23مارچ 1940کو قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی اورچند سالوں کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا ۔پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا تھا اور تحریک ِپاکستان کے رہنماؤں نے مسلمانانِ ہند سے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے بوجوہ یہ وعدہ پورا نہ ہوسکا ۔ ہرسال 23مارچ کو قرارداد ِ پاکستان کی روح کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ملک بھر میں اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور مختلف سیاسی اور مذہبی رہنما اپنے اپنے انداز میں قوم کو اپنا پیغام دینے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔
اس سال بھی ملک بھر میں تقریبات ، جلسوں ، اجتماعات ، کانفرنسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیا ۔لاہور میں جماعت الدعوۃ کے زیر اہتمام احیائے نظریہ پاکستان مارچ ،جبکہ کراچی میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام تحفظ پاکستان کنونشن اور وفاق المدارس العربیہ کے زیر اہتمام پیغام امن کانفرنس کا انعقاد ہو ا۔
لاہور میں ہونے والے پروگرام میں پروفیسر حافظ محمد سعید کے علاوہ مختلف دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی مدعوتھے جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا ۔مقررین نے اپنی تقریروں میں پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور مسائل کی وجہ نظریۂ پاکستان سے دوری کو قرار دیا ۔تما م رہنماؤں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ قرار دادِ پاکستان کو منظور ہوئے 74 برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال حقیقی معنوں میں پاکستان اسلامی ریاست نہیں بن سکا۔ سودی بینکاری نظام، بڑے ہوٹلوں میں شراب کی تجارت ،بے حیائی کے فروغ اور امریکہ کی غلامی کی موجودگی میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
مقررین نے ماضی اور حال کے حکمرانوں کے طرزِ عمل پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے بانی پاکستان کے نظریہ و افکار کو آگے بڑھانے کی بجائے پاکستان کو سیکولر ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے میں بھی پاکستان حکمرانوں کی غفلت اور بے عملی کا نمایاں کردار ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور بھارت کے معاندانہ اور جانبدارانہ رویے کے باوجود اس کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی شدید مذمت کی گئی۔ عوام کے جم غفیر نے پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الااللہ کے نعرے لگا کر تحریک پاکستان کے موقع پرپائے جانے والے جذبات کو از سرنو زندہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
کراچی میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پاکستان کے مختلف ادوار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے آزادی کے بعد 66برس آمریت اور جمہوریت کے سائے میں گزار دیے ہیں ۔ان 66برسوں کے دوران پاکستان کے حالات میں کوئی واضح تبدیلی نہیںآسکی اور مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔انہوں نے کہا کہ ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے اب حقیقی معنوں میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ملک میں شریعت نافذہونی چاہیے اور نفاذ شریعت کے لیے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو اپنے اختیارات بھرپور طریقے سے استعمال کرنے چاہئیں۔ انہوں نے اس موقع پر طالبا ن کے نفاذ شریعت کے مطالبے کو درست تسلیم کیا لیکن ان کے طریقے کار سے اختلاف کیا۔ انہوں نے تشدد کے ذریعے اسلام کے نفاذ اور طاقت کے ذریعے اس مطالبے کو دبانے والوں کے طرز عمل کو ناقابل قبول قرار دیا ۔ امیر جماعت اسلامی اور ان کے ہمراہ دیگر خطاب کرنے والے رہنماؤں کا مرکز و محور پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تھا ۔اسی روز صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے ایک سینئر رہنما نے نفاذ اسلام کے لیے اہل پنجاب سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ۔جماعت اسلامی کے رہنما کا کہنا تھاکہ اگر صوبہ پنجاب نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا تو کل پاکستان کاجغرافیہ بھی تبدیل ہو سکتا ہے ۔ان کا یہ بیان صوبہ خیبر پختونخوا میں نفاذ اسلام کے لیے پائے جانے والے جذبات کا اظہار تھا۔
وفاق المدارس العربیہ کے زیر اہتمام ہونے والی پیغام امن کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن ،مفتی رفیع عثمانی اور دیگر علماء نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں مقررین نے تحفظ پاکستان آرڈنینس پرشدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس آرڈنینس اور دیگرحکومتی پالیسیوں کو مدارسِ دینیہ کے خلاف ایک سازش سے تعبیر کیا ۔اس سے چند روز قبل ملتان میں بھی اسی قسم کے کنونشن کا انعقاد کیا گیا اور اس دن بھی وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ علما ء نے حکومتی رویے پر غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ کراچی میں ہونے والی کانفرنس میں علماء نے مشترکہ طورپر کہا کہ اگر مدارس کے خلاف کوئی قدم اُٹھا یا گیا تو بھرپور دفاع کریںگے ۔یاد رہے !کہ مولانا فضل الرحمن اس وقت حکومتی اتحاد کاحصہ ہیں لیکن وہ حکومت کی مدارس کے متعلق پالیسی پر پہلے بھی کئی مرتبہ تنقید کر چکے ہیں ۔ماضی قریب میں مدارس دینیہ کے تحفظ کے لیے بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگروزیراعظم نے اس حوالے سے کوئی مثبت پالیسی نہ اپنائی تو وہ ان کے خلاف اعلان جنگ کریں گے ۔
23مارچ کو ہونے والی تینوں تقریبات کے مندرجات پرغور کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا کچھ مشکل نہیں کہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر بننے والے ملک میں دینی طبقات یا تو احساس ِ محرومی کاشکار ہیں یا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔اگر تمام دینی طبقات اور رہنما اس حوالے سے ہم آواز ہیں تویہ بات حکومت اور پالیسی ساز اداروں کے لیے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو مذہبی طبقات کے تحفظات دور کرنے کے لیے فی الفور اقدامات کرنے چاہئیں اور علماء کے بیانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ علماء اور مذہبی جماعتوں کے بعض ناقدین علماء کے ان خدشات کو توہمات سے تعبیرکرتے ہوئے سب اچھا کی صدا بلندکرتے رہتے ہیں حالانکہ علماء کے یہ خدشات بے جا نہیں ہیں ۔حال ہی میں گوجرانوالہ شیرانوالہ باغ میں ہونے والی نفاذ اسلام کانفرنس کے انعقاد کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے دوران مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ اس وقت ملک میں مذہبی جماعتوں، اداروں اور شخصیات کو وہ آزادی اور سہولیات حاصل نہیں جو کسی بھی مسلمان ملک میں ہونی چاہئیں۔
کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہے اور ہر شخص کو اپنی مرضی کے نظریات رکھنے اور ان کا پرچار کرنے کی اجازت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نفاذ اسلام کی بات کرنے والے بہت سے علما ء اس وقت لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ان میں سے ایک نمایاں شخصیت سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بااثر خطیب پروفیسر عبدالجبار شاکر صاحب کی ہے ۔پروفیسر صاحب انتہائی صاحب علم اور صاحب حکمت مبلغ ہیں ۔آپ تقریبا ً تین ماہ سے لاپتہ ہیں، ان کے اہل خانہ اور معتقدین ان کی گمشدگی کے حوالے سے انتہائی پریشان ہیں۔ان کی برآمدگی کے لیے جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالی جاچکی ہیں اور مختلف اداروں کے دروازوں تک دستک دی جا چکی ہے لیکن ان کی برآمدگی کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اگر حالات ایسے ہی رہے اور دینی ادارے ، شخصیات اورعلماء کے خلاف جانبدارانہ رویے کامظاہرہ ہوتا رہا تو ملک میں خواہ مخواہ طبقاتی کشمکش کی کیفیت پیدا ہوگی اور ملک کو امن و سکون کا گہوارا بنانے کی کوششیں اور خواہشات تشنہ رہ جائیں گی ۔