھیر لیتی ہے۔ ان مصائب اور مشکلات کی بہت بڑی وجہ ہماری اجتماعی بداعمالیاں‘ بے اعتدالیاں اور دینی تعلیمات سے انحراف ہے۔اسی طرح ہماری حکومتوں کی بدنظمی بھی معاملات کی خرابی میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے ۔مغربی معاشروں میںمسائل اوروسائل کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ممکنہ مشکلات کاتجزیہ کرکے واضح حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ حادثات کی آمد سے قبل کی گئی منصوبہ بندی کی وجہ سے مشکلات کا سامناکرنا آسان ہو جاتا ہے ۔ 
ہمارے ملک میں عام طور پر سبھی معاملات میں لاپروائی برتی جاتی ہے ۔وسائل کو تعیشات اور تہواروں پر بری طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔ حادثے اور آفات کی صورت میں پوری دنیا سے امداد کے لیے اپیلیں کی جاتی ہیں۔ اپنی غلطیوں کا مادی تجزیہ کیا جاتا ہے‘ نہ ہی روحانی ۔مشکلات میں گھرے ہوئے پاکستان کے رہنما دیگر ممالک سے تعاون کی استدعا کرتے رہتے ہیں اور مشکلات کا عارضی حل ڈھونڈنے کے بعد مسائل سے لاتعلقی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس روش کی وجہ سے کسی قسم کی بہتری نہیں آتی اور دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ ہمسایہ ممالک چین اور بھارت مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی اعتبار سے پاکستان کے مقابلے میں اسی لیے زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔انہوں نے بین الاقوامی منڈیوں تک اپنی مصنوعات اور افرادی قوت کی منظم انداز میں ترسیل کی ۔ کوالٹی کنٹرول کے ذریعے کاروباری حلقوں میں اپنی ساکھ کو بہتر بنایا ۔قیمتی اور مہنگی ٹیکنالوجی کو سستے داموں عام صارف تک اس انداز میں پہنچایا کہ ہر چیز اس کی قوت خرید کے دائرے میں آتی جارہی ہے ۔
صنعتوں کو چلانے کے لیے بجلی کی مسلسل اور غیر منقطع ترسیل ازحد ضروری ہے۔ کسی بھی ملک میں توانائی کا بحران پیدا ہو جائے تو مصنوعات کی بروقت پیداوار کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس بحران کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ متبادل ذرائع اختیار کرنے کی وجہ سے مصنوعات مہنگے داموں تیار ہوتی ہیںاور بین الاقوامی منڈیوں میں اپنے تجارتی حریفوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتیں ۔
پاکستان کو اکیسویں صدی میں توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت میں کئی دفعہ دعویٰ کیا گیا کہ لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیا جائے گا‘ لیکن حالات میں کوئی بہتری نہ آسکی‘ بلکہ اس بحران میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا ۔موجودہ دور حکومت میں بھی تاحال بحران پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔اس بحران پر قابو پانے کے لیے حال ہی میں کچھ بین الاقوامی اداروں سے معاہدے کیے گئے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی حد تک قابو پالیا جائے‘ لیکن اس توقع کو حقیقت کے سانچے میںڈھالنا ناممکن نہیں‘ تو مشکل ضرور ہے۔ ہمارے سابق حکمرانوں سے بنیادی غلطی یہ بھی ہوئی کہ جوہری توانائی کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال نہیں کیا حالانکہ ابتدائی طور پر پاکستان کاجوہری پروگرام توانائی کی فراہمی ہی کے لیے قائم کیا گیا تھا ۔
پاکستان بنیادی طورپر زرعی ملک ہے لیکن زراعت کے شعبے کومنظم کرنے کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے گئے جن کے نتیجے میں اس سیکٹرکو منافع بخش بنایا جاسکتا۔جدید مشینری،جراثیم کش ادویات‘ ولائتی بیج اور یوریا کے استعمال سے زرعی پیداوار میں بہتری آئی ہے لیکن اس میں حکومت کی پالیسی سے زیادہ کاشت کار طبقے کی اپنی محنت اور حکمت عملی کا دخل ہے۔ 
قیام پاکستان کے بعد تقریباً ہر دور میں مختلف زرعی اجناس کی بروقت ترسیل سے کاشت کار طبقہ معقول منافع کمانے کے قابل رہا لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتوں کی سیاسی ترجیحات کی وجہ سے کاشت کار اضطراب کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اضطراب میں اضافے کی ایک بڑی وجہ پاکستانی حکومتوں کا بھارت کی طرف غیر معمولی جھکاؤ بھی ہے۔ بھارت کوآئے دن ایم ایف این کاسٹیٹس دینے کی باتیںہوتی رہتی ہیں۔ بھارت کے روپے کی قدر پاکستانی روپے کے مقابلے میںزیادہ ہے۔ بھارت پاکستان کی طرح توانائی کے بحران کا بھی شکار نہیں ۔وہاں افرادی قوت سستے داموں پر دستیاب ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے بھارت کو زرعی اجناس بھی پاکستان کے مقابلے میں سستے داموں میسر آرہی ہیں۔ اگر بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ حاصل ہو گیا تو جہاں دیگر مصنوعات پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں کم نرخوں پر دستیاب ہوں گی وہاں بھارت کی زرعی اجناس، سبزیاں اور پھل بھی پاکستان کے مقابلے میں کم قیمت پر مارکیٹ میںدستیاب ہوں گے۔ تاجر اور عام صارف پاکستانی مصنوعات اور اجناس پر کم قیمت پر بھارتی مصنوعات کو ترجیح دیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت مزید دباؤ کا شکارہوجائے گی۔ حکمرانوں کو اقتصادی پالیسیوں کوبہتر بنانا چاہیے تاکہ بھارت ثقافتی شعبے کے بعد معاشی اعتبار سے بھی ہم پر غالب نہ آجائے ۔
ہماری کمزور معیشت کا ایک بڑا سبب اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ بھی ہے۔ پرائم منسٹر یوتھ لون سکیم سے لے کر بینکوں تک ہونے والے سودی لین دین کی وجہ سے ہمارے رزق میںبرکت ختم ہو تی جارہی ہے ۔ہمارے حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کو سود کی لعنت سے نجات حاصل کرنے لیے کوئی موثرحکمت عملی تیار کرنی چاہیے ۔
حال ہی میں تھر میںپیدا ہونے والی غذائی قلت نے ایک مرتبہ پھر ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوںکی ناقص انتظامی صلاحیتوں کو واضح کر دیا ہے۔ اگرچہ غذائی قلت دنیا کے کسی بھی ملک میں پیدا ہو سکتی ہے لیکن متوقع غذائی قلت کا تخمینہ لگانا اور اس کے سدباب کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا حکومتوں ہی کی ذمہ داری ہے ۔ تھر کے قحط کی وجہ سے بوڑھے ،عورتیں اور معصوم بچے بڑی تعداد میں مر رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہاہے جب آبادی کا ایک بڑا حصہ یوتھ فیسٹیولز اور دیگر ثقافتی تہوار منانے میں مصروف ہے۔ ملکی آبادی کا ایک حصہ درآمد شدہ مشروبات پینے کا رسیا ہے جبکہ دوسرے حصے کو پینے کاصاف پانی بھی میسر نہیں ۔ماضی میں جب کسی علاقے میں قحط آتا تھا تو پوری قوم متاثرہ علاقوں کے دکھ درد کو محسوس کرتی تھی ۔لیکن اب صرف حکومتی سطح پر کام ہو رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنما اقتدار میں آنے سے پہلے خلافت راشدہ اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثالیں دیتے رہتے ہیں لیکن جب حقیقی معنوں میں کارکردگی دکھانے کا وقت آتا ہے تو بالکل پتھر کی مانند بے حس و حرکت ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں اُخروی فلاح کے مسلمہ اصول بیان فرمائے ہیں وہاں حکمرانوں کے حوالے سے بھی بہت سے امور کی وضاحت فرمائی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ اس واقعہ میں ہمارے غافل حکمرانوں کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ کا خواب سننے کے بعد اندازہ لگا لیا تھا کہ سات برس کے بعد ایک عالمگیر قحط دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے چنانچہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے آپ نے غذا کی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے سات برس میں اناج کی بھر پور طریقے سے تنظیم کی ۔ عوام کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سات برس تک اجناس کو محفوظ کرنے کی موثر اورمنظم حکمت عملی تیار کرلی؛ چنانچہ جب قحط نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا تو جناب یوسف علیہ السلام کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے صرف مصر میں ہی غذا کی ترسیل برقرار نہیں رہی بلکہ بہت سے قحط زدہ علاقے غذائی قلت کا مقابلہ کرنے کے لیے یوسف علیہ السلام کی قیادت میں چلنے والی ریاست مصرسے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اجناس کی تنظیم کا ایک ایسا نظام تیار کرنا چاہیے کہ بوقت ضرورت اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی غذائی قلت دور کرنے کے لیے ہمارا ملک اپنا کردار ادا کر سکے اور یہ تبھی ممکن ہو گاجب ہمارے حکمران اور پالیسی ساز ادارے کھلی آنکھوں سے مسائل کا تجزیہ کریں گے اور ان کے حل کے لیے روحانی اور مالی اسباب بروقت موثر طریقے سے استعمال کریں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں