آج قرار دادِ پاکستان کو پیش ہوئے 74برس بیت چکے ہیں ۔ یہ قرار دادپاس ہونے کے چند برس بعد پاکستان معرض ِ وجود میں آگیا۔ پاکستان اس وقت دنیائے اسلام کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے موسموں اور قدرتی وسائل سے نوازاہے ۔ پاکستان کی ترقی کی خواہش ہر محب وطن کے دل میں موجود ہے لیکن ریاست کی اساس اور مستقبل کے حوالے سے اہل ِ پاکستان میں کافی اختلاف پایا جارہا ہے جو اس کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
آزاد خیال طبقے کی غالب اکثریت پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طورپر دیکھتی ہے اور اسی شناخت کو اجاگر کرنے پرزور دیتی ہے جبکہ مذہبی طبقات اسے نظریاتی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں اور تحریک پاکستان کے دوران لگنے والے نعرے ، پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ کو پاکستان کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے تمام طبقات کا اس حقیقت پر مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کے قیام کا ایک مقصدمسلمانان ِ ہند کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو بحال کرناتھا ؛ تاہم اس کے نظریاتی مملکت ہونے کے حوالے سے مختلف موقف سامنے آتے رہتے ہیں اور ہرموقف کا حامی اپنے موقف کی تائید میںدلائل دیتا رہتا ہے۔
اگر ہم ٹھنڈے دل سے علیحدہ وطن کے مطالبے کے اسباب پرغورکریں تو اس حقیقت کو پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ قیام ِ پاکستان کا واحدمقصد صرف مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی پستی کو دورکرنا نہیں تھاکیونکہ یہ مقصد تقسیم کے بغیر بھی مکمل ہو سکتا تھا۔جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں مسلمان اپنی سیاسی ساکھ کو متحرک سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں بحال کروا سکتے تھے ۔ بھارت کے دوکناروں پر بنگال، پنجاب،خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان واقع تھے۔ان تمام علاقوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی اور ان کی رائے کے بغیر کسی بھی صوبائی حکومت کا قیام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا ۔ مسلمانوں کو ان علاقوں سے مرکزی پارلیمان میں مؤ ثر نمائندگی بھی حاصل ہو سکتی تھی اور مسلمان مختلف سیاسی فورمزکے ذریعے اپنے حقوق کے لیے مؤثر آوازبھی اُٹھا سکتے تھے ۔
مسلمانوں کو انڈیا میں مکمل مذہبی آزادی توحاصل نہیں تھی لیکن انفرادی حیثیت میں وہ بہت سے مذہبی معاملات کی ادائیگی کا اختیار رکھتے تھے ۔ نماز پنجگانہ، روزہ ، زکوٰ ۃ ، حج اور قربانی پرکوئی پابندی نہیں تھی ۔مسلم اکثریتی علاقوں میں گائے ذبح ہوتی تھی اور مساجد کی تعمیر پر بھی کوئی خاص پابندی نہیں تھی۔مسلمان شادی بیاہ اور طلاق کے معاملات کو بھی قرآن و سنت کی روشنی میں انجام دے سکتے تھے۔
اس صورت حال میں ہمارے اکابرین نے اگر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تواس کا بڑا سبب نہ تو سیاسی اور سماجی حیثیت کی بحالی تھی اور نہ ہی مذہبی فرائض کی انجام دہی میں حائل کسی رکاوٹ کو دورکرنا تھا۔اس کا بنیادی اوراہم ترین سبب یہ تھا کہ مسلمان رہنما اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ انڈیا میں رہتے ہوئے مسلمان ایک فلاحی اسلامی ریاست کے حصول میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سرسید احمد خاں سے لے کر علامہ اقبال تک ، مولانا ظفر علی خاں سے لے کر حضرت محمد علی جناح تک اور مولانامحمد علی جوہر سے لے کر نواب بہادر یارجنگ تک مسلمان رہنماؤں کی غالب اکثریت نے قوم کو اس بات کا درس دیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اکٹھے رہنا محال ہے اور مسلمانوں کو ہر صورت میں ایک علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہیے جس میں اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ریاستی معاملات کو چلایا جا سکے۔ بانی پاکستان کی بہت سی تقریروں میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور پاکستان کا دستور قرآن مجیدکو قرار دیاگیا۔
اسی مذہبی جذبے کے تحت پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانانِ ہند نے زبردست جدوجہدکی ۔ مسلمانانِ ہند کی ایک ہی تمنا تھی کہ ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے جو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست ہو۔ اپنے مذہب کی بقا اور نفاذ کے لیے بھارت کے طول و عرض سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی جس میں بڑی تعداد میں بزرگ ، نوجوان اور بچے شہید ہوئے، بڑی تعداد میں مسلمان عورتوں کی آبرو پامال کی گئی۔اپناگھر بار چھوڑکر آنے والے لوگوں کو پاکستان پہنچنے کی بہت خوشی تھی اور وہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں اپنے خوابوں کی تعبیرمل گئی ہے۔
بانی ِپاکستان کی زندگی نے وفا نہ کی اوروہ آزادی کے تھوڑاعرصہ بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے انتقال کی وجہ سے پاکستان میں فکری انتشارپیداہوگیا،حکمران اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے رفتہ رفتہ تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔
بعض بااثرافراداوررہنما پاکستان کو ایک ترقی یافتہ قومی ریاست بنانا چاہتے تھے جبکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو پاکستان کوایک نظریاتی مذہبی ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے ۔ اگرچہ 1956ء میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا لیکن دونوں افکارکے درمیان کشمکش برقرار رہی اور عملی طور پر اسے ایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی جدوجہدکی جاتی رہی۔
ملک کوایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی خواہش رکھنے والے رہنمااس حقیقت کو نظر اندازکرتے رہے کہ پاکستان کو قومی ریاست کی حیثیت سے برقرار رکھنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ ایک کثیرالقومی ریاست ہے جس میں بنگالی،پنجابی ،سندھی اور بلوچیوں کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آبادہیں ۔اگر مذہب کور یاستی معاملات اور ریاست کی شناخت سے الگ کر دیا جائے تو پاکستان کا اپنا وجود خطرے سے دوچار ہو سکتاتھا۔ یہ بات پاکستان کے بعض ناعاقبت اندیش سیاستدانوں اور رہنماؤں کی سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے چند بنیادی انسانی ضروریات کو اپنی سیاست کا نعرہ اور محور بنا کر مذہب کی افادیت کو فراموش کر دیا ۔اس کا نتیجہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان لسانی تنازعے کی شکل میں نکلا۔ بنگالیوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی،مغربی پاکستان کے نمایاں رہنماؤں نے اس صورت حال میں نظریہ پاکستان کو اُجاگرکرنے کے بجائے طاقت کے دوعلیحدہ مراکز قائم کرنے کے فلسفے کو ترویج دی۔اس کشمکش کے دوران پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ایک ٹکڑ ابنگلہ دیش کے نام سے بنگالیوں کی قومی ریاست بن گیا جبکہ دوسرا ٹکڑا پاکستان کے نام سے برقرارہے ۔
سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہر پاکستانی کے لیے باعث ِ تشویش تھا لیکن اس کے اسباب کو سنجیدگی سے جاننے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ سیدھی بات یہ ہے کہ ریاستی امور سے مذہب کو علیحدہ کرکے تعصبات کی تحلیل کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
1973ء میں پاکستان کا متفقہ آئین تیارکیا گیا جس کو تمام سیاسی اور مذہبی طبقات کی تائید حاصل تھی۔اس آئین میں جہاں ملکی معاملات کو چلانے کے لیے آئینی ڈھانچے کے خدوخال پر بحث کی گئی وہیں آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت بھی دی گئی اوراس کی مختلف شقوں میں اس امرکی یقین دہانی کرائی گئی کہ ملک میں کوئی قانون قرآن وسنت کی روح کے خلاف تشکیل نہیں پاسکے گا۔
مذہبی طبقات آئین تشکیل پا جانے کے بعد بہت مسرور تھے کہ ملک کو جس بنیاد پر بنایا گیا تھا آئین میںاسے تسلیم کر لیا گیاہے؛ تاہم یہ خوشی اس لیے دیر پا ثابت نہ ہو سکی کہ آئین کے بن جانے کے باوجود عملی طور پر پاکستان کے بہت سے معاملات دین اور شریعت کی روح کے خلاف تھے۔ ملک میں سودی لین دین جاری رہا،شراب پر پابندی عائد نہ کی جاسکی ،فحاشی و عریانی کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جسم فروشی کا کاروبار بتدریج صنعت کی شکل اختیارکر تا چلاگیا۔
1973ء کے آئین کو بنے ہوئے چارعشرے گزرچکے ہیں لیکن تاحال ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکا۔آج بھی مختلف فورمز پر یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کوکس قسم کی ریاست ہو ناچاہیے۔ متفقہ آئین کی تشریحات کے حوالے سے بھی مختلف طبقات کی آراء میںشدید قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے جسے حل کیے بغیر پاکستان صحیح معنوں میں ترقی کی شاہراہ پرگامزن نہیں ہو سکتا۔مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کی شاعری،بانی پاکستان کی تقاریر اورانڈیا کو خیر باد کہہ کر آنے والے اکابرین کی جدوجہد تو لاالہ الا اللہ کی عمل داری کے لیے تھی لیکن پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور باسیوں کی ایک بڑی تعداد تاحال پاکستان کا مطلب اور وجہِ تخلیق سمجھنے سے قاصر ہے ۔