"AIZ" (space) message & send to 7575

اہم معاملات پر سیاستدانوں کا ردعمل

اسلامی نظریاتی کونسل ملک کا ایک نمائندہ ادارہ ہے جس کاکام قرآن وسنت کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنا ہے تاکہ پارلیمنٹ قرآن وسنت کی روشنی میں قانون سازی کا عمل آگے بڑھا سکے ۔بسا اوقات نظریاتی کونسل کی سفارشات پرگرما گرم بحثیں اور فکر انگیز تجاویز اور تبصرے بھی کیے جاتے ہیں۔ ان تجاویز کی حمایت اور مخالفت میں کئی بار شدت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور مختلف طبقاتِ کے افکارونظریات کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔
حال ہی میں چیئرمین نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کے ایک بیان پر نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے ۔ مولانا نے کہا ہے کہ مردکو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی تحریری اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بیان آنے کی دیر تھی کہ لبرل افراد اور اداروں نے اپنی توپوں کا رخ مولانا، ان کے ہمنوا علماء کی طرف کر لیا ۔این جی اوز نے اسے عورتوں کی حق تلفی سے تعبیرکیا اور چیئرمین پیپلز پارٹی نے اس کو خواتین کے ساتھ ظلم قرار دیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اگر ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں مرد کو ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے وہاں اس کے لیے شرائط کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ ایک سے زائد شادیوں کو قرآن مجیدنے عدل سے مشروط کیا ہے اور کسی بھی بیوی کو معلق رکھنے یا نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کسی مقام پر شوہرکو بیوی سے اجازت لینے کا پابند نہیںکیا ۔ 
حضرت رسولﷺ کی حیات مبارکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک آئین اور دستور کی حیثیت رکھتی ہے ۔ نبی کریمﷺ نے کسی بھی نکاح سے قبل اپنی پہلی بیوی یا بیویوں کو آگاہ کرنا ضروری نہیں سمجھا ۔نبی کریمﷺ چونکہ مطاعِ کامل ہیں اس لیے کسی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ آپؐ کو اس حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے ۔ جب ہم نبی کریمﷺ کے رفقاء کے طرز عمل پر غورکرتے ہیں تو یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے اپنی بیویوں کے ساتھ عدل وانصاف والا معاملہ اختیارکیا لیکن کسی نئی عورت سے نکاح کرنے سے قبل پہلی بیوی یا بیویوں سے اجازت کو ضروری خیال نہیں کیا۔
نکاح کا بہت بڑا مقصد معاشرے کو صنفی بدامنی سے بچانا ہے۔اگر صنفی بدامنی کا اندیشہ ہو توایسی صورت میں مرد کے لیے دوسری شادی سے بہترکوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر فتنے یا بے راہ روی کا اندیشہ ہو تو مردکو اس سلسلے میں پہلی بیوی کی اجازت کا پابند بنانا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے ۔ اگر معاشرے میں ایک سے زائد شادیوں کو آسان بنا دیا جائے تو قحبہ گری اور جسم فروشی کے معاملات پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
این جی اوزکو ایک سے زائد شادی میں عورت کا استحصال نظرآتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیامعاشرے میں موجود برائی کے اڈے عورت کا استحصال نہیں ہیں؟ عورت کو اس صنفی تشدد سے نجات دلانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں لیکن جب کبھی ایک سے زائد شادی کا معاملہ سامنے آتا ہے تو معاشرے کے کئی طبقات اس کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔
ہمارے سیاستدان بھی بالعموم اس قسم کے معاملات میں این جی اوزکے ہمنوا بن جاتے ہیں۔دراصل اس معاملے کا تعلق صرف دوسری شادی کے ساتھ نہیں بلکہ دیگر بہت سے معاملات میں بھی ان کی آراء آزاد خیال لوگوں کے موافق ہوتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کے سربراہ مخدوم جاوید ہاشمی نے توہین رسالت کی روک تھام کے لیے نافذ قانون پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔تحریک انصاف کے بعض کارکنوں اور رہنماؤں نے مخدوم صاحب کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کا استعمال درست نہیں کیا جا رہا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ قوانین کا مقصد تو معاشرے میں بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کو روکنا ہوتا ہے۔اگر کسی قانون کا استعمال درست نہ ہو رہا ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قانون کو ختم کر دیاجائے۔ مقدمہ درج کرنے میں احتیاط کرنا اور غیر جانبدارانہ اور آزاد ٹرائل کا اہتمام کرنا ریاست اور اس کے ماتحت اداروں کی ذمہ داری ہے۔اگر کسی قانون کے نفاذ میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو ایسی صورت میں قانون کو تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ۔اگر قوانین کو اس اندیشے کی بنیاد پر معطل کر دیا جائے تو ایسی صورت میں متعلقہ جرائم کی روک تھام کے امکانات باقی نہیں رہیں گے ۔ ماورائے عدالت اقدامات کی روک تھام کے لیے موثر قوانین کا ہونا ازحد ضروری ہے ۔اگر ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین تمام جدید معاشروں میں نافذ ہیںتو توہین رسالت سے متعلقہ قوانین کو بھی ایک اسلامی معاشرے میں بہر صورت نافذ ہونا چاہیے ۔
حال ہی میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بیان دیا ہے کہ چھوٹی عمرکی شادی درست نہیں ہے۔ رانا صاحب اور ان کے ہمنواؤں کی معلومات کے لیے میں اس مسلّمہ تاریخی حقیقت کو ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما اور اسی طرح حضرت رسول اللہﷺ کی لخت جگر فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی عمر نکاح کے وقت پندرہ برس سے کم تھی۔ اسلام میں شادی کا معیارعمر نہیں بلکہ جسمانی اور فکری بلوغت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں مختلف ممالک میں نکاح کی قانونی عمرکا بآسانی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔جب ہم ترقی یافتہ دور میں نکاح کی قانونی عمرکا چارٹ دیکھیں تو اس حقیقت کو بآسانی جانچا جا سکتا ہے کہ بعض یورپی ممالک میںآج بھی نکاح کی قانونی عمر 13برس ہے۔اگر یورپ کے ترقی یافتہ معاشروں میںنکاح کی یہ عمر ہے تو ایک اسلامی ملک میں چھوٹی عمرکے نکاح پرکس طرح تنقیدکی جاسکتی ہے ۔ یہی حال فیملی پلاننگ کا بھی ہے۔دوبچوں کے ساتھ خوشحال گھرانے کے تصور کو فروغ دینے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں باقاعدہ ایک وزارت کام کرتی آرہی ہے۔ یہ وزارت اوراس کے ذیلی ادارے آبادی اور وسائل میں توازن برقرار رکھنے کے لیے تشہیری مہمیں چلاتے ہیں۔ اس تصورکو فروغ دینے والے اداروں سے سوال ہے کہ جہاںوسائل بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہوں وہاں آبادی اور وسائل میں توازن کی بحث ہی بے کار ہے ۔ تھر پارکر میں حال ہی میں جوغذائی قلت پیدا ہوئی ہے اس کا سبب غذا کی کمی نہیں بلکہ بدنظمی اور حکومتی نااہلی ہے ۔
ہمارے سیاستدان اسلامی تہذیب اور ثقافت کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں ۔انہیں اسلام کے اصولوں میں کوئی نہ کوئی کمی نظر آتی رہتی ہے ۔ ماضی میں ہمارے ملک کے ایک نمایاں سیاسی رہنما نے اسلامی سزاؤں کو قرون وسطیٰ کی وحشیانہ سزاؤں سے تعبیر کیا تھا؛حالانکہ قتل، چوری ، زنا اور دیگر جرائم کی سزاؤں کا بنیادی مقصد معاشرے کے تمام افراد کی جان ،مال ،عزت اور آبرو کا تحفظ ہے ۔
سیاستدانوں کا طرز عمل مذہبی طبقات کوان سے بدگمان کرنے کا سبب بن رہاہے۔ علماء اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان صرف اس دلاسے سے مطمئن نہیں ہوسکتے کہ آئین اور قرارداد مقاصد قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتے ہیں ۔
جس ملک میں سود کا چلن عام ہو ،بے حیائی کو فروغ دینے کے لیے تمام تر وسائل و ذرائع استعمال کیے جارہے ہوں،ہر اہم سفارش پر کھلے عام تنقید کی جارہی ہو،کیا اس ملک میں آئینی عبارتوںسے اسلامی نظام کے طلبگاروں کومطمئن کیا جاسکتا ہے؟ بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے قیام پاکستان سے پہلے جس اسلامی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا وہ صرف ایک فکری یا نظری ریاست ہی نہیں تھی بلکہ ایک ایسی ریاست تھی جس میں قرآن وسنت کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں اسلامی نظام کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکے اور یہ جبھی ممکن ہوگا جب ہمارے سیاسی رہنما قرآن وسنت کی تعلیمات کی مخالفت کرنے کے بجائے عملی طور پر نفاذ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی تحریکوں کی حمایت پر آمادہ و تیار ہوجائیں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں